کرمی ایپلبی کو تین سال اور آٹھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی جبکہ آرنلڈ کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔انتباہ: اس خبر کے چند مندرجات بعض قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔انگلینڈ کی عدالت کو اس سے پہلے بتایا تھا کہ برنس کی طرف سے انجام دیا جانے والا طریقہ کار ایک ذیلی ثقافت سے جڑا ہوا ہے جہاں مرد اپنے عضوِ تناسل اور فوطوں کو جسم سے الگ کر کے ’نیلوس‘ بن جاتے ہیں (یعنی اپنی جنس تبدیل کر لیتے ہیں)۔پراسیکیوٹر کیرولین کاربیری کے سی کا کہنا تھا کہ شمالی لندن کے علاقے ٹوٹنھم سے تعلق رکھنے والے برنس ان 10 افراد میں شامل تھے جن پر جسم میں انتہائی حد تک تبدیلیاں کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔انھوں نے عدالت کو بتایا کہ برنس کو گسٹاوسن نے ملازمت پر رکھا تھا، جو خود کو ’خواجہ سرا بنانے والے‘ کہتے تھے اور جسم میں تبدیلی کے ’متعدد‘ طریقوں میں ملوث رہے ہیں جن میں دیگر مردوں کے جنسی اعضا کو جسم سے الگ کرنا بھی شامل ہے۔
’آپ کا بہت زیادہ خون ضائع ہو جائے گا‘
گسٹاوسن نے اس سے قبل سنگین جسمانی نقصان پہنچانے کی سازش سمیت الزامات کا اعتراف کیا تھا اور مارچ میں انھیں الگ سے سزا سنائی جائے گی۔کاربیری نے عدالت کو بتایا کہ دسمبر 2016 میں برنس نے گسٹاوسن کو 500 پاؤنڈ کے عوض جسمانی تبدیلی کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، یہ جانتے ہوئے کہ اسے ویب سائٹ کے لیے فلمایا بھی جائے گا لیکن گسٹاوسن نے اس ادائیگی کو کم کر کے 50 پاؤنڈ کر دیا۔اس عمل سے پہلے، برنس نے گسٹاوسن سے کہا تھا کہ ’مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن آپ کا بہت زیادہ خون ضائع ہو جائے گا اور آپ موت کے قریب پہنچ جائیں گے۔‘،تصویر کا ذریعہMET POLICEعدالت کے سامنے یہ سارا معاملہ بیان کیا گیا کہ ’گسٹاوسن نے انھیں بتایا کہ انھیں بے ہوش کیا جائے گا اور انھیں باندھ دیا جائے گا اور برنس کو ہدایت دی کہ کیا کرنا ہے۔‘عضوِ تناسل کے کاٹے جانے کی ویڈیو عدالت میں نہیں دکھائی گئی تھی لیکن برنس کے جانے کے بعد گسٹاوسن نے 999 پر کال کی تھی۔عدالت کو بتایا گیا کہ گسٹاوسن کا ہسپتال میں علاج کیا گیا تھا اور نفسیاتی تشخیص کی تجویز کے ساتھ کچھ دن بعد چھٹی دے دی گئی تھی۔عدالت نے بتایا کہ جب برنس کو رقم نہیں ملی تو انھوں نے پولیس کے پاس جانے کی دھمکی دی لیکن گسٹاوسن نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے خلاف دھمکیوں، بلیک میلنگ اور دیگر سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے پر پولیس میں شکایت درج کروائیں گے۔عدالت کو بتایا گیا کہ دو سال کے عرصے میں گسٹاوسن نے برنس کو مجموعی طور پر 1500 پاؤنڈ سے زائد رقم ادا کی۔،تصویر کا ذریعہMET POLICE
’رضامندی دفاع نہیں‘
میٹ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے تفتیشی افسران نے کئی گھنٹوں تک پریشان کن فوٹیج دیکھی، متاثرین اور عینی شاہدین کی تلاش کے لیے برطانیہ بھر کا سفر کیا اور ان افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے برطانوی اور غیر ملکی پولیس فورسز کے ساتھ رابطہ کیا۔لندن کے لیے کراؤن پراسیکیوشن سروس کی ماہر پراسیکیوٹر کیٹ ملہولینڈ کا کہنا تھا کہ ’رضامندی اس غیر قانونی سرجری کا دفاع نہیں، جس میں مردوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے ہی سربراہ کے عضوِ تناسل، ٹانگ اور نپل کو غیر جراثیم کش اور بعض اوقات جان لیوا حالات میں جسم سے الگ کیا تھا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.