دمشق میں ’اسرائیلی فضائی حملے‘ میں ہلاک ہونے والے ایرانی جنرل زاہدی کون تھے اور پاسداران انقلاب کی قدس فورس کیا ہے؟،تصویر کا ذریعہWIKIMEDIA2 اپريل 2024، 10:42 PKTاپ ڈیٹ کی گئی ایک گھنٹہ قبلشام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر ہونے والے میزائل حملے میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں دو سینیئر اہم ایرانی عسکری حکام بھی شامل ہیں۔ایران اور شام نے اسرائیل کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے جس میں ایرانی سفارتخانے سے ملحقہ عمارت تباہ ہوئی تاہم اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ عالمی میڈیا کی خبروں پر بات نہیں کرتی۔اسرائیل نے ماضی میں شام میں سینکڑوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کو نشانہ بنایا گیا جن کو ایرانی پاسداران انقلاب اسلحہ، سرمایہ اور تربیت فراہم کرتے ہیں۔پیر کو ہونے والے اس حملے میں 63 سالہ محمد رضا زاہدی بھی ہلاک ہوئے جو ایرانی پاسداران انقلاب کے بریگیڈیئر جنرل اور ’قدس فورس‘ کے سینیئر کمانڈر تھے۔

ان کے ساتھ جنرل محمد حاجی رحیمی بھی اُس اچانک ہونے والے حملے میں مارے گئے جو شامی وزارت خارجہ کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے گولان کی پہاڑیوں کی جانب سے کیا۔جنرل محمد رضا زاہدی شام اور لبنان میں قدس فورس کے کمانڈر تھے جہاں انھوں نے شام میں بشار الاسد اور لبنان میں حزب اللہ کو عسکری مدد فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔آئیے جانتے ہیں کہ رضا زاہدی کون تھے اور قدس فورس کیا ہے؟،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشناس حملے میں ایرانی سفارت خانے کو تو نقصان نہیں پہنچا لیکن اس کے ساتھ ہی موجود کثیر منزلہ عمارت تباہ ہو گئی

رضا زاہدی کون تھے

قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اب رضا زاہدی قدس فورس میں کسی حملے کا نشانہ بننے والے سب سے سینیئر رُکن ہیں۔رضا زاہدی ایران اور حزب اللہ کے درمیان رابطے قائم رکھنے کے ذمہ دار سمجھے جاتے تھے جسے یورپی یونین سمیت امریکہ اور چند دیگر مغربی ممالک دہشت گرد تنظیم کا درجہ دیتے ہیں۔رضا زاہدی دو نومبر 1960 کو پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1980 میں پاسداران انقلاب میں شمولیت اختیار کی اور پھر عراق اور ایران کی جنگ میں حصہ لیا۔سنہ 1983 سے 1986 تک رضا زاہدی نے ’بنی ہاشم‘ ڈویژن کی کمان کی جس کے بعد 1991 تک انھوں نے امام حسین ڈویژن کی کمان کی۔سنہ 1998 سے 2002 تک رضا زاہدی نے پہلی بار لبنان میں قدس فورس کی سربراہی کی اور اس دوران حزب اللہ کو ہر ممکن امداد فراہم کی۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesسنہ 2005 سے 2008 تک رضا زاہدی پاسداران انقلاب کے بری دستوں کے سربراہ رہے اور اس دوران ان کو ایران کے دارالحکومت تہران کی سکیورٹی کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔سنہ 2008 میں رضا زاہدی ایک بار پھر قدس فورس کا حصہ بنے اور سوموار کو ہونے والے حملے سے قبل شام اور لبنان میں تنظیم کے سربراہ تھے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دوران رضا زاہدی نے جنوبی لبنان میں اسرائیلی افواج کے خلاف کارروائیوں میں حزب اللہ کو اسلحہ اور تکنیکی مہارت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس کے ساتھ رضا زاہدی نے شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کو ایران کی جانب سے عسکری امداد فراہم کرنے میں کردار ادا کیا اور پاسداران انقلاب کے اس یونٹ کے بھی سربراہ رہے جو شام میں اسلحہ اور عسکری ساز و سامان پہنچانے کی ذمہ دار تھی۔سنہ 2010 سے رضا زاہدی کا نام امریکی محکمہ خزانہ کی اس فہرست میں شامل تھا جس کے تحت دہشت گردوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے کیوںکہ اُن پر الزام تھا کہ وہ لبنان اور شامی خفیہ ایجنسیوں کی مدد کر رہے ہیں اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

قدس فورس: ایرانی خارجہ پالیسی کا اہم جزو

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesقدس فورس کو ایران کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے اور متعدد ماہرین کے مطابق قدس فورس سپیشل فورسز اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا امتزاج ہے جو پاسداران انقلاب میں وسعت کے بعد امور خارجہ کا ایک اہم جزو بن گئی۔اس فورس کے نام کا عربی اور فارسی میں مطلب ہے ’یروشلم‘ کیوںکہ اس کے جنگجو اس شہر کو آزاد کروانے کا عہد کرتے ہیں۔یہ فورس خفیہ طریقے سے دنیا کے مختلف ممالک میں کام کرتی ہے اور اسے لبنان میں حزب اللہ اور عراق اور افغانستان میں مختلف شیعہ عسکری گروہوں سے جوڑا جاتا ہے۔قدس فورس پر 1983 میں لبنان میں ہونے والے ایک جان لیوا حملے کے لیے بھی ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے جس میں 241 امریکی فوجی، 58 فرانسیسی فوجی اور چھ لبنانی شہری ہلاک ہوئے تھے۔امریکہ اور یورپی یونین نے قدس فورس پر الزام لگایا ہے کہ اس نے شام میں صدر بشار الاسد کو باغیوں کے خلاف جنگ میں اسلحہ فراہم کیا۔ امریکہ نے اس فورس کو طالبان کی تربیت کرنے اور اسلحہ فراہم کرنے کا بھی ذمہ دار قرار دیا ہے۔قدس فورس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تنظیم براہ راست کسی عسکری حملے میں حصہ نہیں لیتی بلکہ صرف مشاورت اور حمایت فراہم کرتی ہے تاکہ ایران کسی بھی عسکری کارروائی میں ملوث ہونے سے انکار کر سکے اور امریکہ سے براہ راست تنازعے سے بچ سکے۔

پانچ ہزار سے دس ہزار اراکین

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنقاسم سلیمانی 1998 سے 2020 میں ہلاکت تک قدس فورس کے سربراہ تھے
چونکہ قدس فورس انتہائی خفیہ طریقے سے کام کرتی ہے، اس لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ اس کے اراکین کی تعداد کتنی ہے۔ تاہم مختلف تجزیوں کے مطابق قدس فورس میں پانچ ہزار سے دس ہزار تک اراکین شامل ہیں۔ان اراکین کو مہارت اور جمہوریہ ایران سے وفاداری کے باعث منتخب کیا جاتا ہے۔ قدس فورس دوسرے ممالک میں اتحادی عسکری گروہوں اور افواج کو مدد فراہم کرتی ہے اور اسی لیے اس کے اراکین کی تعداد اس فورس کی صلاحیت اور طاقت کو جانچنے کا درست پیمانہ نہیں ہیں۔سنہ 1979 سے قدس فورس کا مقصد ایران کے مخالفین سے لڑنا اور ملک کے اثرورسوخ کو خطے میں پھیلانا ہے۔ اس فورس کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس نیم عسکری تنظیم کو ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ اس فورس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قدس فورس مشرق وسطی میں ایران کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے کا بنیادی میکانزم فراہم کرتی ہے۔‘دوسری جانب ایران کی حکومت نے متعدد بار ان الزامات کو رد کیا ہے اور امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ مشرق وسطی میں امن و امان کی صورت حال کا اصل ذمہ دار وہ خود ہے۔واضح رہے کہ جنوری 2020 میں امریکہ نے قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا تھا جس کے بعد ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر جوابی حملے کیے اور دونوں ممالک میں تناؤ میں اضافہ ہوا۔قاسم سلیمانی کے بعد جنرل اسماعیل نے ان کی جگہ لی جو اس وقت بھی قدس فورس کے سربراہ ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}