منگل کے روز 31 سالہ لومر فلاڈیلفیا میں صدارتی مباحثے میں شرکت کے لیے ٹرمپ کے طیارے میں ان کے ساتھ ہی گئی تھیں۔شاید اس بحث کا سب سے یادگار لمحہ وہ تھا جب ٹرمپ نے ایک بے بنیاد دعویٰ دُہرایا کہ ہیٹی میں غیر قانونی تارکین وطن اوہائیو کے ایک چھوٹے سے شہر میں گھریلو پالتو جانور کھا رہے ہیں۔انھوں نے کہا ’وہ (غیر قانونی) وہاں رہنے والے لوگوں کے پالتو جانوروں کو کھا رہے ہیں۔‘شہر کے حکام نے بعد میں بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس ٹرمپ کے دعوے کے سچ ہونے سے متعلق ’کوئی قابل اعتماد اطلاعات‘ موجود نہیں۔اگرچہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ان دعوؤں کو دوہرا رہے ہیں جو انھوں نے ٹیلی ویژن پر سنے تھے لیکن صدارتی مباحثے سے دن قبل یہ بے بنیاد نظریہ لومر نے ایکس پر اپنے 12 لاکھ فالوورز کے سامنے بھی بیان کیا تھا۔اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ لومر کو ٹرمپ تک کس حد تک رسائی حاصل ہے، تاہم نائب صدر کے امیدوار جے ڈی وینس نے بھی اس بے بنیاد نظریے کو پھیلایا ہے۔لومر کی پوسٹ اور فلاڈیلفیا میں ان کی موجودگی کے بعد کچھ رپبلکنز نے سابق صدر کی جانب سے کیے گئے اس بے بنیاد دعوے کا ذمہ دار لومر کو ہی ٹھہرایا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesٹرمپ کی انتخابی مہم سے وابستہ ایک ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر امریکی خبر رساں ادارے سیمافور کو بتایا کہ وہ لومر کی ٹرمپ سے قربت کے حوالے سے فکرمند ہیں۔تاہم ایک اور ذرائع نے اخبار کو بتایا کہ لومر نے مباحثے کی تیاریوں میں مداخلت نہیں کی اور کہا کہ وہ ایک مثبت شخصیت کی مالک ہیں۔رپبلکن کنسلٹنٹ ڈینس لینوکس نے ٹرمپ کی مباحثے کے دوران کارکردگی اور لومر پر تنقید کی۔انھوں نے سیمافور کو بتایا کہ ’ایسا ہی ہوتا ہے جب آپ فوکس نیوز، ایکس ببل میں رہتے ہیں اور لورا لومر اور میٹ گیٹز پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘بی بی سی نے لومر سے اس خبر پر تبصرے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا، تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ایکس پر لومر نے کہا کہ وہ ٹرمپ کی مدد کے لیے ’آزادانہ طور پر‘ کام کر رہی ہیں جنھیں انھوں نے ’حقیقی معنوں میں قوم کی آخری امید‘ قرار دیا تھا۔انھوں نے لکھا کہ ’بہت سے صحافی جو مجھے فون کر رہے ہیں اور مجھ سے بات کرنے کے لیے پُر جوش ہیں، ان کے لیے میرا جواب ہے ’نہیں‘۔ میں اپنی سٹوریز اور تحقیقات پر کام کرنے میں بہت مصروف ہوں اور آپ کے سازشی نظریات پر غور کرنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے۔‘
سنہ 1993 میں ایریزونا میں پیدا ہونے والی اور خود کو تحقیقاتی صحافی کہلانے والی لورا لومر نے پروجیکٹ ویریٹاس اور الیکس جونز کی انفووارز سمیت متعدد تنظیموں کے لیے ایک سرگرم کارکن اور تبصرہ نگار کے طور پر کام کیا ہے۔سنہ 2020 میں انھوں نے ٹرمپ کی حمایت سے فلوریڈا میں امریکی ایوان نمائندگان کے لیے رپبلکن امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا تھا لیکن وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے لوئس فرینکل سے ہار گئیں تھیں۔انھوں نے دو سال بعد ایک بار پھر ایوانِ نمائندگان کا رُکن بننے کی کوشش کی لیکن اس مرتبہ وہ رپبلکن پرائمری میں ڈینیئل ویبسٹر کے ہاتھوں شکست کھا گئیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاب وہ ٹرمپ کی کھل کر حمایت کرنے اور سازشی نظریات کے ایک طویل سلسلے کو فروغ دینے کے لیے جانی جاتی ہیں، جس میں یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ ’صدارتی امیدوار کملا ہیرس سیاہ فام نہیں ہیں اور ارب پتی کاروباری شخصیت جارج سوروس کا بیٹا ٹرمپ کو قتل کروانے کے لیے خفیہ پیغامات بھیج رہا تھا۔‘ان کے بقول ان پوسٹس کے سبب ان پر فیس بک اور انسٹا گرام پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ صرف یہی نہیں اوپر اور لفٹ جیسے پلیٹ فارمز نے بھی ان پر مسلم ڈرائیوروں کے بارے میں نازیبا تبصرے کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔انھوں نے ایک بار اپنے آپ کو فخریہ انداز میں ’اسلاموفوب‘ بھی قرار دیا تھا۔لومر اکثر ٹرمپ کی حمایت میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کرتی رہتی ہیں اور اس سے قبل انھیں فلوریڈا میں ان کی رہائش گاہ مار لاگو میں بھی دیکھا جا چکا ہے۔رواں سال کے اوائل میں وہ اپنے طیارے سے آئیووا گئی تھیں جہاں ایک تقریب کے دوران سٹیج پر ٹرمپ نے ان کا ذکر کیا اور کہا ’یہ وہ ہیں جس کے لیے آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی حامی ہوں‘۔سابق صدر نے ٹروتھ سوشل پر ان کی متعدد ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesگذشتہ سال نیو یارک ٹائمز نے خبر دی تھی کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے لیے انھیں ملازمت پر رکھنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا لیکن ان کےٰ معاونین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ان کی انتخابی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔جنوری میں این بی سی نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ٹرمپ کے ایک معاون نے لومر کے بارے میں کہا تھا کہ ’ٹرمپ کے لیے کام کرنے والے سب لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ (لومر) ایک ذمہ داری ہیں۔‘ٹرمپ کی ایک اور حامی مارجوری ٹیلر گرین نے اس ہفتے کملا ہیرس کی نسل پر سوال اٹھانے والی لومر کے بیان اور ایک پوسٹ پر اعتراض اٹھایا تھا جس میں لومر نے کہا تھا کہ ’اگر ہیرس منتخب ہوتی ہیں تو وائٹ ہاؤس سے ’سالن کی بو آئے گی۔‘گرین کا کہنا تھا کہ لومر کا بیان ’خوفناک اور انتہائی نسل پرستانہ‘ ہے۔کیلیفورنیا میں 13 ستمبر کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ لومر وہاں صرف بطور ’ایک سپورٹر‘ موجود تھیں اور انھیں لومر کے کملا ہیرس اور نائن الیون کے حوالے سے بیانات کا کوئی علم نہیں۔انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں لومر کو کنٹرول نہیں کرتا۔ لورا وہی کہتی ہیں جو وہ کہنا چاہتی ہیں۔ وہ ایک آزاد روح ہیں۔‘نیویارک اور پنسلوانیا میں نائن الیون کی برسی کے موقعے پرہونے والی تقریبات میں ٹرمپ کے ساتھ نظر آنے پر ایسوسی ایٹڈ پریس کے سوال پر لومر کا جواب تھا کہ انھوں نے انتخابی مہم کے لیے کام نہیں کیا اور انھیں وہاں بطور مہمان مدعو کیا گیا تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.