آج کا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پاکستان بننے کے کچھ عرصے تک وفاقی دارالحکومت نہ تھا بلکہ تقسیم کے بعد کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنایا گیا تھا۔
اکتوبر 1958ءمیں ملک میں پہلے مارشل لا کا نفاذ ہوا، تو حکومتِ وقت اس غور و خوض میں مصروف ہوگئی کہ کراچی شہر کا دارالحکومت رہنا موزوں ہے یا نہیں۔ اُس وقت کے آرمی چیف اور صدر پاکستان، جنرل ایوب خان اس معاملے پر جلد از جلد حتمی فیصلے کے متمنّی تھے، لہٰذا اس حوالے سے حکومت نے31جنوری 1959ء کو ایک 9 رکنی اعلیٰ کمیشن قائم کرکے چیف آف اسٹاف، میجر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو چیئرمین مقرر کردیا۔
کمیشن کو یہ غور کرنا تھا کہ آیا جغرافیائی طور پردفاع، آب و ہوا، مواصلات اور پیداوار کے قابل خالی زمین کی فراہمی کے اعتبار سے کراچی دارالحکومت کے لیے موزوں جگہ ہے یا نہیں۔
اس ضمن میں دوسرے ممالک کی مثال سامنے رکھتے ہوئے اس امَر کو بھی پیشِ نظر رکھا جارہا تھا کہ ملک کا دارالحکومت کاروباری و صنعتی مرکز سے دُور ہوناچاہیے۔
اس وقت شہر 24نواحی اور 30گنجان آباد محلّوں پر مشتمل تھا، 17 فروری 1959ء کوکمیشن کا پہلا اجلاس ہوا، جس میں اعزازی مشیر کے طور پر یونانی فرم کے سربراہ کا تقرر کیا گیا۔ کمیشن کے متعدد اجلاسوں کے بعد آخرکار 12جون 1959ء کو ملکی تاریخ کا ایک انتہائی اہم فیصلہ سامنے آیا .
نتھیا گلی میں صدرِ پاکستان، آرمی چیف جنرل ایوب خان کے زیرصدارت گورنرز، مرکزی کابینہ اور دیگر اعلیٰ حکّام کی اہم کانفرنس میں کراچی سے دارالحکومت منتقل کرنے کے بڑے فیصلے کا اعلان کردیا گیا۔
کانفرنس میں بتایا گیا کہ کمیشن نے کراچی کو ناموزوں قرار دیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ نیا دارالحکومت راول پنڈی، سید پور قصبے کے نزدیک منتقل کیا جائےگا۔ یہ 22مربع میل پر محیط ہوگا اور اس کی آبادی تین لاکھ تک محدود ہوگی۔
نئے دارالحکومت کی تعمیر وترقی کے لیے بڑی رقم درکار تھی، لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں مرکزی حکومت کی عمارتیں فروخت کردی جائیں، جن سے لگ بھگ 50کروڑ روپے حاصل ہونے کی توقع ظاہر کرکے اندازہ لگایا گیا کہ مذکورہ رقم نئے دارالحکومت کی تعمیر کے لیے کافی ہوگی، جس کے بعد اکتوبر 1959ء تک بارہ سو ملازمین کے لیے رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئیں اور 20اکتوبر سے صدر مملکت کے کیبنٹ ڈویژن کے زیرِ اہتمام سرکاری ملازمین کی منتقلی کا عمل شروع ہوگیا۔
کراچی سے ملازمین کی منتقلی کے لیے کُل سات اسپیشل ٹرینیں راول پنڈی تک چلائی گئیں۔ راول پنڈی پہنچنے پر پہلے روز تمام ملازمین کو صبح کے ناشتے سمیت دوپہر اور رات کا کھانا مفت فراہم کیا گیا۔ جن ملازمین کے خاندان نہیں آسکے، انہیں کراچی میں اپنے کوارٹرز میں چھے ماہ تک مزید قیام کی اجازت دی گئی۔ راول پنڈی پہنچنے والے تمام عملے کو دوماہ کی پیشگی تنخواہ کے ساتھ دو سوسے لے کر ایک ہزار روپے تک خاص الائونس بھی دیا گیا۔ 20 اکتوبر سہ پہر ساڑھے تین بجے کراچی کینٹ اسٹیشن سے پہلی ٹرین نئے دارالحکومت کے لیے روانہ ہوئی۔
پہلی اسپیشل ٹرین 22اکتوبر کو جب راول پنڈی پہنچی تو مسافروں کا اسٹیشن پر شان دار استقبال کیا گیا۔ فوجی بینڈ نے خوشی کے ترانے بجاکر خیرمقدم کیا، ٹرین کے دونوں انجن پھولوں سے لاد دیئے گئے۔ اس موقع پر پورا شہر خصوصی طور پر سجایا گیا تھا۔
24 اکتوبر1959ء کو اس وقت کے صدرِ مملکت، آرمی چیف جنرل ایوب خان نے راول پنڈی روانگی سے ایک روز قبل کراچی کے باسیوں کے نام اپنے مختصر الوداعی پیغام میں کہا کہ ’’باشندگان کراچی کی محبت اور شفقت کا شکریہ۔ آپ لوگوں کو کراچی سے دارالحکومت منتقل ہوجانے پر کسی قسم کے اندیشے اپنے دل میں نہیں لانے چاہئیں۔ اس سے کراچی کی ترقی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کراچی ملک میں تجارت اور صنعت کا سب سے بڑا مرکز ہی رہے گا۔‘‘
Comments are closed.