دبئی کے 12 ارب ڈالر مالیت کے 300 جزیرے ویران کیوں پڑے ہیں؟ ،تصویر کا ذریعہGetty Images25 منٹ قبلپچھلی صدی کے آخر میں متحدہ عرب امارت نے پُرتعیش مصنوعی جزیروں کا ایک کمپلیکس تعمیر کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا۔یاد رہے جنوبی امریکہ کی جھیل ٹیٹیکاکا میں ایسے کئی مصنوعی جزیرے پہلے ہی موجود ہیں جو تاریخی حوالے سے کئی صدیاں پرانے ہیں اور اگرچہ یہ کوئی ایسا منصوبہ نہیں تھا جس سے دبئی میں انقلاب آ جاتا لیکن اس نے دوسری چیزوں کی جانب توجہ مبذول کروائی، مثلاً اس کا ڈیزائن ایسا تھا جسے اگر آپ فضا سے دیکھیں تو تعریف کیے بنا نہ رہ سکیں۔ان منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ایسا تھا جس کے بارے میں سب سے زیادہ جوش پایا جاتا تھا اور اسے ’دی ورلڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ تقریباً 300 مصنوعی جزیروں کا سلسلہ ہے جس میں دنیا کے نقشے پر نظر آنے والے سات براعظموں کی شکل کو دوبارہ بنایا گیا۔یہ منصوبہ متحدہ عرب امارات کے شیخ محمد بن راشد المکتوم نے 2003 میں شروع کیا تھا۔ اس کے پیچھے خیال یہ تھا کہ دلچسپی رکھنے والے خریدار کسی بھی ایک ایسے جزیرے کا انتخاب کر سکتے ہیں جو برطانیہ و امریکہ سے لے کر گرین لینڈ تک کسی بھی ملک کا نقشہ بناتا ہو۔

وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کے لیے ایسے پرتعیش جزیرے بنانا چاہتے تھے جنھیں امرا بعد میں جائیداد کے طور پر خرید سکیں۔ اور اس مقصد کے لیے 12 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، اس میں تقریباً 321 ملین مکعب میٹر ریت اور 386 ملین ٹن پتھر کا استعمال ہوا۔پروفیسر ایلسٹر بونٹ، نیو کیسل یونیورسٹی کے جغرافیہ دان اور کتاب A Journey into the Era of Artificial Islands کے مصنف نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’متحدہ عرب امارات کا ویژن یہ تھا کہ تیل پر اپنے انحصار کو کم کر کے وسائل کا کوئی متبادل ذریعہ تلاش کیا جائے اور اس مقصد کے لیے انھوں نے رئیل سٹیٹ کے کاروبار کا انتخاب کیا۔‘پروفیسر ایلسٹر بونٹ بتاتے ہیں کہ مصنوعی جزیروں کے ماڈل کو نائیجیریا جیسے دوسرے ممالک نے بھی نقل کیا ہے اور اس میں کسی کو کامیابی تو کسی کو ناکامیاں دیکھنی پڑی ہیں۔،تصویر کا ذریعہgoogle earth

،تصویر کا کیپشندسمبر 2000 اور مئی 2024 کا موازنہ
ایسا لگتا ہے کہ یہ کاروبار ایسے منصوبوں میں سے ایک ہے جو منصوبہ بندی کے مطابق کامیاب نہیں ہو پائے: ٹاپ لگژری ویب پورٹل نے ’ایل منڈو‘ کو ’دنیا کا سب سے بیکار میگا پروجیکٹ‘ قرار دیا ہے۔اس وجہ بہت سادہ ہے، منصوبے کے 21 سال بعد بھی صرف چند جزائر مکمل طور پر تعمیر ہو پائے ہیں اور آسمان سے دیکھنے پر یہ ویران اور لاوارث مقامات کے ایک سلسلے کی طرح نظر آتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بنا رہے ہیں۔پورٹل کے مطابق ’کوئی بھی منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ ’دی ورلڈ‘ کے زیادہ تر جزیرے ویران پڑے ہیں جہاں ہر طرف ریت ہی بکھری نظر آتی ہے۔‘اور اس کے پیھے وجوہات زیادہ مایوس کن ہیں۔ اس پروجیکٹ کا 60 فیصد حصہ فروخت ہونے کے باوجود، اور اگرچہ ڈویلپرز کہہ رہے ہیں کہ وہ منصوبے پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم کئی ماہ کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ جزائر میں کٹاؤ کے آثار نمایاں ہیں۔لیکن ایک ایسا منصوبہ جس کو ایک ترقی پسند ملک کی حمایت حاصل تھی، آخر ویران کمپلیکس میں کیسے تبدیل ہو گیا؟

’دی پام اینڈ دی ورلڈ‘

سنہ 1999 میں متحدہ عرب امارات نے خود کو ایک جدید اور بین الاقوامی ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ٹھیک اسی سال دبئی میں برج العرب ہوٹل کھلا، جس نے دنیا کو عیش و عشرت کا ایک نیا تصور پیش کیا۔اور اسی سال متحدہ عرب امارات کے شیخ نے ’لا پالما جمیرہ‘ پروجیکٹ کا اعلان کیا۔ یہ مصنوعی جزیرے پر بننے والا ایک ایسا رہائشی اور ہوٹل کمپلیکس ہے جو دیکھنے میں بالکل کھجور کے درخت جیسا نظر آتا ہے۔یہ پراجیکٹ بہت اچھے داموں فروخت ہوا اور بعد میں ایسے ہی کئی اور منصوبے شروع کیے گئے۔پھر سنہ 2003 میں المکتوم نے خود دبئی کے ساحلوں پر 300 جزیروں کے نیٹ ورک ’دی ورلڈ‘ کی تعمیر کی اجازت دی جس میں ’پام جمیرہ‘ کی نقل کرنے کی کوشش کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesپروفیسر بونٹ کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات اس منصوبے کو لے کر بہت جوش تھا یہ ’دی ورلڈ‘ نامی جزیروں کا ایک کمپلیکس تھا جس میں ملکی وے، سورج، زمین وغیرہ سب کچھ ڈیزائن کیا گیا تھا۔یہ ایک وسیع مگر سادہ منصوبہ تھا جس میں تقریباً 300 مصنوعی جزیرے بنائے گئے تاکہ امرا یہاں ’دی ورلڈ‘ کا ایک ٹکڑا خرید کر اس میں جو چاہیں تعمیر کر سکیں۔دی گارڈین اخبار کے رپورٹر اولیور وین رائٹ بتاتے ہیں ’ہر جزیرے پر پروجیکٹس بھی کافی حیران کن تھے: ایک چینی ارب پتی نے اپنے جزیرے پر شنگھائی سکائی لائن کی ہو بہو نقل بنانے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں شنگھائی ٹاور بھی منصوبے کا حصہ تھا۔‘وین رائٹ کہتے ہیں کہ اوپولینس ہولڈنگز نامی ایک کمپنی نے صومالیہ کا جزیرہ خریدا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اس پر سمندری گھوڑے کی شکل کا مجسمہ بنائیں گے جہاں کے رہائشی اپنی بالکونیوں سے گولف کھیل سکے ہیں۔مگر سچ تو یہ ہے کہ صرف ایک دو کمپلیکس ہی بن پائے۔ان میں سے ایک گرین لینڈ کی شکل کا تھا جس میں ایک قسم کا ’ماڈل ہاؤس‘ بنا کر نصب کیا گیا تھا اور اس منصوبے میں شامل ہونے والی ہر چیز (جس کا رہائشیوں سے وعدہ کیا گیا تھا) یعنی ریزوٹس سے لے کر ریستورانوں تک سب کچھ دکھایا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنمتحدہ عرب امارات کے شیخ نے 2003 میں یہ منصوبہ پیش کیا تھا
دوسرا وہ گھر تھا جو سات مرتبہ فارمولا ون ورلڈ چیمپئن کے ڈرائیور مائیکل شوماکر کو تحفتاً دیا گیا تھا۔ یہ گھر مکمل طور پر بنایا گیا تھا۔تاہم 2008 کے مالیاتی بحران نے اس منصوبے کو تباہ کر دیا۔ بہت سے ایسے لوگ جنھوں نے گھر خریدنے کا عہد کیا تھا ان کے پاس اس کی تعمیر کو جاری رکھنے کے لیے وسائل ختم ہو گئے تھے۔ مگر کسی خاص پیش رفت کے یہ منصوبہ بہر حال اب بھی جاری ہے۔’ایل منڈو‘ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لا پالما کے برعکس اس سے دبئی تک براہِ راست کوئی رسائی نہیں ہے یعنی کوئی ایسا پل نہیں ہے جس کے ذریعے وہاں کے رہائشی گاڑی کے ذریعے دبئی تک پہنچ سکیں اور نہ ہی جزیروں کے درمیان کوئی آپسی رابطہ ہے۔اس کی موجودہ ڈویلپر کمپنی نخیل پراپرٹیز نے کئی مواقع پر کہا ہے کہ ’ایل منڈو‘ پروجیکٹ پر کام جاری ہے اور وہ اسے آگے بڑھانے کے لیے وسائل تلاش کر رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنمگر موجودہ صورتحال یہ ہے

دبئی خطرات مول لیتا ہے پھر چاہے وہ مہنگے ہی کیوں نہ پڑیں

لیکن ’ایل منڈو‘ پروجیکٹ میں توقع کے مطابق پیش رفت نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ دبئی کو ’رئیل سٹیٹ کے کاروباری مرکز‘ میں تبدیل کرنے والا آئیڈیا کامیاب نہیں ہو سکا۔اس وقت پام جمیرہ میں تقریباً چار ہزار مکانات ہیں جہاں تقریباً 25 ہزار افراد رہائش پذیر ہیں۔ یہاں درجنوں ہوٹل اور دیگر تقریحی جگہیں بھی کامیابی سے چل رہی ہیں۔لیکن پام جمیرہ کی کامیابی کے باوجود شہری علاقوں میں دیگر منصوبوں کے لیے جگہ خالی کرنے کی غرض سے مصنوعی جزیرے بنانے کا رجحان خطرناک ہے۔پروفیسر ایلسٹر بونٹ کہتے ہیں کہ ’سمندری پانی کی بڑھتی ہوئی سطح کسی جزیرے میں سرمایہ کاری کو خطرناک بنا دیتی ہے۔ لیکن دبئی کی خصوصیت ہے کہ یہ شہر خطرات مول لیتا ہے پھر چاہے وہ مہنگے ہی کیوں نہ پڑیں۔‘جمیرہ اور ’ایل منڈو‘ یا ’ڈیرا آئی لینڈ‘ جیسے پروجیکٹس کی تعمیر اگرچہ وسائل کی کمی کی وجہ سے روک دی گئی تھی تاہم ان کے ماحولیاتی اثرات پر بھی سخت تنقید ہوئی ہے۔گرین پیس تنظیم کے مطابق یہ منصوبہ ماحولیاتی طور پر پائیدار نہیں ہے اور ان مصنوعی جزیروں کی تعمیر نے امارات کے ساحل کے قریب مرجان کی چٹانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔نخیل پراپرٹیز نے اگرچہ اس بات کو قبول کیا ہے کہ سمندر کا ماحولیاتی نظام کچھ حد تک اس منصوبے کی ترقی سے متاثر ہوا ہے، تاہم ان کا اصرار ہے کہ متاثرہ چٹانوں کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے سمندری حیاتیات کے ماہرین کی ایک ٹیم کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}