دبئی میں پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافے کا روسی شہریوں سے کیا تعلق ہے؟
- مصنف, سمیر ہاشمی
- عہدہ, بی بی سی کے نامہ نگار
فروری اور مارچ اریتھا پریٹوریئس کے لیے دباؤ کے مہینے تھے۔ ہفتوں تک وہ اور اس کے شوہر کرس نئے گھر کی تلاش میں دبئی میں گھومتے رہے۔
وہ 2019 سے شہر کے مرکز میں واقع اپنے تین بیڈ روم والے گھر میں رہ رہے ہیں۔
تاہم پچھلے سال اریتھا کے خاندان کو مالک مکان کی جانب سے بے دخلی کا نوٹس موصول ہوا۔
نوٹس میں کہا گیا کہ مارچ میں مکان کے لیز کے معاہدے کی تجدید نہیں کی جائے گی، کیونکہ مالک مکان خود گھر میں رہنا چاہتا ہے۔
اس کے بعد اریتھا کے خاندان نے اسی علاقے میں گھر کی تلاش شروع کی، لیکن یہ جان کر حیران رہ گئے کہ اس گھر کا کرایہ اس مکان سے 75 فیصد زیادہ ہے جہاں وہ 34 ہزار ڈالر سالانہ ادا کر رہے تھے۔
انھوں نے شہر کے دیگر علاقوں میں بھی کرائے پر مکانات تلاش کیے لیکن اپنے بجٹ میں وہاں بھی تلاش کرنے میں ناکام رہے۔
آخر کار انھوں نے ایک گھر کا انتخاب کیا جو ان کے موجودہ گھر سے بہت چھوٹا اور مرکزی شہر سے بھی دور ہے۔
انھیں اس نئے گھر کے لیے 45 ہزار ڈالر کرایہ ادا کرنا پڑے گا جو کہ اب بھی پہلے سے 32 فیصد زیادہ ہے۔
’گھر کی تلاش میں دیوانے کی طرح بھٹکے‘
اریتھا کہتی ہیں کہ ’ہفتوں تک ہم پاگلوں کی طرح گھر کی تلاش میں گھومتے رہے۔ آخرکار، ہمارے پاس سمجھوتہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اب ہمیں ایک چھوٹے گھر میں رہنا ہے اور زیادہ کرایہ ادا کرنا ہے۔‘
نیا گھر اریتھا اور کرس کا 2011 میں جنوبی افریقہ سے دبئی منتقل ہونے کے بعد سے پانچواں گھر ہو گا۔ دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پچھلی دہائی کے دوران بہت زیادہ گری ہے لیکن اریتھا کہتی ہیں کہ انھوں نے کبھی بھی گھر تلاش کرنے کے لیے اتنی مشکل نہیں دیکھی جتنی اس بار تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’دس سال پہلے بھی کرایہ بہت زیادہ تھا لیکن اس کے باوجود گھر حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا اس بار تھا۔‘
ریئل اسٹیٹ ایجنسی بیٹر ہومز کے مطابق گذشتہ سال دبئی میں کرایوں میں اوسطاً 36 فیصد اضافہ ہوا۔
یہ صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو ولا کی تلاش میں ہیں جنھیں چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپارٹمنٹس سمیت تمام طبقات کے کرائے بڑھ گئے ہیں۔
کرائے کی آسمان چھوتی قیمت ان تارکین وطن کے طرز زندگی کو متاثر کر رہی ہے جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے تقریباً 10 ملین باشندوں میں سے 90 فیصد غیر ملکی شہری ہیں۔
وقار انصاری جیسے کرایہ داروں کو مارکیٹ کی موجودہ مانگ نے سخت نقصان پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے وہ دبئی کے پڑوس میں شارجہ جانے پر مجبور ہیں، جہاں کرائے کم ہیں۔
گھروں کے کرایوں میں 40 فیصد اضافہ
وقار اور ان کا خاندان جنوبی دبئی میں ایک بیڈروم کے اپارٹمنٹ میں رہ رہے تھے، اور وہاں وہ سالانہ 9500 ڈالر کرائے پر خرچ کرتے تھے۔
پچھلے مہینے، جب ان کا لیز کا معاہدہ ختم ہونے والا تھا تو ان کا مالک مکان کرائے میں تقریباً تین ہزار ڈالر کا اضافہ کرنا چاہتا تھا۔ وقار نے شروع میں اسی علاقے میں ایک نیا اپارٹمنٹ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں کا کرایہ 40 فیصد بڑھ گیا۔
وقار کہتے ہیں کہ ’میں موجودہ کرائے سے 10-15 فیصد زیادہ دینے کے لیے تیار تھا، اس لیے میں نے دبئی کے دیگر علاقوں میں بھی تلاش کیا لیکن اس بجٹ میں کوئی اچھا اپارٹمنٹ نہیں ملا، اس لیے شارجہ منتقل ہونا ہی واحد آپشن تھا۔‘
دبئی میں قائم بیٹر ہومز گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر رچرڈ وانڈ کے مطابق موجودہ مارکیٹ میں طلب رسد سے زیادہ ہے۔
وانڈ کا کہنا ہے کہ ’دبئی میں آنے والے لوگوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جہاں وہ رہنا چاہتے ہیں۔‘
دبئی کے قیمتوں میں اضافے کے خلاف قوانین مکان مالکان کو موجودہ کرایہ داروں کے کرایوں میں 20 فیصد تک اضافہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ مالک مکان کرایہ داروں کو بھی بغیر کسی معقول وجہ کے بے دخل نہیں کر سکتے۔
تاہم کئی کرایہ داروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ انھیں مکان مالکان کی جانب سے بے دخلی کے نوٹس موصول ہوئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ وہ اپارٹمنٹس میں خود رہنا چاہتے ہیں۔
لیکن یہ صرف گھر کے کرائے ہی نہیں جو ریکارڈ بلندی کو چھو چکے ہیں، دبئی میں جائیداد خریدنے کی قیمت بھی کافی بڑھ گئی ہے۔
ریئل اسٹیٹ ایجنسی سیولز کے مطابق سنہ 2020 کے مقابلے میں 2022 میں اپارٹمنٹ کی قیمتوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسی عرصے کے دوران ولا کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
دبئی میں مقیم سیولز مڈل ایسٹ کے اسوسی ایٹ ڈائریکٹر کیٹی برنیل کے مطابق گذشتہ سال یوکرین کی جنگ کے آغاز کے بعد سے جائیداد کی خریداری اور لیز کے معاہدوں میں روسی کیش ریئل اسٹیٹ کی مانگ کو بڑھانے کا سب سے بڑا عنصر رہا ہے۔
کیا روسیوں کی وجہ سے کرایہ بڑھ رہا ہے؟
یہ شہر روسی ارب پتیوں اور سٹارٹ اپ مالکان کے لیے ایک پناہ گاہ کے طور پر ابھرا ہے۔ بہت سے نوجوان روسی بھی روزگار کے نئے مواقع کی تلاش میں اس چمکتے دمکتے شہر پہنچ چکے ہیں۔
کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھی اپنے ملازمین کو روس سے دبئی منتقل کر دیا ہے۔
مجموعی طور پر، روسی گذشتہ سال دبئی ریئل اسٹیٹ میں سب سے بڑے بین الاقوامی سرمایہ کار تھے۔
کیٹی برنیل کا کہنا ہے کہ ’روسی باشندوں پر رہنے اور جائیداد خریدنے کے حوالے سے کافی پابندیاں ہیں۔ انھیں متحدہ عرب امارات میں ایسی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ یہاں وہ کاروبار کرنے اور معاشی کام کرنے کے قابل ہیں۔‘
’اس سہولت کی وجہ سے، روسی جائیداد کی مارکیٹ کی قیمتوں پر واقعی توجہ نہیں دے رہے ہیں اور قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔‘
درست اعداد و شمار دینے کی کوئی رپورٹ نہیں ہے، لیکن ایک اندازے کے مطابق جنگ کے آغاز کے بعد سے لاکھوں افراد روس چھوڑ چکے ہیں۔
فوربز روس کی ایک رپورٹ کے مطابق صدر پوتن کی جانب سے گذشتہ سال ستمبر میں جزوی طور پر متحرک ہونے اور فوج میں بھرتی کرنے کا حکم دینے کے بعد سے سات لاکھ روسی شہری ملک چھوڑ چکے ہیں۔ تاہم کریملن نے رپورٹ میں بتائے گئے اعداد و شمار کی تردید کی ہے۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے یوکرین جنگ کے آغاز سے ہی غیر جانبدارانہ موقف اپنایا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے روس پر پابندیاں عائد نہیں کیں اور یوکرین پر روس کے حملے پر تنقید نہیں کی۔
متحدہ عرب امارات روسیوں کو ویزے دے رہا ہے جبکہ کئی مغربی ممالک نے ان پر پابندی لگا رکھی ہے۔
متحدہ عرب امارات کے نئے ویزا قوانین نے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ کر دیا
گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے مرکزی بینک نے بھی روس کے ایم ٹی ایس بینک کو چلانے کا لائسنس جاری کیا۔ مغربی پابندیوں کی وجہ سے روسی شہریوں کو متحدہ عرب امارات میں بینک اکاؤنٹس کھولنے اور رقم بھیجنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
وبائی مرض کے بعد سے، متحدہ عرب امارات نے کفیل کی ضرورت کو ختم کرتے ہوئے طویل مدتی ویزا کے کئی نئے اختیارات متعارف کرائے ہیں۔ جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں سرمایہ کار، محنت کش اور کاروباری افراد متحدہ عرب امارات کی طرف راغب ہوئے جس کی وجہ سے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
اس نے ملک میں وبائی امراض سے نمٹنے اور مختلف ممالک کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
جب یورپ کے بیشتر ممالک وبائی امراض کے دوران لاک ڈاؤن کی زد میں تھے، دبئی نے سیاحت کے لیے دروازے کھول دیے اور 2020 میں پابندیوں میں نرمی کی۔
گذشتہ سال، دبئی میں 86,000 سے زیادہ رہائشی عمارتوں کے لین دین ریکارڈ کیے گئے۔ یہ تعداد 2009 میں 80,000 کے پچھلے ریکارڈ کو عبور کر چکی ہے۔
گذشتہ سال تقریباً 56.6 بلین ڈالر کے اثاثے فروخت ہوئے جو 2021 کے مقابلے میں تقریباً 80 فیصد زیادہ ہے۔
رچرڈ وانڈ کا کہنا ہے کہ عالمی واقعات جیسے کہ گذشتہ تین سالوں میں وبائی امراض اور یوکرین کی جنگ نے ایک مالیاتی مرکز کے طور پر دبئی کی اپیل میں اضافہ کیا ہے، جبکہ گھریلو رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کو آگے بڑھایا ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’دبئی حفاظت، تحفظ، طرز زندگی اور کاروبار کرنے میں آسانی فراہم کرتا ہے۔ یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ اتنے ممالک سے لوگ مواقع کی تلاش میں یہاں آ رہے ہیں۔‘
پچھلے ایک سال میں، رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز نے مکانات کی مانگ میں اضافے سے فائدہ اٹھانے کے لیے کئی نئے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
تاہم، رچرڈ وانڈ کو توقع ہے کہ کم از کم مزید 18-24 ماہ تک کرایہ زیادہ رہے گا، اس سے پہلے کہ بڑی تعداد میں نئے ہاؤسنگ یونٹس مارکیٹ میں آئیں تاکہ سپلائی پر دباؤ کو کم کیا جا سکے۔
ایسے خدشات ہیں کہ اگر کرایہ میں اضافہ جاری رہا تو بہت سے کرایہ داروں کے لیے قیمتیں بڑھ جائیں گی، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ دبئی سے متحدہ عرب امارات کے دوسرے شہروں میں چلے جائیں گے۔
رچرڈ وانڈ کہتے ہیں، ’ہاں، بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے، اس لیے ضروری ہے کہ کرائے جلد از جلد کم کیے جائیں۔‘
Comments are closed.