وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: دراصل آج ہے ضرورت چھپن انچ کے سینے کی
- وسعت اللہ خان
- تجزیہ کار
ان دنوں اردگرد کی دنیا دیکھ کر شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ ہم بھلے زندگی کے ہر پہلو کو اپنا مطیع کر لیں مگر ایک شے پر قابو پانا بظاہر کسی کے بس میں نہیں: ناگہانی۔
ناگہانی وہ اسپِ سیاہ ہے جو وقت کے دھندلکے میں چاق و چوبند چھپا رہتا ہے اور اس وقت آگے بڑھتا ہے جب کسی کے تصور میں بھی نہیں ہوتا کہ یوں بھی کوئی وار کر سکتا ہے۔
ناگہانی کسی بھی بے داغ منصوبے، سائنسی حکمتِ عملی، منطق، ذہانت، تحقیق اور مہارت کو یوں اڑا لے جاتی ہے جیسے بگولا خس و خاشاک کو۔
جیسے اکیس جون 1942 تک پورا یورپ اور شمالی افریقہ ہٹلر کے قدموں میں تھا۔ اب بس سوویت یونین سے نپٹنا تھا۔پھر تو ہر جانب جرمنی ہی کی جے جے کار ہونی تھی۔
وسعت اللہ خان کے دیگر کالم
21 جون 1942 تک پورا یورپ اور شمالی افریقہ ہٹلر کے قدموں میں تھا، اب بس سوویت یونین سے نپٹنا تھا۔ مگر بُرا ہو سٹالن گراڈ والوں کا جنھوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا
برلن کے فوجی ہیڈ کوارٹر میں سوویت یونین پر حملے کی منصوبہ بندی ایک ایک دن کے ممکنہ نتائج و پیش رفت کو سامنے رکھ کے باریک بینی سے بنائی گئی۔
اس حکمتِ عملی کے تحت جرمنوں کی تیز رفتار پیش قدمی ماسکو سے پہلے کہیں رکنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ اور یہ سب کام جون سے ستمبر تک کے تین ماہ میں مکمل ہونا تھا۔
مگر بُرا ہو سٹالن گراڈ والوں کا جنھوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر کے جرمنوں کے انتہائی قیمتی ابتدائی دن ضائع کروا دیے۔ اور کان ٹوٹیں اس ظالم روسی سردی کے جو جرمن اندازوں سے ایک ماہ پہلے ہی کڑاکے دار ہونے لگی۔
یہ دونوں عنصر حکمت عملی کے ماہر جرمن جرنیلوں کے سان گمان میں بھی نہیں تھے۔ یوں نادیدہ اسباب نے سوویت یونین کو ہٹلری خوابوں کا قبرستان بنا ڈالا۔
آٹھ نومبر انیس سو نواسی کو بڑے سے بڑا دیوار کے اس پار دیکھنے کا دعویدار بھی نہیں بتا سکا کہ کل نو نومبر کو دیوارِ برلن میں شگاف پڑنے والا ہے۔ ایک اینٹ کیا نکلی کہ دو برس کے اندر سوویت سلطنت ہی اینٹوں اینٹ ہو گئی۔
امریکہ اور سوویت یونین کے مابین 1949 سے جاری ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایشیا، افریقہ و لاطینی امریکہ کی سرد جنگی بساط پر مہرے چلنے والے شاطروں میں سے کس کے ذہن میں یہ آیا ہوگا کہ آٹھ نومبر 1989 کی دنیا اگلے چوبیس گھنٹے میں تین سو ساٹھ ڈگری گھوم جائے گی۔
23 جنوری 2020 کو چین نے ووہان اور اس کے قریبی شہروں میں کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا
اکتیس دسمبر 2019 کو دنیا نئے سال کے انتظار یا نشے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ آتش بازیاں، ہیپی نیو ایئر پارٹیاں، پپیاں جھپیاں، نیو ایئر ریزو لوشنز، وغیرہ وغیرہ۔
اچانک دن کے کسی حصے میں چین سے ایک پیغام عالمی ادارۂ صحت کے جنیوا صدر دفتر میں ایک ڈیسک پر موصول ہوتا ہے کہ ’شہر ووہان میں نمونیا سے ملتے جلتے بخار کے کچھ مریض سامنے آئے ہیں۔ وائرس کی شناخت جاری ہے۔‘
ڈیسک پر بیٹھے اہلکار نے یہ پیغام پڑھا۔ فائل میں لگایا۔ فائل یہ سوچ کر دراز میں بند کر دی کہ لانگ ویک اینڈ سے واپسی پر دیکھیں گے۔
سات جنوری 2020 کو چین نے اعلان کیا کہ وائرس شناخت کر لیا گیا ہے اور 30 جنوری کو عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ نے کووڈ 19 کی وبا کا پہلا الارم بجا دیا۔
اکتیس دسمبر 2019 کو کون جانتا تھا کہ اگلے برس کا معاشی، سماجی، سیاسی، انسانی چہرہ کووڈ کا لقوی ٹیڑھا کر دے گا۔ کون افلاطون بتا سکتا تھا کہ چھ فیصد کی اوسط سے ترقی کرنے والی عالمی معیشت اگلے برس منھ کے بل منفی گروتھ کے غار میں دھنسنے والی ہے۔
بظاہر آسمان پر بے یقینی کے بادلوں کا کوئی ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ پھر کیوں آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔
یہ ٹھیک ہے کہ ناگہانی کا پہلا حملہ روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ مگر اس کے اثرات کو کم سے کم رکھنا ممکن ہے۔ ناگہانی کے ساتھ ساتھ چلتے سائے سے ڈر کے سفر تو نہیں روکا جا سکتا۔
بس یہ ہے کہ عام آدمی کے بھلے ہاتھ پاؤں پھول جائیں۔ اس کے قائدین کا چہرہ زرد نظر نہیں آنا چاہیے نہ ہی انھیں کسی بھی وقت اپنا فون بند کرنا چاہیے یا خاموشی کے تہہ خانے میں خود کو مقفل کر لینا چاہیے۔
پُرسکون حالات میں تو سب ہی چھپن انچ کا سینہ پھلا لیتے ہیں۔ جب کہ پھیلانے کی سب سے زیادہ ضرورت تو آج ہے۔ ورنہ اچھا بھلا ملک انڈیا ہو جاتا ہے۔
Comments are closed.