دبئی میں ہونے والی کوپ 28 کانفرنس کیا ہے اور یہ اتنی اہمیت کی حامل کیوں ہے؟

Dubai

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, رکی پوئنٹنگ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

عالمی رہنما دبئی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر قابو پانے سے متعلق غور کے لیے متحدہ عرب امارات کے دارالخلافہ دبئی میں اقوام متحدہ کی طرف سے منعقدہ سمٹ میں شریک ہونے جا رہے ہیں۔

یہ سمٹ گذشتہ سال بھر کے دوران شدید موسمیاتی تبدیلیوں، جن کے کئی نئے ریکارڈ بنے ہیں، کے بعد منعقد کی جا رہی ہے۔

کوپ 28 کیا ہے؟

کوپ 28 اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلیوں پر 28ویں سالانہ اجلاس ہے، جس میں دنیا بھر کے ممالک اس پر بحث کریں گے کہ وہ کیسے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کر سکتے ہیں اور کس طرح مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے لیے اپنے آپ کو تیار کر سکتے ہیں۔

اس سمٹ کا انعقاد دبئی میں 30 نومبر سے لے کر 12 دسمبر تک ہونے جا رہا ہے۔ کوپ ’کانفرنس آف دی پارٹیز‘ کا مخفف ہے۔ پارٹیز سے مراد وہ ممالک ہیں جنھوں نے سنہ 1992 میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔

دبئی میں کوپ 28 کانفرنس کا انعقاد متنازع کیسے بن گیا؟

متحدہ عرب امارات دنیا کے تیل پیدا کرنے والے دس بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ دبئی نے اس کانفرنس کے لیے دبئی کی سرکاری آئل کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو سلطان الجابر کو صدر تعینات کیا ہے۔

گیس اور کوئلے کی طرح تیل بھی ’فوسل فیول‘ ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے کیونکہ جب فوسل فیول کو توانائی حاصل کرنے کی غرض سے جلایا جاتا ہے تو یہ کرہ ارض پر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا باعث بنتے ہیں۔

سلطان الجابر کی آئل کمپنی ابھی اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ کمپیئن گروپ 350.org کا کہنا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ سگریٹ کمپنی کو اس کانفرنس کی نگہبانی کے لیے تعینات کر دیں، جس میں کینسر کے علاج سے متعلق غور کیا جا رہا ہو۔

سلطان الجابر کا کہنا ہے کہ وہ تیل اور گیس کی صنعت کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقدامات اٹھانے کے لیے قائل کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ اور یہ کہ توانائی کے متبادل ذریعے کی فرم ’مسدر‘ کے چیئرمین کی حیثیت سے وہ ہوا اور شمسی توانائی جیسے شعبوں میں ’کلین ٹیکنالوجی‘ کو عام کرنے کے لیے اقدامات کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔

عالمی درجہ حرارت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کوپ 28 اتنی اہم کیوں ہے؟

یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس کانفرنس سے طویل عرصے سے عالمی درجہ حرارت کو کم کرنے کے ہدف کے حصول میں مدد ملے گی۔ سنہ 2015 میں پیرس میں تقریباً 200 ممالک نے اس پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ اقوام متحدہ کے ’انٹرنیشنل پینل آن کلائمنٹ چینج‘ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے 1.5 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کا ہدف بہت اہمیت کا حامل ہے۔

صنعتی دور سے قبل جب انسان نے فوسل فیول جلانا شروع نہیں کیا تھا، کے مقابلے میں طویل مدتی حدت اس وقت1.1 یا 1.2 سینٹی گریڈ ہے۔

اگرچہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے وعدوں کے ساتھ دنیا 2100 تک 2.5 سینٹی گریڈ حدت کی راہ پر گامزن ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق عالمی درجہ حرارت کو 1.5 سینٹی گریڈ تک رکھنے کے موقع اب تیزی سے مسدود ہوتا جا رہا ہے۔

کوپ 28 کانفرنس میں کون سے امور زیر بحث آئیں گے؟

اس کانفرنس میں پیرس معاہدے کے اہداف کا حصول توجہ کا مرکز ہو گا۔

کوپ 28 میں توانائی کے صاف ذرائع کی طرف تیزی سے سفر کو یقینی بناتے ہوئے سنہ 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا ہے۔

امیر ممالک سے غریب ممالک کو پیسے دلوا کر ماحولیاتی بہتری کی طرف بڑھنا اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر کام ہو گا۔

  • لوگوں اور فطرت پر توجہ مرکوز رکھنا
  • کوپ 28 کو سب کے لیے قابل قبول فورم بنانا
  • صحت، معیشت، خوراک اور فطرت کے تھیم پر دن منانا

کوپ 28 میں کون کون شریک ہو گا؟

اس کانفرنس میں 200 سے زیادہ ممالک کو مدعو کیا گیا ہے۔ امریکہ، چین اور انڈیا سمیت متعدد ممالک نے ابھی اس کانفرنس میں شرکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک نے کہا ہے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوں گے۔

ماحولیات پر کام کرنے والے خیراتی ادارے، کمیونٹی گروپس، تھنک ٹینکس، کاروباری شخصیات اور مذہبی رہنما بھی اس کانفرنس کا حصہ بنیں گے۔

گذشتہ سال فوسل فیول سے وابستہ ہزاروں وفود نے کوپ 27 میں شرکت کی تھی۔

UK

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کوپ 28 میں کون سے امور تنازع کا باعث بن سکتے ہیں؟

فوسل فیول جیسا کہ کوئلہ، تیل اور گیس، جو کسی ٹیکنالوجی کے بغیر جلائے جاتے ہیں، کے بارے میں کسی معاہدے کی توقع نہیں کی جا رہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فوسل فیول کے جلاؤ سے مضر صحت گیسز کے اخراج کو قابو نہیں کیا جا سکے گا۔

سلطان الجابر نے فوسل فیول کے بارے میں مرحلہ وار استعمال کم کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کی تجویز دی ہے۔ مگر انھوں نے مکمل خاتمے کی بات نہیں کی ہے۔ تاہم یورپی یونین اس حوالے سے فوسل فیول کے مکمل خاتمے پر زور دے گی۔

ماحولیات پر کام کرنے والے سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کسی معاہدے کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مضر صحت گیسز کا اخراج جاری رہے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ایسی گیسز کے اخراج کو روکنے سے متعلق کسی بڑے پیمانے پر کام ہو سکے گا۔

فوسل فیول

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پیسہ بھی ایک مسئلہ ہو گا

گذشتہ برس کوپ 27 میں نقصانات کے ازالے (لاس اینڈ ڈیمج) سے متعلق فنڈ قائم کیا گیا تھا، جس میں امیر ممالک نے غریب ممالک کو پیسے دینے تھے جو اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھگت رہے ہیں۔

تاہم یہ بات ابھی بھی واضح نہیں ہے کہ یہ فنڈ کیسے کام کرے گا اور یہ امیر ممالک کس طرح فنڈ دیں گے۔ مثال کے طور پر امریکہ نے صنعتی اخراج کے لیے ازالہ دینے سے انکار کیا ہے۔

سنہ 2009 میں امیر ممالک نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ سنہ 2020 تک ترقی پذیر ممالک کو اس متعلق سالانہ 100 بلین ڈالر کا فنڈ دیں گے۔ اس مدد کا مقصد غریب ممالک کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ مضر صحت گیسز کے اخراج کو کم کر سکیں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر سکیں۔ اس ہدف کو وقت پر حاصل نہیں کیا جا سکا۔ ابھی یہ امید ہے کہ اس متعلق 2023 میں کچھ پیش رفت ممکن ہو سکے۔

کیا کوپ 28 میں برف پگھل سکے گی؟

گریٹا تھنبرگ سمیت کوپ کانفرنسز کے ناقدین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ کانفرنسز محض دکھاوا ہیں، جن کے ذریعے ممالک اور کاروباری شخصیات بغیر کسی تبدیلی کے اپنے تاثر اور شبیہ کو بہتر بناتے ہیں۔

تاہم اب جہاں عالمی رہنما ایک میز پر مل بیٹھیں گے تو اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ اس متعلق بین الاقوامی کسی معاہدے کی صورت نکل آئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق مثال کے طور پر پیرس میں ہونے والی کوپ 21 میں عالمی حدت کو 1.5 سینٹی گریڈ تک لانے کا ہدف طے ہوا، جس پر تقریباً پوری دنیا نے مل کر حاصل کرنا تھا۔

عصمے سٹالڈ نے اس خبر کے لیے اضافی رپورٹنگ کی ہے

BBCUrdu.com بشکریہ