دبئی کی چکا چوند سے دور پاکستان سمیت دوسرے ملکوں سے آئے مزدوروں کی دنیا کیسی ہے؟
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں رہنے والے بیلفاسٹ کے ایک استاد نے دولت کی عدم مساوات دیکھنے کے بعد دبئی میں تارکین وطن مزدورں کے کیمپ میں رضاکارانہ خدمات شروع کی ہیں۔
اودھن بینسن دو سال قبل شمالی آئرلینڈ سے دبئی منتقل ہوئے تھے۔
اس سال رمضان کے مہینے میں وہ تارکینِ وطن کے کیمپوں میں رہنے والے مسلمان مزدورں کے لیے افطار کا کھانا تقسیم کرتے رہے ہیں۔
بینسن کا کہنا ہے کہ دبئی میں چکا چوند تو ہے مگر متحدہ عرب امارت کے دوسرے رخ نے انھیں حیران کر دیا۔
انھوں نے کہا ’آپ کو یہاں دولت اور غربت کا فرق برطانیہ کی نسبت کہیں زیادہ نظر آتا ہے۔‘
’یہ دیکھنا کہ ان لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہے یا بہت کم رزق ہے۔۔۔ بہت تکلیف دہ ہے۔‘
’میں واقعی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کتنے لوگ دن کے وقت شدید گرمی یا ہر قسم کے موسم میں تعمیراتی کام کر رہے ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہر فرد کو نماز پڑھنے سے پہلے اپنے افطار کے لیے وقت پر کھانا مل جائے۔‘
’ہم کھانا، مشروبات اور پھل اور چند ضروری اشیا مہیا کرتے ہیں، جیسا کہ تیل اور چینی وغیرہ۔‘
یہ تجربہ، یہ جاننے کا اچھا طریقہ تھا کہ آپ سے کم خوش قسمت لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں۔‘
رمضان کے دوران متحدہ عرب امارات کے تارکین وطن کارکنوں کے کیمپوں میں لاکھوں لوگوں کے لیے افطار کے کھانے تقسیم کیے جاتے ہیں۔
بینسن نے کہا ’ہمیں کام روکنا پڑا کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ کہیں بھگدڑ نہ مچ جائے۔‘
مسلمانوں کے لیے رمضان، ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا وقت ہوتا ہے۔
بینسن نے بتایا کہ انھوں نے جو خیرات ہوتے دیکھی، اس نے ان پر بہت اثر ڈالا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے مزید کہا کہ ’بہت سے لوگ ان کارکنوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘
’لوگ اپنے سامنے کے دروازوں پر پانی کی بوتلیں رکھتے ہیں اور یہ صرف تعمیراتی کام کرنے والوں کے لیے بلکہ ڈیلیوری ڈرائیوروں کے بھی ہوتی ہیں۔‘
بینسن کا کہنا ہے کہ انھیں دبئی کے باہر قدرے ’قدامت پسند معاشرے‘ میں کچھ مشکلات پیش آئیں مگر مجموعی طور پر یہ ایک مثبت تجربہ رہا ہے۔
انھوں نے کہا ’مجھے متحدہ عرب امارات کی روایات اور ثقافتوں کے ساتھ ساتھ اسلام کے بارے میں سیکھ کر بہت لطف آیا ہے۔‘
’اب میں ایک ایسے مذہب کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں جسے ہمیشہ مثبت انداز میں نہیں پیش کیا جاتا۔‘
Comments are closed.