دنیا بھر میں آتشک نامی جنسی بیماری اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟
- مصنف, کرپا پاڈھی
- عہدہ, بی بی سی فیوچر
آتشک یا سوزاک کی جنسی بیماری، جسے انگریزی زبان میں ’سفلس‘ کہا جاتا ہے، 1490 میں پہلی بار ریکارڈ ہونے کے بعد سے مختلف ناموں سے پہچانی گئی۔ ان ناموں میں ’فرینچ ڈیزیز‘، ’پولیش ڈیزیز‘ بھی شامل ہیں۔
لیکن ایک نام ایسا ہے جو اس بیماری کی پہچان بن گیا۔ یہ نام ہے ’دی گریٹ امیٹیٹر‘ یعنی نقل کرنے والی بیماری۔ اس نام کی وجہ یہ ہے کہ سفلس یا آتشک بیماری دوسری بیماریوں کی نقل کرنے میں مہارت رکھتی ہے جس کی وجہ سے اس کی ابتدائی علامات عام طور پر نظر انداز ہو جاتی ہیں لیکن اگر اس بیماری کا علاج نہ کیا جائے تو اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔
33 سالہ تشار، ایمسٹرڈیم میں پراجیکٹ افسر ہیں۔ ان کو دو بار سفلس کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ان کو یاد ہے کہ پہلی بار یہ خبر ان کے واٹس ایپ پر ان کے اس وقت کے سیکس پارٹنر نے دی تھی۔
’انھوں نے مجھے ذمہ دار قرار دیا جو ممکن نہیں تھا۔ مجھے یہ سب کافی عجیب لگا اور سنبھلنے میں بھی وقت لگا۔‘
تشار نے اپنا ٹیسٹ کروایا اور پھر علاج شروع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ لوگ یہ بات نہیں جانتے کی کسی میں سفلس کی اینٹی باڈیز ہونے کے باوجود یہ بھی ممکن ہے اس کو یہ بیماری لاحق نہ ہو۔‘
اپریل میں امریکہ نے جسنی تعلق کی وجہ سے منتقل ہونے والی بیماریوں، جنھیں ’سیکشوئلی ٹرانسمیٹڈ ڈیزیز‘ یا ایس ٹی ڈی کہا جاتا ہے، کے اعداد و شمار جاری کیے۔
ان اعداد و شمار کے مطابق 2020 سے 2021 کے درمیان اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔ 70 سال کی تاریخ میں اس بیماری کے کیسز ایک سال میں 32 گنا بڑھ گئے اور وبا کی شکل اختیار کر جانے والی یہ بیماری کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
سی ڈی سی، جو بیماریوں سے بچاؤ کا امریکی ادارہ ہے، کے مطابق تیزی سے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس بار چند خطرناک رجحانات بھی سامنے آئے ہیں۔
ان میں سے ایک رجحان یہ ہے کہ ’کنجینیٹل سفلس‘، جو ایسی حاملہ ماں سے بچے میں منتقل ہو جاتا ہے جسے خود یہ بیماری اپنے پارٹنر سے لگتی ہے۔
بیماری کی یہ قسم پیدائش کے وقت بچے کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ طویل المدتی صحت کے مسائل پیدا کر سکتی ہے جو ساری زندگی پیچھا نہیں چھوڑتے۔
ان رجحانات نے ماہرین صحت کو کافی پریشان کر دیا ہے۔
لیانارڈو مینا سی ڈی سی کے اس ڈویژن کی سربراہ ہیں جو جنسی تعلق کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کو دیکھتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 15-20 سال پہلے ’ہمیں لگتا تھا کہ ہم سفلس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے قریب ہیں لیکن اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس میں اضافہ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور گزشتہ 20 برس میں یہ بیماری اتنی تیزی سے کبھی نہیں پھیلی۔‘
یہ بیماری صرف امریکہ میں ہی نہیں پھیل رہی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2020 میں دنیا بھر میں سفلس کے 71 لاکھ نئے کیس سامنے آئے۔ 2022 میں سفلس کے کیسز کی تعداد 1948 کے بعد سب سے بلند سطح پر پہنچ گئی۔
جنسی صحت کے ماہرین اس رجحان سے واقف ہیں۔ جوڈی کراس مین برطانیہ کی ایس ٹی آئی فاؤنڈیشن سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’2005 میں جب میں نے کام کا آغاز کیا تھا تو سفلس کے کیس بہت کم ہوتے تھے لیکن اب شہر کے کلینکس میں روزانہ کی بنیاد پر دو سے تین مریض علاج کے لیے آ رہے ہیں۔‘
اس بیماری کی وجہ ’ٹریپونیما پلیڈیئم‘ نامی بیکٹیریئم ہوتا ہے اور اس کی علامات چار مراحل میں ظاہر ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے مرحلے میں سوزش یا خارش شروع ہوتی ہے لیکن درد کا احساس نہیں ہوتا۔ اس بیماری کا علاج ممکن ہوتا ہے لیکن اگر علاج نہ کروایا جائے تو طویل المدتی اعصابی یا دل کی بیماریوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
کینیڈا کی ٹورونٹو یونیورسٹی کے ایساک بوگوچ کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ہم دنیا کے مختلف ممالک میں جو رجحان دیکھ رہے ہیں وہ کافی تشویشناک ہے کیونکہ عام طور پر اس بیماری کا علاج تو آسان ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسا لگتا ہے کہ صحت کے نظام میں مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔‘
کینیڈا میں بھی 2011 سے 2019 کے درمیان سفلس کے کیسز دوسری جنسی بیماریوں کے مقابلے میں میں 389 گنا زیادہ تھے۔
حالیہ دہائیوں میں یہ بیماری ہم جنس افراد یا ایسے مردوں میں زیادہ سامنے آئی ہے جو دونوں صنفوں سے سیکس کرتے ہیں لیکن دوسری جانب دنیا کے چند حصوں میں مردوں میں اس بیماری کا رجحان کم ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر کینیڈا میں سفلس مردوں میں اب پہلے سے کم ہو رہی ہے۔
دوسری جانب صرف کینیڈا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں خواتین میں یہ بیماری بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ’کنجینیٹل سفلس‘ کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ شمالی اور لاطینی امریکہ میں 2021 میں ماں سے بچے کو منتقل ہونے والے ایسے 30 ہزار کیسز سامنے آئے جو ماہرین صحت کے مطابق ’ناقابل قبول اضافہ‘ ہے۔
امریکہ میں 2016 کے مقابلے میں 2020 میں کنجینیٹل سفلس کے کیسز ساڑھے تین گنا زیادہ تھے۔ 2021 میں اس بیماری میں اور اضافہ ہوا جس کی وجہ سے 220 بچے پیدا ہونے سے قبل یا پیدا ہوتے ہی وفات پا گئے۔
ملک کے چند حصوں میں اس بیماری کا رجحان دوسرے علاقوں سے زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر مسی سیپی ریاست میں پانچ سال میں ایسے کیسز میں 900 گنا اضافہ ہوا۔ زیادہ تر کیسز سیاہ فام یا ہسپانوی خواتین میں سامنے آئے ہیں۔
ماریا سندرم امریکی ریاست وسکونسن میں مارشفیلڈ چلینک ریسرچ سے وابستہ محقق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار طبی شعبے میں موجود نسلی امتیاز کو ظاہر کرتے ہیں۔
خواتین کا سب سے زیادہ کمزور طبقہ، جو منشیات استعمال کرتا ہے یا بے گھر ہو چکا ہے، اس بیماری سے بھی سب سے زیادہ متاثر ہے۔ کورونا کی وبا نے بھی دنیا بھر میں عدم مساوات میں اضافہ کیا۔
ماریا کا کہنا ہے کہ طبی کمیونٹی میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ جنسی بیماریوں میں اضافے کا تعلق کورونا وبا کے دوران جنسی بیماریوں کی روک تھام کی کوششوں میں آنے والے تعطل سے ہے۔
ایک اور مسئلہ جنسی بیماریوں کے ٹیسٹ کرنے والے مقامات تک رسائی اور اس بیماری سے جڑے معاشرتی رویوں کا بھی ہے۔
برازیل میں ہونے والی ایک تحقیق میں کم تعلیم یافتہ خواتین اور کنجینیٹل سفلس کے کیسز میں تعلق دیکھا گیا۔ بہت سے کیسز میں خواتین حمل کے دوران ایسی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں کر پاتیں جو سفلس جیسی بیماریوں کا ٹیسٹ کر سکیں۔
کیلیفورنیا میں ہونے والی ایک اور تحقیق میں تارکین وطن، میڈیکل انشورنس اور حاملہ خواتین سے جنسی یا گھریلو تشدد کا کردار بھی واضح کیا گیا۔ اس تحقیق میں جن خواتین کا انٹرویو کیا گیا ان میں سے نصف کا تعلق ہسپانوی یا لاطینی نسل سے تھا۔
2020 میں آسٹریلیا میں بھی سنہ 2015 کے مقابلے میں سفلس کے کیسز میں 90 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ تقریباً چار ہزار کیس آسٹریلیا کے مقامی باشندوں اور ٹوریز سٹریٹ ساحلی کمیونٹیز میں تھے جو آسٹریلیا کی آبادی کا صرف 3.8 فیصد ہیں۔
لیکن ایک جانب جہاں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کورونا کی وبا نے عوامی صحت کی سہولیات پر دباؤ ڈالا ہے وہیں جنسی بیماریوں سے جڑے انسانی اور معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
مینا کا کہنا ہے کہ 1990 کی دہائی میں ایڈز کے علاج کے بعد بڑی تبدیلی آئی۔ ’اب ایڈز کو ایک بیماری کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کے خوف سے لوگ سیکس کے لیے کنڈوم یا دیگر طریقے استعمال نہیں کر رہے جو پہلے جنسی بیماریوں سے بچاؤ کا اہم ذریعہ سمجھے جاتے تھے۔‘
جاپان میں ڈیٹنگ ایپس اور سفلس کے کیسز میں تعلق پر ہونے والی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ ڈیٹنگ ایپس کا استعمال سفلس سے جڑا ہے۔
جاپانی نوجوانوں اور سیکس کے متعلق لکھنے والے ساساکی چیواوا کا کہنا ہے کہ ’اب سیکس ورکرز کی بڑی تعداد کنڈوم استعمال نہیں کر رہی اور نا ہی وہ صارفین کو جنسی بیماریوں کا ٹیسٹ کروانے کا کہتے ہیں۔‘
’اگر سیکس ورکر کو جنسی بیماری ہوتی ہے تو وہ اسے بدقسمتی قرار دیتے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثریت کے لیے پیسہ کمانا زیادہ اہم ہے۔‘
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس بیماری سے بچاؤ کے لیے دوائی تو موجود ہے لیکن زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کے ذریعے اس کی شناخت کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ جنسی بیماریوں سے جڑے منفی معاشرتی رویوں سے نمٹنا بھی ضروری ہے جس کے لیے عوامی سطح پر آگہی مہم اور محفوظ سیکس کی ترغیب دینا بھی اہم ہے۔
کراس مین کا کہنا ہے کہ کسی جنسی بیماری کی تشخیص ہونے سے کوئی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ ’یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے نزلہ یا زکام ہو جاتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ خوفزدہ ہونے کے بجائے لوگ سمجھیں کہ یہ ان کی اچھی جنسی زندگی کے لیے ضروری ہے۔‘
تاہم اب تک سائنس دان کسی ایک نظریے پر متفق نہیں ہو سکے کہ یہ بیماری اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔
مینا کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد موجود نہیں کہ یہ بیماری پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکی ہے جبکہ بوگوچ کہتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک کے خاف مزاحمت بھی اتنی زیادہ نہیں کہ اسے اس بیماری میں اضافے کی وجہ قرار دیا جا سکے۔
جہاں تک تشار کی بات ہے تو وہ ہر تین ماہ بعد اپنا ٹیسٹ کرواتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ بظاہر پڑھے لکھے لوگ بھی الزام تراشی پر اتر آتے ہیں۔ ان کو سائنسی طرز پر سوچنا چاہیے۔ ہم سیکس کرتے ہیں تو ایسا ہو جاتا ہے۔‘
Comments are closed.