پشاور ہائی کورٹ نے دریاؤں اور جنگلات کے حوالے سے کیس میں متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کر لی۔
پشاور ہائی کورٹ میں جنگلات اور دریاؤں کے حوالے سے کیس کی سماعت چیف جسٹس قیصر رشید اور جسٹس شکیل احمد نے کی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید سکندر شاہ، سیکریٹری معدنیات محمد ہمایوں، ڈپٹی کمشنر سوات، اے ڈی سی ایبٹ آباد عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالتِ عالیہ نے متعلقہ حکام سے جنگلات کی کٹائی اور دریاؤں سے میٹریل نکالے جانے کے حوالے سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت اگلی پیشی تک ملتوی کر دی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ قیصر رشید نے ریمارکس دیے کہ کوئی ملک اپنے اثاثے اس طرح دوسرے ملک کو نہیں دیتا جس طرح یہاں دیے جا رہے ہیں، بدقسمتی کی بات ہے کہ جب تک عدالت مداخلت نہیں کرتی ادارے سوئے رہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہزاروں ٹن میٹریل دریاؤں سے روزازنہ کی بنیاد پر نکالا جا رہا تھا مگر کوئی پوچھنے والا نہ تھا، کسی کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اجازت کس نے دی ہے، محکموں میں ہو کیا رہا ہے، معدنیات کے محکمے نے غیر ضروری لیز دی، اپنے محکمے کو ٹھیک کریں، آپ سے پہلے افسران نے جو غلطیاں کی ہیں چاہتے ہیں وہ نہ دہرائی جائیں۔
جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ کرشنگ پلانٹس کی وجہ سے آلودگی کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے، آلودگی کی وجہ سے مختلف بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے، اس کو کنٹرول کرنے پر غور کریں، جس لیز سے ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہو اس کی اجازت ہم نہیں دے سکتے۔
عدالت نے کمشنرز اور سیکریٹری معدنیات کو مل بیٹھ کر رپورٹ تیار کر کے آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
Comments are closed.