بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

دبئی کی ’اونچائی‘ کا راز کیا ہے؟

متحدہ عرب امارات کی آزادی کے 50 سال: دبئی کی ’اونچائی‘ کا راز کیا ہے؟

  • عارف شمیم
  • بی بی سی اردو سروس، لندن

دبئی سکائی لائن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جب اس سال اگست کے پہلے ہفتے میں امریکہ کی ریاست جورجیا کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھنے والی نکول سمتھ لڈوک نے دنیا کی سب سے اونچی عمارت برج خلیفہ کی چوٹی پہ جا کر یہ کہا کہ ’ہائے مام آئی ایم ایٹ ٹاپ آف دی ورلڈ‘ (ہائے ماں میں دنیا کی چوٹی پر ہوں) تو وہ صرف برج خلیفہ کی اونچائی کی بات نہیں کر رہی تھیں، یہ اونچائی دبئی کی بھی تھی جو بہت ہی تھوڑے عرصے میں ترقی کرتے کرتے ’برج خلیفہ‘ بن گیا ہے اور اس میں مزید منزلوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سکائی ڈائیور اور ایکسٹریم سپورٹس کی کھلاڑی نکول سمتھ برطانیہ کی طرف سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو سفری پابندیوں کی ریڈ لسٹ سے نکالے جانے پر قومی ایئر لائن الامارات یا ایمرٹس کے ایک اشتہار میں کام کر رہی تھیں۔ اس سے پہلے دنیا میں کوئی بھی اشتہار اتنی بلندی (828 میٹر) پر نہیں فلمایا گیا تھا۔

لیکن اس سے پہلے کسی ملک نے اتنے کم برسوں میں اتنی زیادہ ترقی بھی تو نہیں کی۔ صرف 30 سال پہلے تک جہاں صرف دھول اڑتی نظر آتی تھی وہاں اب دنیا کی اعلی ترین سڑکیں اور جدید ترین میٹرو چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جہاں ایک ایک دو منزلہ چیدہ چیدہ مکان نظر آتے تھے وہاں اب شاندار فلک بوس عمارتیں کھڑی ہیں اور پوری دنیا کے سیاح اور بزنس مین جن کی ترجیح لندن، پیرس اور نیو یارک ہوا کرتے تھے اب دبئی کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات اور دبئی

متحدہ عرب امارات دراصل سات ریاستوں دبئی، ابوظہبی، شارجہ، أم القيوين، راس الخیمہ، عجمان اور الفجیرہ کا وفاق ہے جس کا دارالحکومت ابوظہبی ہے۔ تاہم جب بھی متحدہ عرب امارات کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے ذہن میں نام دبئی کا ہی آتا ہے، اس لیے متحدہ عرب امارات کی بات دراصل دبئی کی بات ہے۔ اگرچہ ابوظہبی، شارجہ، راس الخیمہ اور دوسری ریاستوں کا بھی اپنا مقام ہے لیکن دبئی بس دبئی ہے۔

ان ریاستوں کو 1 دسمبر 1971 کو برطانیہ سے آزادی ملی تھی اور اگلے ہی دن یعنی دو دسمبر کو چھ ریاستوں نے ایک وفاقی اتحاد بنا لیا تھا۔ ساتویں ریاست راس الخیمہ 10 فروری 1972 کو اتحاد میں اس وقت شامل ہوئی جب ایرانی کی بحری فوج نے آبنائے ہرمز میں کچھ جگہوں پر یہ کہہ کر قبضہ کر لیا کہ یہ اس کی ملکیت ہیں۔ راس الخیمہ اور شارجہ بھی ان علاقوں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے تھے۔ اس طرح ان دونوں ریاستوں کے اتحاد میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ ایران سے علاقوں پر تنازع بھی اس کے حصے میں آیا جو آج تک جاری ہے۔

1977 کے دبئی کا ایک منظر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

1977 کے دبئی کا ایک منظر

ان ریاستوں کے رہنماؤں نے 1820 سے لے کر 1890 تک برطانیہ سے مختلف معاہدوں پر دستخط کیے تھے تاکہ برطانیہ انھیں بحفاظت تجارت کرنے کی سہولت فراہم کرتا رہے۔ برطانیہ انھیں ٹروشیئل سٹیٹس (الامارات المتصالحة‎) کہتا تھا اور کیونکہ برِصغیر پر اس وقت بحکومتِ برطانیہ کا راج تھا اس لیے ان ریاستوں کی کرنسی بھی انڈین روپیہ ٹھہری اور اماراتی باشندے اسی میں اپنا لین دین کرتے تھے۔ 1959 میں اس کا نام خلیجی روپیہ رکھا گیا جس کی قیمت شروع میں انڈیا کے روپے کے برابر ہی تھی، بعد میں آزادی کے بعد ان ریاستوں نے اپنی کرنسی متعارف کرائی۔

انڈیا کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ڈائریکٹر آف گلف سٹڈیز کے پروفیسر اے کے پاشا کے مطابق دبئی میں تقریباً سو سال پہلے علاقے کے تاجر، چاہے وہ ہندوستان کے ہوں، فارس یا عراق کے، سب یہاں آ کے آہستہ آہستہ جمع ہوئے اور یہ تجارت کا گڑھ بن گیا۔ ’جب برطانیہ نے یہاں تیل دریافت کیا تو ابو ظہبی کے حکمراں شیخ زید بن سلطان النھیان اور دبئی کے شیخ راشد بن سعید المکتوم اور امارات کے دوسرے رہنماؤں کو آمدنی آنے لگی۔ بعد میں شیخ زید متحدہ عرب امارات کے پہلے صدر اور شیح راشد پہلے نائب صدر بنے۔‘

متحدہ عرب امارات اور موتیوں کی صنعت

پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ دبئی کے لوگ موتیوں کی تجارت کرتے تھے اور آس پاس کے علاقوں میں جا کر انھیں بیچتے تھے۔ ’اسی طرح دوسرے تاجر بھی یہاں آتے اور اپنی اشیا بیچتے۔ اس علاقے میں تجارت کا ایک نیٹ ورک بن چکا تھا، اور تاجر چاہے کویت سے ہوں یا بصرہ سے وہ ہندوستان کے شہر گجرات یا کیرالہ یا زینزیبار جاتے ہوئے دبئی میں ضرور رکتے تھے۔

موتیوں کی تجارت سے اماراتی باشندوں کو بہت فائدہ ہوا، لیکن جب جاپانیوں نے مصنوعی طریقے سے موتی بنانے کا طریقہ دریافت کیا تو آہستہ آہستہ اماراتی موتیوں کی مانگ کم ہونے لگی اور یہ صنعت سکڑتے سکڑتے تقریباً ختم ہو گئی۔ تیل کی دریافت کے بعد بہت سے اماراتی باشندوں نے موتیوں کی صنعت کو چھوڑ کر تیل کے سیکٹر میں تجارت شروع کر دی، اور جب 1971 میں انھیں برطانیہ سے آزادی ملی تو اس کے بعد تیل کی پیداوار اچانک بڑھ گئی جس سے علاقے کی معیشت کو بھی سہارا ملا ا ور دبئی تجارت کا گڑھ بن گیا۔

پرانا دبئی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

خوشحالی کی کہانی: ’دبئی چلو‘

اگر دیکھا جائے تو پاکستانی فلم رائٹر ریاض بٹالوی کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیئے کہ انھیں 1979 میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ دبئی آگے جا کر دنیا میں اپنا ایک ایسا مقام بنانے والا ہے کہ دنیا اس کی طرف کھنچتی چلی آئے گی۔ انھوں نے دبئی کی آزادی کے صرف آٹھ سال بعد ہی سپرہٹ فلم ’دبئی چلو‘ بنائی جسے آج تک پاکستان کی کامیاب ترین فلموں میں گردانا جاتا ہے۔

فلم کی کہانی جو بھی ہو ’دبئی چلو‘ نے پاکستان اور انڈیا کے عوام کو ایسی راہ دکھائی کہ اب بھی متحدہ عرب امارات میں سب سے زیادہ تعداد میں انڈین اور پاکستانی ہی رہتے ہیں۔ سنہ 2021 میں کیے گئے مختلف جائزوں کے مطابق متحدہ عرب امارات کی کل نوے لاکھ 99 ہزار کی آبادی میں تقریباً 28 لاکھ انڈین اور تقریباً 13 لاکھ پاکستانی ہیں جو کہ کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد بنتا ہے۔

جس ملک میں 1979-80 تک دھول اڑتی تھی، جہاں صرف ایک یا دو سٹوری کے گھر ہوتے تھے جنھیں مقامی طور پر گراؤنڈ پلس ون اور گراؤنڈ پلس ٹو کے اپارٹمنٹس کہا جاتا تھا، اب وہاں پوری دنیا کی تقریباً 200 کے قریب قومیتیں آباد ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ دبئی میں جس کسی سے بھی پوچھیں تو جواب ملتا ہے کہ یہ دبئی اور ابو ظہبی کے حکمرانوں کی وژن کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے آزادی کے فوراً بعد ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ملک کو کہاں لے کر جانا ہے۔

دبئی میں وژن شیخ راشد کا تھا جسے شرمندۂ تعبیر شیخ محمد نے کیا اور یہ عمل ابھی بھی جاری ہے۔ اگر شیخ زید نے اماراتی ریاستوں کو متحدہ کرنے اور تیل کی دولت کے ذریعے انھیں خوشحال بنانے میں کردار ادا کیا، تو دوسری طرف شیخ راشد نے تیل سے آگے کے مستقبل کا سوچا۔ ان کی اس سوچ کو ان کی اولاد مزید آگے لے کر چلی اور دبئی کو تیل پر انحصار کرنے والی ریاست سے دنیا کا ایک بڑا تجارتی گڑھ بنا دیا۔

شلیش داس، انڈیا کے شہر کلکتہ سے تعلق رکھنے والے ایک فائنانشیئر اور کاروباری ہیں، جو اب دبئی میں رہتے ہیں۔ ان کا شعبہ تعلیم اور ہیلتھ سروسز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کی سب سے زبردست بات اس کے رہنماؤں کا وژن ہے۔ ’دوسرے ممالک میں بھی بڑے لیڈر ہوتے ہیں، وہ سوچتے ہیں لیکن یہاں سوچنے کے ساتھ ساتھ کام کیا بھی جاتا ہے۔‘

دبئی کی پورٹ پہ ایک پاکستانی ورکر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان کے خیال میں جس طرح دبئی کی نئی نسل کو تیار کیا جا رہا ہے وہ اگلے پچاس برسوں میں ملک کو مزید بلندیوں پر لے جائے گی۔

’ایسے کوئی اشارے نہیں ہیں جو یہ بتائیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہاں لوگ محفوظ ہیں، بزنس محفوظ ہیں اور یہاں کی سکیورٹی کا شمار دنیا کی بہترین سکیورٹی میں ہوتا ہے۔‘

وہ اس کا موازنہ امریکہ کے ساتھ کرتے ہیں۔ ’امریکہ نے دنیا کے سب سے بہترین ٹیلنٹ کو بلایا اور اپنے ملک میں بسایا۔ یہی حال متحدہ عرب امارات کا بھی ہے۔ وہ اچھے لوگوں کو بلاتے ہیں اور ان سے کام کرواتے ہیں جو ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔‘

ڈاکٹر پاشا بھی داس کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دبئی کی ترقی کے پیچھے صرف اور صرف شیخ راشد المکتوم کا وژن ہے۔ ’کیونکہ دبئی کے پاس تیل بہت کم ہے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ کاروبار میں ریڈیکل تبدیلیاں لائیں گے، دوسرے ممالک کے بزنس مینوں کو سہولیات دیں گے تو وہ اپنے فائدے کے لیے یہاں ضرور آئیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ ہر نئی چیز کا تجربہ کرنا چاہتے تھے کہ ایسا کرنے سے کس حد تک اس کا فائدہ ہو گا۔‘

دبئی اور کووڈ بحران

یو اے ای کووڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ذرا دنیا کو ہلا کے رکھ دینے والی عالمی وبا کووڈ-19 سے نمٹنے کی ہی مثال لیجیئے کہ دبئی نے اس سے کیسے نمٹا ہے۔ جب پوری دنیا نے اس موزی وبا کی وجہ سے ایک دوسرے کے لیے اپنے دروازے بند کیے ہوئے تھی تو دبئی ان ممالک میں شامل تھا جس نے پہلا موقع ملتے ہی مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ جب دنیا کوئی بھی بڑا ایونٹ کرنے سے گریزاں ہے تو دبئی میں ایکسپو 2020 اپنی پوری شان سے جاری ہے۔

باقی دنیا کی طرح دبئی بھی عالمی وبا سے متاثر ہوا ہے، انفیکشنز کو روکنے کے لیے یہاں بھی ملک کو بند کرنا پڑا، مالز ویران ہوئے اور دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک پر کچھ عرصے کے لیے تو جہازوں کی گن گرج کی جگہ صرف ہوا کی سائیں سائیں سنائی دی، یہاں تک کہ فلائٹوں کی بندش کی وجہ سے ایمرٹس ایئر لائن نے اپنے بہت سے ملازمین بھی فارغ کر دیے۔

سنہ 2020 میں دبئی کی معیشت 11 فیصد سکڑ گئی، لیکن اس کے باوجود اس نے باؤنس بیک کیا اور اب سبھی سیکٹرز بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ اس وقت متحدہ عرب امارات کی تقریباً 90 فیصد آبادی کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگوا چکی ہے اور دبئی، جہاں ملک کی تقریباً 50 فیصد آبادی رہتی ہے، اس میں پیش پیش ہے۔

دبئی میں ہلشا گروپ کے چیئرمین لال بھاٹیہ کہتے ہیں کہ دبئی کی ترقی کا اندازہ اس کے کووڈ کے بحران سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹنے سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔

لال بھاٹیہ کا تعلق انڈیا کے شہر کولکتہ سے ہے اور وہ گذشتہ سال ہی دبئی منتقل ہوئے ہیں۔ جب یو اے ای سب سے پہلے کووڈ کے دوران کھلا تو انھوں نے پہلی فلائٹ پکڑی اور یہاں آ گئے۔ وہ پہلے بھی متعدد بار دبئی آ چکے ہیں لیکن اس مرتبہ ان کے یہاں آنے کی وجہ کچھ اور تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں یہاں آتا جاتا رہتا تھا لیکن اب میں نے یہاں اپنا مستقل گھر بنا لیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ دبئی کا کووڈ کے بحران سے نمٹنا ہے۔

’جس طرح انھوں نے کووڈ کے بحران سے نمٹا ہے وہ بہت متاثر کن ہے۔ باقی دنیا کی طرح انھوں نے اسے ایک مالیاتی یا معاشی بحران کی طرح نہیں بلکہ صحت کے ایک بحران کی طرح ڈیل کیا۔ انھوں نے ایسے طریقے اپنائے کہ پہلے اسے صحت کے بحران کی طرح نمٹا جائے۔‘

بھاٹیہ کہتے ہیں کہ جب دنیا کے سب مالیاتی حب بند تھے یا مشکلات میں تھے تو صرف دبئی ایسی جگہ تھی جو بزنس کے لیے کھلی ہوئی تھی۔ یو اے ای نے جو 50 سال میں کیا ہے اس نے مجھ جیسے لوگوں کو یہاں کھینچا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے دبئی کووڈ سے نمٹنے کے لیے تیار تھا۔یہ اس لیڈرشپ اور اس بصیرت کا کمال ہے کہ مجھ جیسے لوگ یہاں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اسے اپنا نیا گھر بنا رہا ہوں۔ یہاں لیڈر نے صرف وہ نہیں کیا جو اسے خیال آیا بلکہ اس نے وہ کیا جس کی کمیونٹی کو ضرورت تھی۔

دبئی ایکسپو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بھاٹیہ کہتے ہیں کہ دبئی کی لیڈرشپ نے بالکل پروفیشنل طریقے سے پہلے اس بحران کو سمجھا اور پھر اس سے نمٹا۔ ’انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ دبئی بزنس کے لیے کھلا رہے، بلکہ وہ دو قدم آگے گئے اور ایک ایسا ویزہ سسٹم متعارف کرایا جس کے تحت دنیا بھر سے لوگ دبئی آ کر یہاں سے اپنے گھروں میں بیٹھے اپنے اپنے دفاتر اور کاروبار کے لیے کام کر سکتے تھے۔

بھاٹیہ کو ہلشا گروپ کے لیے یہیں ایک کاروباری موقع بھی نظر آیا۔ انھوں نے دبئی آتے ہی ورک فرام دبئی پروگرام پر کام شروع کر دیا۔ ’یہاں ہم آفر کرتے ہیں کہ دبئی ایسی جگہ ہے جہاں سے لوگ ورک فرام ہوم کر سکتے ہیں۔ لوگ یہاں آئیں، رہیں، گھر سے کام کریں۔ حکومت نے ایسا کیا ہے کہ اگر آپ 5000 ڈالر سے زیادہ ماہانہ کماتے ہیں تو وہ آپ کو ایک سال کا ویزا مل سکتا ہے اور آپ دبئی سے کام کر سکتے ہیں۔ حکومت نے سوچا کیونکہ کووڈ کی وجہ سے زیادہ تر لوگ گھروں سے کام کر رہے ہوں گے تو کیوں نہ انھیں خوبصورت دھوپ والے دبئی کی آفر کی جائے، جہاں ہائی سپیڈ انٹرنیٹ اور ڈیٹا اور سسٹمز کی مکمل سکیورٹی ہو۔‘

وزٹ دبئی کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق اس ویزے کی کل لاگت 611 امریکی ڈالر ہے جس میں اپلیکیشن فیس، ویزہ پراسسنگ کی لاگت، میڈیکل، اور اماراتی آئی ڈی کی فیس شامل ہے۔

بھاٹیہ کہتے ہیں کہ دبئی نے کووڈ سے نمٹنے کے لیے مصنوئی ذہانت کا سب سے اچھا استعمال کیا ہے۔ ’کووڈ کے دوران دبئی میں جاری کی جانے والی ایپ کے مطابق آپ کو گھر کی چیزیں لینے کے لیے باہر جانے کے لیے بھی اجازت لینا ہوتی تھی اور حکام کو بتانا ہوتا تھا۔ کچھ دوست ایک ولا میں بیٹھے تھے تو انھوں نے کہا چلو ہم مختلف سمتوں میں جا کے سودا سلف خرید کے لاتے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد انھیں پولیس کا فون آ گیا کہ آپ لوگ تو ایک ہی جگہ سے ہیں پھر کیوں مختلف سمت میں جا کے سودا سلف خرید رہے ہیں۔ یہ ہے مصنوئی ذہانت جو کووڈ کے دوران کام آئی۔‘

دبئی میٹرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دبئی کے سب سے بڑے انگریزی اخبار خلیج ٹائمز کے بزنس ایڈیٹر مظفر رضوی بھی سمجھتے ہیں کہ دبئی کا مستقبل بہت روشن ہے کیونکہ یہ وبائی امراض پر قابو پانے کی کامیاب حکمت عملی کے بعد دنیا میں بہتر طرز زندگی کی ایک محفوظ منزل کے طور پر ابھرا ہے۔

دبئی میں جاری ہونے والے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق کووڈ-19 کے بعد یہاں کی آبادی میں گذشتہ سال کی نسبت 0.05 کا اضافہ ہوا۔ مظفر رضوی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کینیڈا، امریکہ، جنوبی امریکہ اور یورپ سے بہت سے لوگ وبائی مرض کے بعد دبئی منتقل ہو گئے ہیں کیونکہ لاک ڈاؤن، محدود نقل و حرکت اور کووِڈ ویکسینیشن کے طویل انتظار کی وجہ سے وہ اپنے ہی ممالک میں غیر محفوظ محسوس کر رہے تھے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب انڈیا میں کووڈ-19 وائرس کے بڑے پیمانے پر بریک آؤٹ کی وجہ سے صحت کا بنیادی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا تو کافی تعداد میں انڈینز نے بھی دبئی کا رخ کیا۔‘

دبئی میں عوامی مقامات پر منہ پر ماسک نہ پہننے کا جرمانہ 3000 درہم ہے۔

لال بھاٹیہ کہتے ہیں کہ دبئی میں مقامی لوگوں سے زیادہ تارکینِ وطن رہتے ہیں اور سبھی قوانین کا پاس کر رہے ہیں، ویکسین لگوا چکے ہیں۔ ’یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا‘ یہ اسی تسلسل کا حصہ ہے جو گذشتہ 50 سال سے ہو رہا ہے۔‘

رضوان احمد ایک پاکستانی بزنس مین ہیں جو پچھلے تقریباً 40 سالوں سے دبئی آ جا رہے ہیں۔ وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ دبئی کے قوانین گذشتہ دو سال سے، جو کووڈ کے سال کہلاتے ہیں، غیر ملکی تارکینِ وطن کے لیے بہت نرم ہو گئے ہیں اور حکومت کی یہ حکمتِ عملی بھی ایک مستقل جاری عمل کا حصہ ہے۔‘

کچے گھروں کے بعد اونچی عمارتوں کا دور

دبئی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مشہور ہے کہ کچھ برس پہلے ایک ایسا وقت بھی آ گیا تھا جب پوری دنیا کی سب سے زیادہ کرینیں دبئی میں موجود تھیں۔ یہ دور تھا دبئی کی ’برق رفتار‘ کنسٹرکشن کا۔ اس دوران دبئی کو ابوظہبی سے ملانے والی اہم شیخ زید شاہراہ کو جدید بنیادوں پر بنایا گیا، دبئی میرینا، برج خلیفہ، جمیرا لیک ٹاورز، جمیرا ہائٹس، پام جمیرا جیسے بڑے پراجیکٹ شروع ہوئے اور دبئی ایئرپورٹ کی ایک سادہ سے عمارت کو دنیا کے ایک مصروف ترین ایئرپورٹ کے شایانِ شان بنایا گیا۔

یہاں یہ دلچسپ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ پام جمیرا کو، جو ایک مصنوئی جزیرہ ہے، بنانے کے لیے کسی قسم کی کنکریٹ یا لوہے کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ سمندر کی تہہ سے 120 ملین کیوبک میٹر ریت نکال کے اس سے جزیرے کی تعمیر کی گئی۔

پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پچھلے 20 یا 30 سالوں میں کسی ملک کو ایسے بدل دینا ایک زبردست کارکردگی ہے۔ ’دبئی فائنانشیئل حب بن گیا، ایک ریجینل پاور ہاؤس بن گیا، پورٹس کو جدید بنیادوں پر بنایا گیا اور برج الخلیفہ جیسے 828 میٹر اونچے سکائی سکریپرز بنے۔

تیل میں بھی یہ دنیا کے بڑے پروڈیوسرز ہو گئے ہیں، سیاحتی مرکز بھی ہے، میڈیکل حب بھی بن گیا ہے، اچھے سے اچھے ہسپتال ہیں۔ اس کے علاوہ مصر، عراق اور شام جیسے عرب ممالک کے کمزور پڑنے سے متحدہ عرب امارات کا علاقے میں سیاسی اثر و رسوخ بھی بڑھا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

مظفر رضوی کہتے ہیں کہ دبئی نے گزشتہ 18 سالوں میں ایک بہترین انفراسٹرکچر قائم کیا ہے جو اسے اپنے حریفوں اور پڑوسی ریاستوں پر برتری دیتا ہے۔ اس نے 2005 اور 2006 میں برج خلیفہ، دبئی مال اور دبئی میٹرو جیسی میگا ڈیولپمنٹس کا اعلان کیا اور 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے باوجود ان میگا پراجیکٹس کو بروقت مکمل کیا۔ ’دبئی میٹرو شہر میں ایک بڑی کامیابی ہے۔

کچھ سال پہلے تک یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ لوگ ذاتی SUVs، لگژری کاروں اور جیپوں پر میٹرو کو ترجیح دیں گے کیونکہ دبئی میں پیٹرول پانی سے سستا تھا۔ آج، لوگ وقت بچانے اور ٹریفک کے رش سے بچنے کے لیے دبئی میٹرو کی سواری کرتے ہیں۔‘

برج خلیفہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کووڈ اور آن لائن پراپرٹی پورٹلز

جب سنہ 2007 اور 2009 کے درمیان عالمی اقتصادی بحران ہوا تو پوری دنیا کی طرح متحدہ عرب امارات بھی اس سے بری طرح متاثر ہوا اور اس کے جدید ترقیاتی منصوبے رک گئے۔ لیکن پھر جلد ہی دبئی اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو گیا اور 2012 کے بعد پراپرٹی مارکیٹ بہتر ہونا شروع ہوئی۔

یہ وہ وقت تھا جب ایرانی شہری عطا شوئبری نے دبئی میں آن لائن پراپرٹی پورٹل ’زوم پراپرٹی‘ لانچ کیا جو اب تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انڈیا، پاکستان اور برطانیہ کے سرمایہ کار تو ہمیشہ سے دبئی کی پراپرٹی میں سرمایہ لگاتے تھے لیکن اس مرتبہ نئے کھلاڑی میدان میں آ گئے ہیں جن میں اسرائیل کے سرمایہ دار بھی شامل ہیں۔

زوم پراپرٹی کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر فیصل قریشی کہتے ہیں کہ کووڈ-19 کی وجہ سے شروع میں پراپرٹی مارکیٹ ڈاؤن ہوئی تھی، ’لیکن کیونکہ ہم آن لائن پورٹل ہیں اس لیے ہم بہت زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔ آن لائن پورٹل کی آگہی بھی کوڈ کے دوران ہی زیادہ ہوئی ہے۔ پراپرٹی پورٹل لانچ کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کار کے لیے آسانی ہو اور وہ مارکیٹ کا پوٹینشل دیکھ کر سرمایہ کاری کرے۔‘

کووڈ-19 کے بحران کے دوران کیونکہ دنیا بھر میں زیادہ تر لوگ گھروں سے کام کر رہے تھے تو دبئی کی کمپنیوں نے آن لائن ماہرین کی سہولیات حاصل کر کے رکے ہوئے پراجیکٹس کو مکمل کروانا شروع کر دیا۔ سبھی آن لائن پورٹلز کو اس سے بہت فائدہ ہوا اور سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھی۔

فیصل کہتے ہیں اس کے علاوہ ایکسپو 2020 کی وجہ سے بھی آن لائن پراپرٹی میں سرمایہ کاری کو بوم ملا ہے۔ ’یو اے ای کی پالیسیاں بہت زبردست ہیں، ٹریولنگ، ڈوکیومنٹیشن، پراسیسز سب کچھ۔ کووڈ کے بعد ہمارے پورٹلز پر غیر ملکی آتے ہیں۔ وہ تھری ڈی نقشوں پر سائٹس اور پراجیکٹس دیکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح آپ خود جا کر سائٹ دیکھتے تھے۔

اب ایکسپو کی وجہ سے سیاح اور کاروباری حضرات یہاں آئے تو ہماری رینٹل مارکیٹ کو بھی کافی بوم ملا۔ جب کرایہ بڑھا تو سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی بڑھی، اور اسی طرح ڈویلپرز نے اپنی پراڈکشن بھی بڑھا دی ہے۔‘

دبئی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

فیصل قریشی بتاتے ہیں کہ کووڈ سے پہلے پراپرٹی کی قیمت 800 سے 900 درہم فی سکوائر فٹ تھی جو کہ اب 900 سے 1100 کے قریب چلی گئی ہے۔ ’پچھلے کوارٹر میں ولاز کی طلب میں 30 سے 40 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لوگوں نے سفر زیادہ کیا ہے اور دوسری یہ کہ سکیورٹی وجہ سے لوگ اپارٹمنٹس کے بجائے ولاز میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور حکومت نے پالیسیاں ایسی بنا دی ہیں کہ لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ آتے ہیں اور ولاز میں رہتے ہیں۔‘

مزید پڑھیے

متحدہ عرب امارات اور امارات ایئر لائن

متحدہ عرب امارات کو دنیا سے جوڑنے میں اس کی قومی ایئر لائن ایمرٹس نے بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا حال دیکھتے ہوئے شاید بہت سوں کو یقین نہ آئے کہ ایمرٹس ایئرلائن قائم کرنے میں پی آئی اے کا ایک بڑا کردار ہے۔ یہ پاکستان کا شہر کراچی تھا جہاں ایمرٹس کی پہلی پرواز ای کے600 آئی تھی اور پاکستان کے پائلٹوں اور انجینیئرز نے ہی ایمرٹس کی تکنیکی مدد کی تھی۔

رضوان احمد 79 سے پاکستان سے دبئی کا سفر کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایمریٹس کا بھی ملک کی ترقی میں ایک اہم حصہ ہے۔ ’اس نے 1985 میں جب آپریشن شروع کیے تو زندگی بہت آسان ہو گئی۔ اس کی یورپ کے لیے اتنی زیادہ فریکوینسی ہے کہ زیادہ تر لوگ اسے ہی استعمال کرتے ہیں۔ جب دل چاہا چلے گئے اور جب دل چاہا آ گئے۔‘

ایمرٹس دنیا کی سب سے بڑی ایئر لائن ہے جس کی پروازیں مشرقِ وسطیٰ، افریقہ، ایشیا، ساؤتھ پیسیفک، یورپ اور شمالی اور جنوبی امریکہ کے 50 شہروں تک جاتی ہیں۔

ایمرٹس کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق کووڈ-19 کے بحران کے باوجود 2020 میں ایئر لائن میں ایک کروڑ 58 لاکھ مسافروں نے سفر کیا ہے۔

ایمرٹس ایئر لائن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دبئی کا ہائبرڈ نظام

پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر یہ متحدہ عرب امارات کا معاشرہ ہمیشہ سے ہی ایک کنزرویٹیو معاشرہ ہے۔ ان کی روایات ابھی تک قبائلی ہیں۔ لیکن یہ سیاحوں کی سہولت کے لیے بہت سی ماڈرن چیزیں بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ کیونکہ دبئی کے پاس اتنا تیل نہیں ہے اس لیے اس کا انحصار سیاحوں پر ہے۔ وہ یہاں جس لباس میں آنا چاہیں آ سکتے ہیں، اور ہوٹلوں کے اندر شراب بھی پی سکتے ہیں۔‘

تاہم حال ہی میں دبئی نے ایک ایسا قدم اٹھایا جو کہ ہر طرح سے اس معاشرے کے حوالے سے ایک انتہائی ریڈیکل قدم ہے۔ دبئی میں قانون کے مطابق غیر ملکی مرد اور عورت بھی شادی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے تھے اور نہ ہی بچہ پیدا کر سکتے تھے۔ بلکہ قانون تو یہاں تک کہتا ہے کہ وہ عوامی مقامات میں ایک دوسرے کا ہاتھ بھی نہیں پکڑ سکتے۔ لیکن حال ہی میں ایک قانون پاس کیا گیا جس کے تحت غیر ملکی اب ’لونگ ٹوگیدر‘ کر سکتے ہیں اور اب اگر کوئی خاتون شادی کے بغیر حاملہ ہو جاتی ہے تو اسے ملک چھوڑ کر بھاگنا یا غیر قانونی اسقاطِ حمل نہیں کروانا پڑے گا۔

دبئی میں رہنے والے غیر ملکیوں کے مطابق ایسا اقدام اس لیے کیا گیا ہے کہ بہت سے یورپی پارٹنر کو ساتھ نہ رکھنے کی وجہ سے ملک میں نہیں رہنا چاہتے تھے اور کووڈ کے بحران کے بعد حکومت یہ ایفورڈ نہیں کر سکتی تھی۔ اب بس یہاں یورپی ممالک سے آئے ہوئے افراد کو ہسپتال میں اپنا اپنا کارڈ دکھانا پڑے گا کہ ہم بچے کے والدین ہیں لیکن ہم نے ابھی شادی نہیں کی ہے۔

ایک ریڈیڈنٹ نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ یہ ایک بہت بڑا اقدام ہے۔ وہ ہر قسم کی رکاوٹ ہٹاتے جا رہے ہیں، چاہے اس کی جو بھی قیمت ہو، اسلامی یا غیر اسلامی۔ وہ چاہ رہے ہیں کہ لوگ آ کے یہاں رہیں۔‘

دبئی تعمیر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دبئی کی شہزادیاں اور انسانی حقوق

سنہ 2018 میں دبئی کے حکمراں شیخ محمد بن راشد المکتوم کی بیٹی شہزادی لطیفہ المکتوم کے مبینہ اغوا اور پھر زبردستی حراست میں رکھنے اور بعد میں 2019 میں شیخ محمد اور ان کی اہلیہ شہزادی حیا کے درمیان طلاق کے بعد فون ہیکنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مقدمے سے دبئی کے حکمراں کی ساکھ کو نقصان تو پہنچا ہی لیکن ساتھ ساتھ اس پر بھی بات ہونے لگی کہ اس طرح کے ملک میں عام شہریوں اور تارکینِ وطن کا کیا حال ہو گا۔ شہزادی لطیفہ کی کہانی کی گونج تو اقوامِ متحدہ تک سنائی دی۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں الزام لگاتی ہیں کہ کئی تارکینِ وطن کو زبردستی اغوا، ملک بدر یا بے جا حراست میں رکھا جاتا ہے، بغیر کسی فیئر ٹرائل کے سزا دی جاتی ہے اور تشدد کیا جاتا ہے۔

عرب سپرنگ کے دوران بھی بہت سے افراد کو صرف اس لیے کہ وہ قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے، زبردستی پکڑا گیا اور سزائیں دی گئیں۔ اسی طرح کی کئی کہانیاں امارات کا غیر ملکی مزدور طبقہ بھی سناتا ہے، لیکن وہ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں اور اسی ڈر کو ہٹانے کے لیے متحدہ عرب امارات کو سب سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ ’میں نے اس مسئلے پر بہت دفعہ اعلیٰ اہلکاروں سے بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک ویلفیئر سٹیٹ ہیں اور ہم پنگھوڑے سے لے کر قبر تک ہر شہری کو تمام سہولیات دیتے ہیں۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں یہاں رہنے والوں کے فائدے کے لیے کرتے ہیں۔ یہاں امریکہ کی طرح آزادی، جمہوریت اور الیکشنز نہیں چل سکتے کیونکہ یہاں مجلس کا نظام ہے۔ ہم براہ راست اپنے شہریوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔‘

لیکن اس سب کے باوجود دبئی ایک ایسا مقناطیس ہے جو ہر ایک کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ تاہم حتمی طور پر یہ بتانا مشکل ضرور ہے کہ کیا اس کشش کی وجہ اس کی ٹیکس کی نرم پالیسیاں ہیں، ڈیوٹی فری زونز، بزنس فرینڈلی ماحول، کووڈ کے خلاف کامیاب حکمتِ عملی، خوبصورت ریتلی بیچز یا اس کی منسٹری فار ہیپینس اینڈ ویل بیئنگ۔ ہاں، یقین کیجیئے یہاں خوش رکھنے کی ایک وزارت بھی تھی جسے کووڈ بحران کے دوران منسٹری آف کمیونٹی ڈیولپمنٹ کے تحت کر دیا گیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.