- مصنف, چروکسی رامدرائی
- عہدہ, بی بی سی ٹریول
- ایک گھنٹہ قبل
خیوا ازبکستان کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ یہ قراقرم اور قزلقۇم کے صحراؤں میں گھرا ہوا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہاں آپ کس راستے سے آتے ہیں کیونکہ تمام راستے ’ایچھان قلعہ‘ کی فصیل کی طرف جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خیوا میں تمام دیکھنے کے قابل جگہیں اس قلعے کی اندر ہی ہیں۔یہ جگہ 60 سے زیادہ ثقافتی مقامات، قرون وسطی کی مساجد اور شاندار محلات کے ساتھ ساتھ متعدد عجائب گھر، یادگاری دکانوں اور کرافٹ سٹوڈیوز سے بھری ہوئی ہے۔’ایچھان قلعہ‘ کے مغربی دروازے (جسے اوٹا دروازہ بھی کہا جاتا ہے) کے قریب ہی ٹکٹ گھر موجود ہے۔ جب میں اس دروازے سے قلعے میں داخل ہوا تو بازار اُس وقت کُھلا تھا۔ بھیڑ کی کھال سے تیار کردہ ٹوپیاں ’چُوگِرما‘ کہلاتی ہیں جنھیں یہاں کے مقامی لوگ سخت سردیوں میں اپنے سروں کو گرم رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب میں بازار میں داخل ہوا تو ایک چُوگِرما فروش اپنی دکان میں ٹوپیاں سجا رہا تھا۔ تھورا آگے ہی، ایک خاتون کوٹ فروخت کر رہی تھیں۔ میری نظر اُن کے پاس موجود روایتی ’اِکت پرنٹ‘ والے سیاہ سفید رنگ کی ایک جیکٹ پر ٹھہر گئی۔
دوسری جانب، لکڑی پر کندَہ کاری کے ایک ماہِر اپنی کرسی پر بیٹھے لکڑی کی بنی ہوئی خوبصورت شطرنج کی بساط پر کام کرنے میں مشغول تھے۔ قالین بننے میں مصروف خاتون نے ایک لمحے کے لیے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور پھر دوبارہ اپنے کام میں مگن ہو گئیں۔مگر حیران کن طور پر بازار تقریباً خالی تھا اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہاں کوئی سیاح کیوں نہیں؟مقامی لوگ اس شہر کو ’حیوا‘ کو پکارتے ہیں۔ ازبکستان میں شاہراہ ریشم پر تین شہر آباد ہیں: بخارا، سمرقند اور خیوا۔لیکن دارالحکومت تاشقند سے قربت کی وجہ سے بخارا اور سمرقند سیاحوں میں زیادہ مقبول ہیں۔ ان ناموں کا صرف ذکر ہی ان کے شاندار ماضی کی عکاسی کے لیے کافی ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ شہر چین سے لے کر روم اور وینس تک پھیلے ہوئے تجارتی راستوں کے بااثر نیٹ ورک کے مراکز تھے۔ 130 قبل مسیح سے لے کر 1453 عیسوی تک تقریباً 1,500 سالوں تک اس وسطی ایشیائی خطے نے نہ صرف ریشم اور مسالوں کے تجارت کے لیے بلکہ ہر قسم کے نظریات اور فلسفے کے لیے بھی شہرت پائی۔ ،تصویر کا ذریعہTuul & Bruno Morandi/Getty Images
آج یہ قلعہ شہر کے اندر ایک الگ پُررونق شہر بن چکا ہے۔ یہ ایک جیتا جاگتا میوزیم بن چکا ہے۔بہزاد لیری ’ویجر اکسپیڈیشن‘ کے سی ای او ہیں جو سیاحوں کو وسطی ایشیا کے سفر پر لے جاتی ہے۔ لیری نے خیوا کو ’صحرا میں موجود ماضی کا آثار‘ اور ایک ایسے قدیم شہر کے طور پر بیان کیا جو مسافروں کو ماضی میں واپس جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایچھان قلعہ زائرین کو اس کے تاریخی مقامات کو قریب سے دیکھنے مواقع کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی سے بامعنی بات چیت کا موقع فراہم کرتا ہے۔،تصویر کا ذریعہCharukesi Ramadurai
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.