ملک بھر میں قیامت خیز بارشوں نے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں تباہی کے نئے ریکارڈز قائم کردیے۔ اس کے نتیجے میں کئی علاقے ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئے ہیں، کروڑوں افراد اپنے گھروں، مال مویشی، اناج اور جمع پونجی سے محروم ہوگئے۔
موجودہ بارشوں نے پچھلے تمام ریکارڈز توڑدیے ہیں لوگ پناہ لینے مجبور ہوگئے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر تباہی کے جو مناظر دکھائے جا رہے ہیں وہ ایک ذی شعور کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
ریکارڈ بارشوں نے ملک کے کئی خاندانوں کو غم اور نہ بھلانے والی یادوں سے دوچار کردیا، ریل اور روڈ نیٹ ورک سمیت انفرا اسٹریکچر کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا، زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، کھڑی فصلیں پانی کی نذر ہوگئیں، نقصانات کے اندازے اور تخمینے لگائے جا رہے ہیں لیکن اس کا اندازہ اس وقت ہوگا جب یہ پانی میدانی علاقوں اور شہروں سے نکالا جائے گا جو چھوٹے بڑے ڈیم بنائے بھی گئے تو وہ بھی اس پانی کے آگے ریت ثابت ہوئے پانی بنے بنائے ڈیم اپنے ساتھ لے گیا۔
ماضی میں سیلاب دریاؤں کے بہاؤ میں اضافے کے بعد آتے تھے اس مرتبہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہیں، اس کا پاک سرزمین کو سامنا رہے گا جو اس سال ہوا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگلے سال نہیں ہوگا اب یہ ممکن نہیں، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ اب پاکستان کی آبادی کو اس کے ساتھ گزارا کرنا ہوگا۔ اس کی روشنی میں ہمیں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرنی ہوگی وگرنہ آج کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماضی میں پہاڑی علاقوں میں گلیشئر پگھلنے اور مون سون کی بارشوں کے باعث دریاؤں میں پانی کا بہاؤ تیز ہوجاتا تھا اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔
پاکستان میں بہنے والے دریا جس میں دریائے سندھ سرفہرست ہے، ملک کا جو بھی دریا ہے اس کا تمام پانی گزر کر دریائے سندھ میں داخل ہوتا ہے۔ سندھ سے گزر کر یہ سمندر برد ہوتا ہے۔ ماضی میں ان دریاؤں میں تاریخی ریلے گزرے ہیں مگر آج ہم ایک جائزہ لیتے ہیں کب اور کس وقت ان دریاؤں نے اس کا دباؤ برداشت کیا ہے۔
آج ہم ان دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کا جائزہ لیں تو ماضی کے مقابلے میں اتنا بڑا سیلابی ریلا نہیں گزرا مگر اس کی تباہی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ نظر آتی ہے۔ آج تک ان دریاؤں میں 6 لاکھ سے زائد کا ریلا ابھی تک گزرا نہیں۔
دریائے سندھ کے گڈو بیراج پر 1976 میں 11 لاکھ 99 ہزار سے زائد کیوسک کا سیلابی ریلا گزرا تھا اس کے علاوہ اسی مقام پر 1986 یعنی 10 سال بعد 11 لاکھ 72 ہزار کیوسک اور 1988 میں 11 لاکھ 62 ہزار سے زائد کیوسک کا ریلا گزر چکا ہے۔
سکھر بیراج پر سب سے بڑا ریلا جو انتہائی اونچے درجے کا تھا، 15 اگست 1986 کو 11 لاکھ 66 ہزار کیوسک سے زائد، اسی طرح اس مقام سے 1976 میں 11 لاکھ 61 ہزار کیوسک اور 2010 میں 11 لاکھ 30 ہزار سے زائد کیوسک کا ریلا گزر چکا ہے۔
کوٹری بیراج پر سب سے بڑا تاریخی ریلا 1956 میں 9 لاکھ 80 سے زائد کیوسک پانی سمندر کی جانب گیا۔ اس کے علاوہ 1976 میں 11 لاکھ 61 ہزار کیوسک سے زائد انتہائی اونچے درجہ کا سیلابی ریلا اور اس مقام سے 2010 میں 11 لاکھ 30 ہزار کیوسک سے زائد کا ریلا گزرا۔
دریائے سندھ میں تربیلا کے مقام پر سب سے بڑا سیلابی ریلا 2010 میں 8 لاکھ 32 ہزار سے زائد کیوسک، اٹک پر یہ ریلا 9 لاکھ 79 ہزار کیوسک، چشمہ پر 10 لاکھ 38 ہزار کیوسک کا ریلا، تونسہ کے مقام پر 9 لاکھ 59 ہزار کیوسک، کالا باغ پر 9 لاکھ 37 ہزار کیوسک جبکہ اسی مقام پر 1942 میں 9 لاکھ 50 ہزار کیوسک اور 1976 میں 8 لاکھ 62 ہزار کیوسک پانی کا بہاؤ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
دریائے جہلم میں منگلا کے مقام پر ستمبر 1992 میں یہاں سے انتہائی اونچے درجے کا یعنی 10 لاکھ 90 کیوسک سیلابی ریلا جبکہ اس مقام پر 1929 میں 10 لاکھ 60 ہزار کیوسک اور 1959 میں 10 لاکھ 45 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا گزر چکا ہے۔ رسول کے مقام پر 10 ستمبر 1992 کو 9 لاکھ 52 ہزار کیوسک کا انتہائی اونچے درجے کا سیلابی ریلا گزر چکا ہے۔
دریائے چناب میں مرالہ کے مقام پر تاریخی ریلا اگست 1956 میں گزرا تھا جو 11 لاکھ کیوسک تھا، خانکی پر 1959 میں 10 لاکھ 86 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا، قادرآباد کے مقام پر ستمبر 1992 میں 9 لاکھ 48 ہزار سے زائد کیوسک کا سیلابی ریلا، تریمو پر 1928 میں 9 لاکھ 44 ہزار سے زائد کیوسک اور پنجند پر اگست 1973 میں 8 لاکھ 2 ہزار کیوسک سے زائد کا ریلا گزر چکا ہے۔
دریائے راوی میں جسڑ کے مقام پر 1955 میں 6 لاکھ 80 ہزار سے زائد کیوسک کا انتہائی اونچے درجہ کا سیلابی ریلا، شاہدرہ کے مقام پر 1988 میں 5 لاکھ 76 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا، اس کے علاوہ بلوکی اور سدھنائی کے مقام پر بھی 1988 میں 4 لاکھ کیوسک سے کم کا سیلابی ریلا گزر چکا ہے۔
دریائے ستلج پر اکتوبر 1955 میں سلیمانکی کے مقام پر 5 لاکھ 98 ہزار کیوسک اور 1988 میں 3 لاکھ 99 ہزار سے زائد کیوسک کا سیلابی ریلا اور اسلام ہیڈ ورکس کے مقام اکتوبر 1955 میں 4 لاکھ 92 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا جبکہ 1988 میں 3 لاکھ 8 ہزار کیوسک کا سیلابی گزر چکا ہے۔
اس صورتحال میں کرنا کیا ہے؟
1932 میں بنایا گیا سکھر بیراج جو اپنی مدت پوری کر چکا ہے اس کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس پر نیا بیراج بنایا جائے، ساتھ کوٹری بیراج جامشورو پر بھی نیا بیراج تعمیر کرنے کی ضرورت ہے یہ اپنی مدت پوری کر چکے ہیں۔
اس طرح دیگر بیراجوں پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ ایک قومی ورثہ ہے، ان کو بچانے کی اشد ضرورت ہے اس کو اپنی ترجیح میں شامل کیا جائے، ملک کی زراعت کا انحصار ان بیراجوں پر ہے۔
سیلاب آتے رہیں گے مون سون ماضی کے مقابلے میں شدت کے ساتھ حملہ آور ہوگا، اس کی پیش بندی ضروری ہے اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی ایسا نہ ہو کہ ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ جو دم غافل سو دم کافر۔
Comments are closed.