وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کے لیے ایسے پرتعیش جزیرے بنانا چاہتے تھے جنھیں امرا بعد میں جائیداد کے طور پر خرید سکیں۔ اور اس مقصد کے لیے 12 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، اس میں تقریباً 321 ملین مکعب میٹر ریت اور 386 ملین ٹن پتھر کا استعمال ہوا۔پروفیسر ایلسٹر بونٹ، نیو کیسل یونیورسٹی کے جغرافیہ دان اور کتاب A Journey into the Era of Artificial Islands کے مصنف نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’متحدہ عرب امارات کا ویژن یہ تھا کہ تیل پر اپنے انحصار کو کم کر کے وسائل کا کوئی متبادل ذریعہ تلاش کیا جائے اور اس مقصد کے لیے انھوں نے رئیل سٹیٹ کے کاروبار کا انتخاب کیا۔‘پروفیسر ایلسٹر بونٹ بتاتے ہیں کہ مصنوعی جزیروں کے ماڈل کو نائیجیریا جیسے دوسرے ممالک نے بھی نقل کیا ہے اور اس میں کسی کو کامیابی تو کسی کو ناکامیاں دیکھنی پڑی ہیں۔،تصویر کا ذریعہgoogle earth
’دی پام اینڈ دی ورلڈ‘
سنہ 1999 میں متحدہ عرب امارات نے خود کو ایک جدید اور بین الاقوامی ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ٹھیک اسی سال دبئی میں برج العرب ہوٹل کھلا، جس نے دنیا کو عیش و عشرت کا ایک نیا تصور پیش کیا۔اور اسی سال متحدہ عرب امارات کے شیخ نے ’لا پالما جمیرہ‘ پروجیکٹ کا اعلان کیا۔ یہ مصنوعی جزیرے پر بننے والا ایک ایسا رہائشی اور ہوٹل کمپلیکس ہے جو دیکھنے میں بالکل کھجور کے درخت جیسا نظر آتا ہے۔یہ پراجیکٹ بہت اچھے داموں فروخت ہوا اور بعد میں ایسے ہی کئی اور منصوبے شروع کیے گئے۔پھر سنہ 2003 میں المکتوم نے خود دبئی کے ساحلوں پر 300 جزیروں کے نیٹ ورک ’دی ورلڈ‘ کی تعمیر کی اجازت دی جس میں ’پام جمیرہ‘ کی نقل کرنے کی کوشش کی گئی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesپروفیسر بونٹ کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات اس منصوبے کو لے کر بہت جوش تھا یہ ’دی ورلڈ‘ نامی جزیروں کا ایک کمپلیکس تھا جس میں ملکی وے، سورج، زمین وغیرہ سب کچھ ڈیزائن کیا گیا تھا۔یہ ایک وسیع مگر سادہ منصوبہ تھا جس میں تقریباً 300 مصنوعی جزیرے بنائے گئے تاکہ امرا یہاں ’دی ورلڈ‘ کا ایک ٹکڑا خرید کر اس میں جو چاہیں تعمیر کر سکیں۔دی گارڈین اخبار کے رپورٹر اولیور وین رائٹ بتاتے ہیں ’ہر جزیرے پر پروجیکٹس بھی کافی حیران کن تھے: ایک چینی ارب پتی نے اپنے جزیرے پر شنگھائی سکائی لائن کی ہو بہو نقل بنانے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں شنگھائی ٹاور بھی منصوبے کا حصہ تھا۔‘وین رائٹ کہتے ہیں کہ اوپولینس ہولڈنگز نامی ایک کمپنی نے صومالیہ کا جزیرہ خریدا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اس پر سمندری گھوڑے کی شکل کا مجسمہ بنائیں گے جہاں کے رہائشی اپنی بالکونیوں سے گولف کھیل سکے ہیں۔مگر سچ تو یہ ہے کہ صرف ایک دو کمپلیکس ہی بن پائے۔ان میں سے ایک گرین لینڈ کی شکل کا تھا جس میں ایک قسم کا ’ماڈل ہاؤس‘ بنا کر نصب کیا گیا تھا اور اس منصوبے میں شامل ہونے والی ہر چیز (جس کا رہائشیوں سے وعدہ کیا گیا تھا) یعنی ریزوٹس سے لے کر ریستورانوں تک سب کچھ دکھایا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
دبئی خطرات مول لیتا ہے پھر چاہے وہ مہنگے ہی کیوں نہ پڑیں
لیکن ’ایل منڈو‘ پروجیکٹ میں توقع کے مطابق پیش رفت نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ دبئی کو ’رئیل سٹیٹ کے کاروباری مرکز‘ میں تبدیل کرنے والا آئیڈیا کامیاب نہیں ہو سکا۔اس وقت پام جمیرہ میں تقریباً چار ہزار مکانات ہیں جہاں تقریباً 25 ہزار افراد رہائش پذیر ہیں۔ یہاں درجنوں ہوٹل اور دیگر تقریحی جگہیں بھی کامیابی سے چل رہی ہیں۔لیکن پام جمیرہ کی کامیابی کے باوجود شہری علاقوں میں دیگر منصوبوں کے لیے جگہ خالی کرنے کی غرض سے مصنوعی جزیرے بنانے کا رجحان خطرناک ہے۔پروفیسر ایلسٹر بونٹ کہتے ہیں کہ ’سمندری پانی کی بڑھتی ہوئی سطح کسی جزیرے میں سرمایہ کاری کو خطرناک بنا دیتی ہے۔ لیکن دبئی کی خصوصیت ہے کہ یہ شہر خطرات مول لیتا ہے پھر چاہے وہ مہنگے ہی کیوں نہ پڑیں۔‘جمیرہ اور ’ایل منڈو‘ یا ’ڈیرا آئی لینڈ‘ جیسے پروجیکٹس کی تعمیر اگرچہ وسائل کی کمی کی وجہ سے روک دی گئی تھی تاہم ان کے ماحولیاتی اثرات پر بھی سخت تنقید ہوئی ہے۔گرین پیس تنظیم کے مطابق یہ منصوبہ ماحولیاتی طور پر پائیدار نہیں ہے اور ان مصنوعی جزیروں کی تعمیر نے امارات کے ساحل کے قریب مرجان کی چٹانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔نخیل پراپرٹیز نے اگرچہ اس بات کو قبول کیا ہے کہ سمندر کا ماحولیاتی نظام کچھ حد تک اس منصوبے کی ترقی سے متاثر ہوا ہے، تاہم ان کا اصرار ہے کہ متاثرہ چٹانوں کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے سمندری حیاتیات کے ماہرین کی ایک ٹیم کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.