دادو کی تین تحصیلوں میں سیلاب آیا، لوگ دربدر ہوگئے، کئی افراد سڑکوں اور بندوں پر کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں۔ راشن نہ ملنے اور اپنے آشیانوں کی طرف لوٹنے کے لیے کئی معصوم بچے آنکھوں میں آنسو لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔
سیلاب اپنے ساتھ لوگوں کا سب کچھ بہہ لے گیا، چھوڑ گیا تو بس کچے پکے گرتے آشیانے، اجڑتی فصلیں اور بھوک پیاس کی شدت۔
بچوں کا بچپن بھی بے قابو پانی اپنے ساتھ ہی لے گیا، پھولوں کی مانند بچوں میں کسی کو پیٹ بھرنے تو کسی کو اپنے آشیانے لُٹ جانے کی فکر لاحق ہوگئی۔
بھیگ کے لفظ اور ذلت سے نا آشنا خیموں میں مقیم متاثرہ بچیاں پیٹ کی آگ بجھانے اور اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے لیے بھیگ مانگنے لگیں، کوئی 10 روپے ہاتھ میں رکھ دیتا تو کوئی 50 روپے۔
انڈس لنک کینال بند پر موجود متاثرہ بچی سے کیے گئے سوال پر جواب تو مل گیا لیکن بچی کا جھکا سر بے بسی کی ناقابل فراموش کہانی بیان کرگیا۔
ننگے پاؤں ان بچیوں کو کھیلنے کے لیے کوئی کھلونا نہیں بلکہ صرف اور صرف روٹی چاہیے۔
بچیوں کو جب بھوک نے ستایا تو مکئی بیچنے والے ٹھیلے پر پہنچ گئیں۔
سیلاب لاکھوں لوگوں کا سب کچھ چھین کر تو لے گیا، چھین نہ سکا تو ان بچوں کی مسکراہٹیں۔
حکومت اور مخیر حضرات کو مل کر متاثرین کی مدد میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ معصوم متاثرہ بچے بھیگ مانگنے پر مجبور نہ ہوں۔
Comments are closed.