دارفور کے دہشت انگیز مناظر: تین بیٹوں کے قتل کے بعد ریڈیو پریزینٹر نے سر راہ بچے کو جنم دیا
- مصنف, مرسی جوما
- عہدہ, بی بی سی نیوز، ادری
اپنے تین بیٹوں کے مارے جانے کے بعد پوری مدت کی حاملہ ریڈیو پریزینٹر سوڈان کے دارفور علاقے میں جاری جنگ سے جان بچانے کے لیے پیدل نکل پڑتی ہیں اور چاڈ کے ساتھ سرحد عبور کرتے ہوئے وہ ایک بیٹے کو جنم دیتی ہیں۔
ریڈیو پریزینٹر عارفہ عدوم کہتی ہیں: ’میں نے اسے سڑک پر جنم دیا۔ نہ کوئی دائی تھی اور نہ ہی کوئی میرا ساتھ دینے والا۔ ہر کوئی اپنے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ہر کوئی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔‘
عارفہ عدوم سے میری ملاقات چاڈ کے شہر کے مضافات میں دسیوں ہزار لوگوں کے ایک پناہ گزین کیمپ میں ہوئی۔ انھوں نے کہا: ’جب بچہ باہر آیا تو میں نے اسے کپڑے میں لپیٹ لیا۔ میں اس وقت کچھ اور نہیں سوچ رہی تھی۔ اور میں نے ادری کی طرف چلنا جاری رکھا۔‘
38 سالہ خاتون نے بتایا کہ وہ اپنی چار بیٹیوں کے ساتھ اپنے آبائی شہر ایل جینینا سے 25 کلومیٹر فاصلے تک چلچلاتی دھوپ میں چلتی رہیں جبکہ ان کے شوہر نے اپنی حفاظت کی خاطر کیمپ تک پہنچنے کے لیے ایک طویل اور زیادہ مشکل راستہ اختیار کیا تھا۔
مسز عدوم نے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کا نام پیغمبر اسلام کے نام پر محمد رکھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جب میں سرحد پر پہنچی تو میں تھک کر نڈھال ہو چکی تھی اور اسی حالت میں بچے کو جنم دیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ کس طرح وہ اپنے تین، سات اور نو سال کے تین بیٹوں کی لاشوں کو بغیر دفنائے چھوڑ آئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) اور اتحادی عرب ملیشیا کے درمیان سوڈان میں اپریل سے جاری جنگ کے دوران مارا گیا تھا۔
دارفور سوڈان کا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے جس میں آر ایس ایف اور ملیشیا پر الزام ہے کہ وہ اس خطے میں سیاہ فام افریقیوں کی ’صفائی‘ کرکے عرب بالادستی قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاہ فام افریقیوں میں عارفہ عدوم کی مسالت برادری بھی شامل ہے۔
اس میں حیرت کی بات نہیں کہ تاریخی طور پر دارفور میں سیاہ فام افریقی طاقت کی علامت سمجھے جانے والے ایل جینینا کے لیے جنگ ایک موذی چکر رہی ہے جو کہ مسالت بادشاہت کا روایتی دارالحکومت بھی رہا ہے۔
شیخ محمد یعقوب ایک بااثر مسلمان عالم اور مسالت کے رہنما ہیں اور اب وہ بھی ادری میں پناہ گزین بن چکے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’ہم نے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ بہت بڑے بڑے ہتھیار استعمال کر رہے تھے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے علاقے میں ایک دن میں ہم نے تین گھنٹوں کے اندر 82 (لوگوں) کو کھو دیا۔‘
آر ایس ایف نے لڑائی میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے لیکن کہا کہ دارفور عرب گروپوں اور مسالت کے درمیان پرانا تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
اپنی بات بتاتے ہوئے عارفہ عدوم نے کہا کہ ان کے تین بیٹے ایل جینینا کی یونیورسٹی میں ایس آر ایف اور عرب ملیشیا کی گولہ باری میں مارے گئے۔ وہاں ان لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی۔
انھوں نے کہا: ’تینوں بچے گولہ باری کی زد میں آئے اور اسی جگہ پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان کے کئی رشتہ دار بھی وہاں مارے گئے۔ ان میں ان کے سسر بھی شامل تھے جن کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں، ان کا ایک کان کاٹ دیا گیا تھا، اور پھر ’انھوں نے گولیوں سے انھیں مار ڈالا۔‘
عارفہ اور ان کے شوہر پھر اپنی چار بیٹیوں کے ساتھ بھاگ نکلے۔ لیکن انھوں نے آر ایس ایف کے زیر انتظام سڑکوں پر سے گزرنے سے بچنے کے لیے دور کا راستہ اختیار کیا کیونکہ متعدد پناہ گزینوں کے مطابق یہ نیم فوجی دستے بڑے پیمانے پر مسالت برادری سے تعلق رکھنے والے مردوں اور لڑکوں کو مار رہے تھے۔ بعض اوقات وہ ان پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیتے۔
یہ جوڑا پناہ گزین کیمپ میں دوبارہ ملا، جہاں ان کے شوہر نے پہلی بار محمد کو بازوؤں میں لیا۔ اس بچے کو وہ تین بیٹوں کے کھو جانے کے بعد ایک نعمت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
نعیمہ علی کے بچے کی ٹانگ میں اور ان کی اپنی پسلی میں گولی لگی
شیخ کی بیوی رقیہ عدوم عبدالکریم نے مجھے بتایا کہ وہ بھی حاملہ تھیں لیکن ادری پہنچنے کے اگلے ہی دن انھوں نے اپنا بچہ کھو دیا۔ انھوں نے بتایا کہ ادری تک کے پیدل سفر نے انھیں بھوکا پیاسا، تھکا ہوا اور کمزور کر دیا تھا جس کی وجہ سے بچہ ضائع ہو گیا۔
انھوں نے کہا: ’مجھے خون آنے لگا۔ پھر مجھے سر میں درد ہونے لگا، اور مسلسل خون نکلتا رہا تھا۔ پھر صبح فجر کے وقت اسقاط حمل ہو گيا۔‘
ادری میں ایک خیراتی ادارے کی طرف سے ایک فیلڈ ہسپتال قائم کیا گیا ہے لیکن مسز عبدالکریم علاج کے لیے وہاں نہ جا سکیں۔
ہسپتال مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں زیادہ تر خواتین، نوزائیدہ اور بچے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو بندوق کی گولی کے زخم آئے ہیں۔
وہاں موجود مریضوں میں سے ایک نعیمہ علی نے بتایا کہ جب وہ اپنے گاؤں سے بھاگ رہے تھے تو انھیں اور ان کے نو ماہ کے بیٹے کو آر ایس ایف کے ایک سنائپر نے گولی ماری۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے بتایا کے لڑکا ان کی پیٹھ پر لپٹا ہوا تھا۔ ایک گولی اس کی ٹانگ پر لگی اور دوسری ان کی پسلی میں لگی۔
وہ کہتی ہیں: ’ہم دونوں کا خون بہہ رہا تھا اور کوئی بھی ہماری مدد نہیں کر رہا تھا۔‘
وہ بھاگتی رہیں یہاں تک کہ کیمپ پہنچ گئيں۔
سوڈان میں مظالم کو ختم کرنے کے لیے چار مشرقی افریقی ممالک نے سوڈان میں علاقائی امن فوج کو تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کینیا کے صدر ولیم روٹو نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ملک کو ’تباہ‘ کیا جا رہا ہے، اور دارفور میں ’نسل کشی کے پہلے سے ہی نشانات‘ موجود ہیں۔
اقوام متحدہ اور افریقی یونین کی ایک مشترکہ امن فوج سنہ 2021 میں دارفور سے تقریباً 18 سال تنازعے کے بعد نکل گئی تھی۔ اس تنازعے کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق 300,000 افراد ہلاک ہوئے۔
آر ایس ایف ہتھیاروں سے لیس اور انتہائی تربیت یافتہ ہے
اس تنازعے پر عالمی سطح پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے سوڈان کے اس وقت کے حکمران عمر البشیر پر نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے لیکن عمر البشیر الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
امن دستوں کے وہاں سے نکلنے کے جواز کے طور پر اقوام متحدہ نے کہا کہ اس فیصلے کا مقصد ’سوڈان کی حکومت کو خطے میں امن برقرار رکھنے کے لیے با اختیار بنانا‘ تھا۔
لیکن ان کے انخلاء کے بعد سے سوڈان بغاوت کی زد میں آ گیا اور رواں سال اپریل کے وسط میں اس کے دو سب سے طاقتور جرنیلوں، آرمی چیف عبدالفتاح البرہان اور آر ایس ایف کے کمانڈر محمد حمدان دگالو، جو ہمدتی کے نام سے مشہور ہیں، کے آپس میں لڑ پڑنے کے بعد یہ ملک خانہ جنگی میں ڈوب گیا۔
ان کے جھگڑے نے دارفور میں کشیدگی کو پھر سے بھڑکا دیا ہے، جس سے مسالت برادری کے 160,000 سے زیادہ افراد چاڈ فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس خطے میں کتنے لوگ مارے گئے ہیں۔ تاہم صرف ایل جینینا میں ہی کم از کم پانچ ہزار افراد کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔
سوڈان کی پروفیشنل فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے مطابق اصل تعداد اس سے زیادہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شہر میں اجتماعی قبروں میں 11,000 میتیں دفن کی گئی ہیں۔ جبکہ کچھ پناہ گزینوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے لوگوں کو لاشوں کو دریا میں پھینکتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
آر ایس ایف نے زلنگیئی شہر کو بھی تہ و بالا کیا ہے جو کہ فور برادری کا گھر ہے۔ اور انھوں نے علاقے کے دو بڑے شہروں فاشر اور نیالا کا بھی محاصرہ کیا ہے۔
بہت سے دارفور والوں کو خدشہ ہے کہ یہ نسلی طور پر مخلوط خطے کو عرب بالادستی میں تبدیل کرنے کے دیرینہ منصوبے کا نتیجہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ متعدد قصبوں اور دیہاتوں کے ساتھ ایل جینینا کو ان کے زیادہ تر رہائشیوں سے خالی کرا دیا گیا ہے۔ عمارتیں اور ہسپتال اور واٹر سٹیشن سمیت بنیادی ڈھانچے تباہ ہو گئے ہیں۔
شیخ نے کہا: ’جو کچھ ہو رہا ہے وہ 2003 میں ہونے والے واقعات سے بھی بدتر ہے۔‘ انھوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ڈاکٹر اور وکلاء سمیت مسالت لوگوں کی مشہور شخصیات ماری جا چکی ہیں۔
بند ہو جانے والے ریڈیو ایل جینینا کی پریزینٹر عارفہ عدوم خوش قسمت تھیں جو زندہ بچ گئیں۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں آر ایس ایف نے ان کے دفتر پر بھی حملہ کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’وہ اندر گھس آئے اور سارا سامان توڑ پھوڑ دیا اور جو کچھ وہ لوٹ سکتے تھے لوٹ لیا۔‘
اب عارفہ ایک جھونپڑی میں رہتی ہیں جسے ڈنڈوں اور کپڑوں کے ٹکڑوں سے بنایا گیا ہے، یہ نہیں معلوم کہ وہ کبھی گھر واپس جا سکیں گی یا نہیں۔
انھوں نے اپنے تین ہفتے کے بچے کو اپنی بانہوں میں اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’ہم پناہ گزین کے طور پر آئے تھے۔ بہت سے راستے میں مر گئے۔ لیکن ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے۔‘
ایک اور پناہ گزین نے کہا: ’میں کس کے پاس واپس جاؤں؟ میں یہاں ہفتوں سے ہوں لیکن ایل جینینا کی سڑکوں پر سڑی ہوئی لاشوں کی بو میری ناک سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہی۔‘
Comments are closed.