خوف کی علامت سمجھا جانے والا ’ڈرٹی ہیری سیریل کلر‘ جس کی وارداتوں کو پولیس نے ’جائز‘ قرار دیا

  • مصنف, چارلی نارتھکوٹ
  • عہدہ, بی بی سی افریقہ آئی
  • 2 گھنٹے قبل

جنوبی افریقہ میں درجنوں سیاہ فام افراد کو قتل کرنے والے سزایافتہ مجرم نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس نے پولیس کی اجازت سے یہ کام کیا۔لوئی وان شور، جو سیکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کرتے تھے، کا ماننا ہے کہ ان کے جرائم میں دیگر افراد کو شریک ٹھہرانا چاہیے۔تاہم بی بی سی افریقہ آئی سے گزشتہ چار سال کے دوران ہونے والی اس بات چیت کے دوران لوئی کے منھ سے چند ایسے انکشافات بھی ہوئے جنھوں نے ان کی قبل از وقت رہائی پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ایک قاتل کے کمرے میں پہنچ کر آپ کی آنکھیں چھوٹی سی چھوٹی چیز بھی توجہ سے دیکھتی ہیں۔

لوئی کا بستر صاف ستھرا تھا۔ ہوا میں سگریٹ کی بو واضح تھی۔ چھت پر چھوٹے چھوٹے کاغذ کے ٹکڑے لٹک رہے تھے۔جنوبی افریقہ کا ’اپارتھائڈ قاتل‘ کہلانے والا شخص اپنے دانت کھو چکا ہے۔ یاد رہے کہ اپارتھائڈ نسلی عصبیت کے دور کو کہا جاتا ہے۔دل کا دورہ پڑنے کے بعد لوئی کی دونوں ٹانگیں حال ہی میں کاٹی جا چکی ہیں۔ ان کی صحت ساتھ چھوڑ رہی ہے۔اب وہ ایک وہیل چیئر کے محتاج ہیں۔ لیکن جب ان کی سرجری ہونے والی تھی تو لوئی نے سرجن سے درخواست کی کہ ان کو مکمل طور پر بیہوش نہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے ٹانگیں کٹتی ہوئی دیکھ سکیں۔لوئِ نے ہنستے ہوئے مجھ سے کہا ’میں دیکھنا چاہتا تھا۔ انھوں نے آری کی طرح ہڈی کاٹ دی۔‘بی بی سی ورلڈ سروس سے بات کر کے لوئی یہ یقین دلانا چاہتا تھا کہ وہ ’کوئی عفریت نہیں جیسا لوگ سمجھتے ہیں۔‘لیکن 1980 کی دہائی میں جب جنوبی افریقہ نسلی عصبیت کا شکار تھا اور سفید فام لوگوں کو سیاہ فاموں پر برتری حاصل تھی، لوئی نے کم از کم 39 افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا۔یہ تمام افراد سیاہ فام تھے۔ سب سے کم عمر مقتول کی عمر صرف 12 سال تھی۔ یہ تمام قتل جنوبی افریقہ کے شہر ایسٹ لندن میں ہوئے جہاں لوئی سیکیورٹی گارڈ تھے اور زیادہ تر سفید فام افراد کی دکانوں، فیکٹریوں اور سکولوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہوا کرتے تھے۔انھوں نے ہمیشہ یہ دعوی کیا کہ انھوں نے جن افراد کا قتل کیا وہ سب مجرم تھے جن کو عمارتوں میں چوری کرنے کی نیت سے داخل ہونے کی کوشش کے دوران مارا گیا۔ایسا جیکبسن نے لوئی پر کئی سال تحقیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لوئی ڈرٹی ہیری جیسا کردار ہے۔‘ لوئی کے دعوے پر ان کا کہنا ہے کہ ’شاید بہت سے ایسے کوگ تھے جو بہت ضرروت مند تھے اور کھانے کی تلاش میں تھے، شاید چھوٹی وارداتیں کرنے والے۔‘لوئی کی وارداتوں نے ایسٹ لندن کی سیاہ فام کمیونٹی میں خوف پھیلا دیا۔ شہر میں ایک ایسے داڑھی والے شخص کی کہانیاں پھیل گئیں جو رات کے وقت لوگوں کو غائب کر دیتا۔ لیکن انھوں نے چھپ کر قتل نہیں کیے۔لوئی نے قتل کی ہر واردات کے بارے میں پولیس کو بتایا۔ لیکن 1990 میں نیلسن منڈیلا کی رہائی کے ساتھ ہی لوئی کی دہشت کا راج ختم ہو گیا۔ جنوبی افریقہ میں تبدیلی کی لہر پھیلی تو 1991 میں لوئی کو گرفتار کر لیا گیا۔لوئی کے خلاف چلنے والا مقدمہ جنوبی افریقہ میں قتل کا سب سے بڑی عدالتی کارروائی تھی جس میں درجنوں گواہ اور ہزاروں صفحات پر مشتمل شواہد پیش کیے گئے۔تاہم اس وقت جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے زمانے کا نظام مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تھا اور 39 افراد کو قتل کرنے کے باوجود لوئی کو صرف سات افراد کے قتل کے جرم میں ہی سزا ہوئی اور لوئی نے 12 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔پولیس نے 32 افراد کا قتل جائز قرار دیا۔ جنوبی افریقہ کے قانون میں گرفتاری سے بچنے کی کوشش یا فرار ہونے پر جان لیوا طاقت کے استعمال کی اجازت تھی۔ لوئی نے اس قانون کو اپنے دفاع میں خوب استعمال کیا اور دعوی کیا کہ جن افراد کو اس نے قتل کیا وہ فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔بی بی سی نے ایسا جیکبسن کی مدد سے شواہد، گواہوں کے بیانات سمیت بھلا دی جانے والی پولیس رپورٹس کا جائزہ لیا۔ کئی برس پر محیط اس تفتیش کے دوران متعدد شہروں کا دورہ کیا گیا جہاں انتہائی اہم فائلیں سینکڑوں ڈبوں میں بند درازوں میں بند پڑی تھیں۔ایسا کہتی ہیں کہ ’یہ حیران کن ہے کہ عدالت نے ایسا ہونے دیا۔‘

ایسا کو جو شواہد ملے ان میں سب سے ہولناک ان گواہوں کے بیانات تھے جو لوئی کے ہاتھوں زخمی ہوئے لیکن زندہ بچ گئے۔ ان کے بیانات لوئی کے اس موقف کی تردید کرتے ہیں کہ وہ فرار ہو رہے تھے۔متعدد افراد نے کہا کہ لوئی نے اس وقت ان پر گولی چلائی جب وہ اپنے ہاتھ ہوا میں بلند کر کے گرفتاری دینے والے تھے۔ کچھ نے بتایا کہ لوئی نے گولی چلانے سے پہلے سوال کیا کہ گرفتاری یا گولی جس کے بعد لوئی نے ان کی چھاتی کا نشانہ لے کر گولی چلائی۔ ایک شخص نے بتایا کہ اسے پیٹ پر گولی لگی تو اس نے پانی مانگا جس پر اس کے زخم پر لات ماری گئی۔لوئی کے پاس نو ایم ایم پستول تھا جس میں مخصوص گولیاں جسم کے اندر گھسنے کے بعد تباہی مچا دیتی تھیں۔ ایک غیر مسلح شخص پر لوئی نے آٹھ گولیاں برسائیں۔11 جولائی 1988 کو پیش آنے والی ایک ہولناک واردات میں لوئی نے ایک 14 سالہ لڑکے پر اس وقت گولی چلائی جب وہ ایک ریسٹورنٹ میں گھس گیا۔ اس لڑکے نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا، نے پولیس کو بتایا کہ لوئی کو پستول کے ساتھ دیکھ کر وہ ٹائلٹ میں چھپ گیا تھا۔اس کے مطابق لوئی نے اسے تلاش کر لیا اور پھر اسے ایک دیوار کے آگے کھڑا کرنے کے بعد متعدد بار گولی چلائی۔’اس نے مجھے کھڑا ہونے کو کہا لیکن میں نہیں ہو سکتا تھا۔ میں وہاں زخمی لیٹا ہوا تھا اور وہ میرے چہرے پر لاتیں مار رہا تھا۔ اس نے مجھے اٹھایا، ایک میز کے ساتھ سہارا دے کر کھڑا کیا اور پھر گولی چلائی۔‘یہ لڑکا زندہ بچ جانے میں کامیاب ہوا لیکن اس کی گواہی کو مانا نہیں کیا۔ اس لڑکے پر چوری کا الزام عائد ہوا۔ لوئی کے خلاف گواہی دینے والے بہت سے سیاہ فام افراد کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔عدالت نے مقدمے کی سماعت کے دوران ان افراد کی گواہی کو ’ناقابل بھروسہ‘ قرار دیا۔لوئی کے مقدمے کے دوران بہت سے سفید فام لوگوں نے اس کی حمایت کی۔ ایک کاروباری شخصیت نے ایسے سٹکر تک چھپوائے جن میں گولیوں کے نشانات سے داغدار دل کے ساتھ لکھا ہوا تھا ’میں لوئی سے پیار کرتا ہوں۔‘،تصویر کا ذریعہLouis van Schoorپیٹرک گڈانف اس زمانے میں صحافی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عدالتی نظام میں نسلی امتیاز واضح تھا۔ لوئی کو بہت حمایت حاصل تھی۔ اس کے بغیر وہ بچ نہیں سکتا تھا۔‘صحافی ڈومینیک جونز کہتے ہیں کہ ’لوئی نے بنیادی طور پر تفریح کے لیے لوگوں کا قتل کیا۔‘اس حوالے سے لوئی کے ساتھ ہونے والا انٹرویو ہی بہت چشم کشا تھا جس سے واضح ہوا کہ وہ خود بھی قتل کرنے میں تسکین حاصل کرتا تھا۔اس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر رات ایک ایڈونچر ہے۔‘بہت سے کاروبار جہاں وہ سیکیورٹی گارڈ کا کام کرتا تھا، خاموش الارم نصب تھے اور جیسے ہی کوئی اندر گھسنے کی کوشش کرتا تھا تو لوئی کو اطلاع مل جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ اندر موجود فرد کی نشان دہی کر سکتا تھا۔ اور وہ ہمیشہ اکیلا جاتا تھا۔اس نے کہا کہ ’میں ننگے پیر ہوتا تھا کیوں کہ آواز نہیں نکلتی۔‘لوئی اندھیرے میں رہتے ہوئے بتی نہیں جلاتا تھا۔ اسے اپنی سونگھنے کی حس پر بہت اعتماد تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ’ایسی صورت حال میں ایڈرینالین کی وجہ سے آپ کو بو آ جاتی ہے۔‘لوئی کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی کو مارنے کے ارادے سے نہیں گیا کیوں کہ وہ نسلی تعصب نہیں رکھتا۔ لیکن وہ اعتراف کرتا ہے کہ تاریکی میں ایسے افراد کو تلاش کرنا تسکین بخش تھا۔سیکیورٹی گارڈ بننے سے پہلے لوئی 12 سال تک پولیس میں رہا جہاں وہ خصوصی تربیت یافتہ کتوں کے ساتھ کام کرتا تھا جو مظاہرین اور مجرموں کے خلاف استعمال ہوتے اور ان کی اکثریت سیاہ فام افراد کی ہوا کرتی تھی۔لوئی اسے ’شکار‘ کا نام دیتے ہیں لیکن ’ایک مختلف قسم کا شکار۔‘لوئی کا اب بھی کہنا ہے کہ وہ سیریل کلر نہیں اور انھوں نے جو بھی کیا وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر لوگوں کو اس کے کام پر افسوس ہے تو انھیں چاہیے کہ پولیس کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔‘لوئی کا دعوی ہے کہ پولیس نے کبھی اس پر تنقید نہیں کی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔’ایسٹ لندن میں ہر پولیس والا جانتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، سب جانتے تھے۔ کبھی کسی نے نہیں کہا کہ لوئی تم کیا کر رہے ہو۔ وہ سب جانتے تھے کیا ہو رہا ہے۔‘ایسا جیکبسن کو ایسے شواہد بھی ملے کہ جب پولیس اہلکار جائے واردات پر پہنچے اور کسی بھی موقع پر لوئی سے بطور ملزم پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔کئی بار پولیس والوں نے مقتولین کی تصاویر نہیں لیں اور نہ ہی کوئی شواہد اکھٹے کیے جیسا کہ گولیوں کے خول۔ لوئی اپنی واردات کا واحد عینی گواہ ہوتا تھا تو ایسے میں اس کی گواہی یہ جاننے کے لیے ضروری تھی کہ کیا ہوا۔پیٹرک گڈاینف کا کہنا ہے کہ ’لوئی کو چھوٹے پولیس اہلکار سے لے کر بڑے افسروں تک کی حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی۔ وہ تفتیش نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے ساتھ بیٹھ کر سگریٹ پیتے جبکہ لاشیں زمین پر موجود ہوتی تھیں۔‘ایسا جیکبسن کا کہنا ہے کہ ’لوئی سیریل کلر اس لیے تھا کیوں کہ معاشرے نے اسے ایسا بننے کی اجازت دے رکھی تھی۔‘لیکن لوئی کا نشانہ بننے والوں کے اہلخانہ کے لیے اس کی آزادی ان کی تکلیف کی مسلسل یاد دہانی ہے۔مارلین ممبی کے بھائی ایڈورڈ کو لوئی نے 1987 میں قتل کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک ایسے لمحے میں پھنسے ہیں جہاں ہمیشہ غصہ اور دکھ ہے۔‘ حکام نے ایڈورڈ کی لاش کو خاندان کی اجازت کے بغیر گمنام مقام پر دفنا دیا تھا۔مارلین کا کہنا ہے کہ ’بہت سے لوگ اب بھی لاپتہ ہیں اور دفن تک نہیں ہوئے۔‘مقدمہ کے اختتام پر لوئی کو ان کے خلاف ثابت ہونے والے جرائم میں مجموعی طور پر 90 سال قید کی سزا ہوئی لیکن جج نے اس بات کی اجازت دی کہ یہ تمام سزائیں ایک ساتھ کاٹی جائیں گی جس کی وجہ سے 2004 میں لوئی رہا ہو گیا۔جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے زمانے کے قاتلوں کی رہائی ایک متنازع معاملہ رہا ہے۔ 2022 میں جنوبی افریقی سیاست دان کرس ہانی کو قتل کرنے والے ملزم کی رہائی پر مظاہرے ہوئے تھے۔ اس سے قبل سیاہ فام سماجی کارکنوں کو اغوا اور قتل کرنے والے ایک اور مجرم کو بھی رہا کر دیا گیا تھا۔لوئی اب اپنا زیادہ وقت تمباکو نوشی کرتے ہوئے اور رگبی دیکھتے ہوئے گزارتا ہے۔ چند غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق لوئی نے 100 سے زیادہ افراد کو قتل کیا تاہم لوئی اس کی تردید کرتے ہیں۔ لیکن ان کے مطابق قتل ہونے والے افراد کی تعداد 39 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔’میں نہیں جانتا کہ میں نے کتنے لوگوں کو مارا، کچھ کہتے ہیں 100 سے زیادہ، کچھ کہتے ہیں 40۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ میں نے 50 لوگوں کو مارا۔‘لوئی کو احساس جرم نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں اپنے ماضی پر فخر ہے۔ ’مجھے کسی قسم کا افسوس نہیں ہے۔‘بی بی سی نے جنوبی افریقہ کی پولیس سے رابطہ کیا تاہم انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔اس تحریر کے لیے ایسا جیکبسن اور چارلی نارتھکوٹ نے تحقیق کی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}