خواتین پر مشتمل اسرائیل کا وہ فوجی یونٹ جو جانتا تھا کہ حماس ’بڑا حملہ‘ کرنے کے قریب ہے

  • مصنف, ایلیس کوڈی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، اسرائیل
  • 17 منٹ قبل

ان خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غزہ کے ساتھ سرحد پر اسرائیل کی آنکھوں اور کان کے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔گذشتہ کئی برسوں سے ان خواتین کا یہاں سرحد پر ایک ہی کام تھا۔ وہ کام یہ تھا کہ وہ گھنٹوں سرحد کے ساتھ موجود نگرانی کے اڈوں میں بیٹھ کر کسی بھی مشکوک چیز کے آثار تلاش کرتیں اور اس کی اطلاع انتظامیہ کو کرتیں۔ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کے حملوں سے پہلے ان خواتین نے سرحد کے ساتھ مشکوک حرکات دیکھنا شروع کر دی تھیں۔ جیسا کہ چھاپہ مار ٹیموں کی مشقیں، لوگوں کو یرغمال بنانے کی فرضی مشقیں وغیرہ۔نوا (شناخت چھپانے کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے) کہتی ہیں کہ وہ جو کچھ سرحد کے پار دیکھ پا رہی تھیں وہ اس کی اطلاع باقاعدگی سے انٹیلیجنس اور سینیئر افسران کو کر رہی تھیں اور اس سے زیادہ وہ کچھ کرنے سے قاصر تھیں کیونکہ اُن کا کام صرف مشاہدہ کرنا اور اس کی اطلاع افسران کو کرنا تھا۔

ان میں سے کچھ خواتین کو واضح انداز میں معلوم ہو چکا تھا کہ حماس کسی بڑے منصوبے کی تیاری کر رہی تھی اور نوا کے الفاظ میں ’یہ سب ایسا تھا کہ جیسے ایک غبارہ ہو جو پھٹنے کے قریب ہو۔‘بی بی سی نے ان نوجوان خواتین سے سرحد پر جاری مشکوک سرگرمیوں میں اضافے، ان کی جانب سے اس ضمن میں بھیجی گئی رپورٹس اور اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے سینیئر افسران کی جانب سے (ان رپورٹس پر) ردعمل کے فقدان کے بارے میں بات کی ہے۔ ہم نے 7 اکتوبر سے چند ماہ پہلے ان خواتین کی جانب سے بھیجے جانے والے وہ واٹس ایپ پیغامات بھی دیکھے، جن میں وہ سرحد پر ہونے والے واقعات کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔ان میں سے کچھ کے لیے تو یہ بات ایک مذاق بن کر رہ گئی تھی۔ یہ سب سرحد پر قائم نگرانی کے اڈوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے یہ مذاق کیا کرتی تھیں کہ ’جب حملہ ہو گا تو اُس دن اور حملے کے وقت ڈیوٹی پر کون ہو گا؟‘یہ خواتین اکیلی نہیں تھیں جنھوں نے اس خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ اب جیسے جیسے اس معاملے سے متعلق مزید شہادتیں جمع ہو رہی ہیں، اسرائیلی ریاست کے خلاف غصے اور اس کے ردعمل پر سوالات بڑھتے جا رہے ہیں۔بی بی سی نے اپنی بیٹیوں کو کھونے والے غمزدہ خاندانوں اور ماہرین سے بھی بات کی ہے جو ان خواتین کے بارے میں آئی ڈی ایف کے ردعمل کو وسیع تر انٹیلیجنس کی ناکامی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اسرائیلی دفاعی افواج کا کہنا ہے کہ اُن کی توجہ اس وقت حماس کے خطرے کو ختم کرنے پر مرکوز ہے اور انھوں نے بی بی سی کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا ہے۔اسرائیلی سرحد پر قائم نگرانی کے ایک اڈے کی سابق کمانڈر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے (فوج نے) سامنے آنے والی نشانیوں یا کڑیوں کو آپس میں ملایا ہی نہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ایسا ہوتا تو انھیں احساس ہوتا کہ حماس کسی ایسی چیز کی تیاری کر رہی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی یعنی وہ ایک بڑے اور خوفناک حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘19 سالہ شائی آشرا 7 اکتوبر کو ڈیوٹی پر موجود خواتین اہلکاروں میں سے ایک تھیں۔ جب حملہ ہوا تو اُس وقت انھوں نے اپنے اہلخانہ کو آخری فون کال کی، جس میں اُن کے اہلِخانہ نے پس منظر میں گولیوں کی آوازیں سُنی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اڈے میں دہشت گرد موجود تھے اور یہ واقعی ایک بہت بڑا واقعہ ہونے والا تھا۔‘شائی ہلاک ہونے والے ایک درجن سے زائد نگرانی کرنے والے فوجیوں میں سے ایک تھیں۔ جبکہ اُن کے ساتھ کے دیگر اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

،تصویر کا کیپشنشائی آشرا کے والد کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو فوج میں جانا پسند تھا
جب حماس نے حملہ کیا تو غزہ کی سرحد سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع نہال اوز سینٹر پر موجود خواتین اہلکارں نے اپنے مشترکہ واٹس ایپ گروپ پر ایک دوسرے کو الوداع کہنا شروع کر دیا۔نوا، جو ڈیوٹی پر نہیں تھیں اور گھر میں یہ پیغامات پڑھ رہی تھیں، کہتی ہیں کہ جس حملے کا انھیں طویل عرصے سے ڈر تھا وہ اب دراصل ہو رہا تھا۔ان اڈوں کے محل وقوع کی وجہ سے اس فوجی یونٹ کی خواتین ان پہلے اسرائیلیوں میں سے تھیں جن تک حماس کے عسکریت پسند غزہ سے نکلنے کے بعد پہنچے تھے۔

’ہمارا کام تمام رہائشیوں کی حفاظت کرنا ہے‘

یہ خواتین سرحد کے قریب واقع سینٹرز میں بیٹھ کر ہر روز گھنٹوں نگرانی کی فوٹیج دیکھتی تھیں جو ہائی ٹیک باڑ کے ساتھ نصب کیمروں کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔ان میں سے کئی یونٹ غزہ کی باڑ کے قریب ہیں اور دیگر اسرائیل کی سرحدوں کے ساتھ مختلف مقامات پر ہیں۔ یہ سبھی نوجوان خواتین پر مشتمل ہیں، جن کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ ان کے پاس کسی بھی قسم کا اسلحہ یا کوئی بندوق نہیں ہوتی۔اپنے فارغ وقت میں، یہ نوجوان خواتین رقص کرتیں تھیں، ایک ساتھ رات کا کھانا پکاتی تھیں اور ٹی وی پروگرام دیکھتی تھیں۔ ان میں سے بہت سی خواتین پہلی مرتبہ اپنے گھروں اور پیاروں سے دور ہوئیں تھیں۔نوا کہتی ہیں کہ ’ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے ادا کیا۔ ہمارا کام تمام رہائشیوں کی حفاظت کرنا ہے۔ ہمارے پاس بہت مشکل کام ہے۔ آپ شفٹ پر بیٹھتے ہیں اور آپ کو اپنی آنکھوں کو تھوڑا سا بھی جھکانے یا ہلانے کی اجازت نہیں۔ آپ کو ہر وقت انتہائی توجہ کے ساتھ نگرانی کا یہ اہم کام کرنا ہوتا ہے۔‘ستمبر کے اواخر میں آئی ڈی ایف کی جانب سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسرائیل کے ایلیٹ انٹیلیجنس یونٹوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے اس نگرانی والے یونٹ کو ’دشمن کے بارے میں سب کچھ جاننے والے‘ یونٹ کے طور پر بیان کیا گیا۔جب خواتین کو کوئی مشکوک چیز نظر آتی ہے تو وہ اسے اپنے کمانڈر اور کمپیوٹر سسٹم پر لاگ ان کرتی ہیں تاکہ سینیئر حکام اس کا مزید جائزہ لے سکیں۔آئی ڈی ایف کے ریٹائرڈ میجر جنرل ایتان ڈانگوٹ کا کہنا ہے کہ کیمروں سے حاصل ہونے والی فوٹیج کسی بھی خطرے کو سمجھنے کے لیے اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔حماس کے حملوں سے پہلے کے مہینوں میں، سینیئر اسرائیلی عہدیداروں نے عوامی بیانات دیے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس کی طرف سے لاحق خطرے پر قابو پا لیا جائے گا۔ لیکن دوسری جانب سرحد پر بہت سے اشارے تھے کہ کچھ بہت غلط ہونے والا ہے۔فوج میں خدمات انجام دینے والی نوا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم انھیں ہر روز مشق کرتے ہوئے دیکھتے تھے، یہاں تک کہ ان کے پاس ایک ماڈل ٹینک بھی تھا، جسے وہ سنبھالنے یا اس پر قبضے کرنے کی مشق کر رہے تھے۔‘وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’ان کے پاس باڑ پر نصب ہتھیاروں کا ایک ماڈل بھی تھا اور وہ یہ بھی دکھاتے تھے کہ وہ اسے کس طرح اڑا دیں گے، اور اس بات کو مربوط کریں گے کہ فورسز پر کس طرح قابو پایا جائے اور قتل اور اغوا کیا جائے۔‘ایک اور اہلکار ایڈن ہدر کو یاد ہے کہ اپنی سروس کے آغاز میں حماس کے جنگجو بنیادی طور پر اس حصے میں فٹنس کی تربیت لے رہے تھے جس کی وہ دیکھ بھال کر رہی تھیں۔ لیکن اگست میں فوج چھوڑنے سے چند مہینوں پہلے، انھوں نے حماس کی ان مشقوں میں ایک واضح تبدیلی محسوس کی۔‘سرحد کے ساتھ ایک دوسرے اڈے پر، گال (فرضی نام) کہتی ہیں کہ جیسے جیسے تربیت میں اضافہ ہوا، وہ بھی یہ سب دیکھ رہی تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے نگرانی کرنے والے ایک غبارے کے ذریعے دیکھا کہ سرحد پر ایک خودکار اسرائیلی ہتھیار کی نقل تیار کی گئی ہے جو ’غزہ کے وسط میں‘ بنایا گیا ہے۔‘کئی خواتین نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل کی آہنی دیوار کے نام سے مشہور باڑ کے قریب بم نصب کیے گئے اور دھماکے کیے گئے تاکہ بظاہر ان کی طاقت کا امتحان اور جائزہ لیا جا سکے۔ 7 اکتوبر کی فوٹیج میں حماس کے جنگجوؤں کو موٹر سائیکلوں پر اسرائیل میں داخل ہونے سے پہلے بڑے دھماکے کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ایک سابق خاتون اہلکار رونی لفشٹز، جو حماس کے حملے کے وقت بھی خدمات انجام دے رہی تھیں، کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن چیز جو انھوں نے گذشتہ ہفتوں میں دیکھی تھی وہ حماس کے جنگجوؤں سے بھری گاڑیوں کا باقاعدہ گشت تھا، جو باڑ کے دوسری طرف واچ پوسٹوں پر رکتے تھے۔رونی لفشٹز کو یاد ہے کہ ’یہ لوگ (حماس کی عسکریت پسند) بات کر رہے تھے، کیمروں اور باڑ کی طرف اشارہ کر رہے تھے، تصویریں کھینچ رہے تھے۔‘وہ کہتی ہیں کہ وہ ان کے لباس کی وجہ سے حماس کی ایلیٹ فورس سے تعلق رکھنے والے افراد کی شناخت کرنے میں کامیاب رہیں۔رونی کا بیان بیس پر موجود ایک اور خاتون سے ملتا جلتا ہے جنھوں نے بی بی سی سے بات کی تھی۔

،تصویر کا کیپشنرونی لفشٹز کہتی ہیں کہ انھوں نے لوگوں کو غزہ کی طرف سے باڑ کی تصاویر لیتے ہوئے دیکھا

دل کے ایموجیز

کچھ نگرانی کرنے والی خواتین دراندازی کی کوشش کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بارے میں بھی بات کرتی ہیں۔ایک خاتون فوجی کی جانب سے ہمارے ساتھ شیئر کیے جانے والے پیغامات میں سرحد کے ساتھ ساتھ آئی ڈی ایف کی جانب سے اسرائیل میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے افراد کو روکنے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یونٹ کے ممبران دل کے ایموجیز کے ساتھ ان رکاوٹوں پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔خواتین کو سرحد پر رویوں کے انداز میں بھی عجیب تبدیلیاں نظر آنے لگیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے کسان، پرندے پکڑنے والے اور بھیڑ پالنے والے سرحدی باڑ کے قریب آنے جانے لگے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ افراد حملوں سے قبل انٹیلیجنس معلومات جمع کر رہے تھے۔ ’ہم ہر ایک کو چہرے سے جانتے ہیں۔ اچانک باڑ کے نزدیک ہمیں پرندے پکڑنے والے اور کسان نظر آنے لگے جنھیں ہم نہیں جانتے تھے۔ ہم نے انھیں نئے علاقوں میں منتقل ہوتے دیکھا۔ ان کا معمول بدل گیا تھا۔‘نوا کو یہ بھی یاد ہے کہ وہ باڑ کے ’قریب اور قریب تر‘ ہو رہے تھے۔وہ کہتی ہیں ’وہ اپنے پنجرے باڑ پر رکھ دیتے تھے۔ یہ عجیب ہے کیونکہ وہ پنجروں کو کہیں بھی رکھ سکتے تھے۔ کسان ایک ایسے علاقے میں باڑ کے بالکل قریب بھی جاتے جو زرعی نہیں تھا۔ سسٹم کے بارے میں معلومات جمع کرنے اور یہ دیکھنے کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اسے کیسے عبور کر سکتے ہیں۔ یہ ہمیں مشکوک لگ رہا تھا۔‘’ہم ہر وقت اس کے بارے میں بات کرتے تھے۔‘’ہم نے جس کسی سے بھی بات کی وہ اس کی اہمیت سے واقف نہیں تھا جو ہم دیکھ رہے تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناسرائیل کے ساتھ سرحد پر حماس کی جانب سے جلایا جانے والا ایک ’واچ ٹاور‘
بہت سی خواتین فوجی اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں لگتا تھا کہ ان کے خدشات کو نہیں سنا جا رہا ہے۔رونی کہتی ہیں کہ انھیں ’کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ان کی جانب سے بھیجی گئی رپورٹس حقیقت میں گئیں کہاں۔‘’ہم نے جو کچھ رپورٹ کیا تھا اور جو کچھ بتایا تھا اس کے بارے میں ہمیں کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘نوا کا کہنا ہے کہ ’وہ گن نہیں سکتی تھیں کہ انھوں نے کتنی بار رپورٹ درج کروائی۔ یونٹ کے اندر ہر ایک نے اسے سنجیدگی سے لیا مگر یونٹ سے باہر کے لوگوں نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا۔‘اویگیل کا کہنا ہے کہ یہاں تک کہ جب سینیئر عہدیدار ان کے مرکز پر آتے تھے تو ’کوئی بھی ہم سے بات نہیں کرتا تھا یا ہماری رائے نہیں پوچھتا تھا یا ہمیں اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا جاتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’وہ آتے، اگلا کام دیتے اور چلے جاتے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشناسرائیلی فوجی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ حماس کے حملے سے قبل انھیں غزہ میں نامعلوم چہرے نظر آنا شروع ہو گئے تھے

’اگر کوئی سُن نہیں رہا تو ہم یہاں کیوں ہیں؟‘

گیل کہتی ہیں کہ اپنے یونٹ میں کمانڈر کی حیثیت سے انھیں جو معلومات اہلکاروں کی جانب سے موصول ہوتیں وہ اسے اپنے سپروائزر کو دیتیں تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں بتایا جاتا کہ ان رپورٹس کو دیکھا جائے گا مگر اس سے آگے کبھی کچھ نہیں ہوا۔ان میں سے کئی خواتین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی مایوسیوں اور پریشانیوں کا اظہار اپنے اہلخانہ کے ساتھ بھی کیا۔شہف کی والدہ، ایلانا کو یاد ہے کہ ان کی بیٹی کہتی تھیں کہ ’اگر کوئی نہیں سُن رہا ہے تو ہم یہاں کیوں ہیں؟‘وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھے بتایا کہ لڑکیاں دیکھتی ہیں کہ گڑبڑ ہے۔ میں نے پوچھا ’کیا آپ سینیئر افسران کو اس کی شکایت کر رہے ہیں؟‘ لیکن شہف کی پریشانیوں کے باوجود، دوسروں کی طرح، ان کے خاندان کو بھی فوج اور اسرائیلی ریاست پر مکمل اعتماد تھا، اور ان کا خیال تھا کہ اگر کچھ منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، تو اس سے جلد نمٹا جائے گا۔الیانا کو یاد ہے کہ ’آخری مہینوں کے دوران اس نے بار بار کہا کہ جنگ ہو گی، آپ دیکھیں گے۔ ہم ان پر ہنستے تھے کہ وہ چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں۔‘شہف 7 اکتوبر کے حملے میں مارے جانے والے پہلے لوگوں میں سے تھیں۔یہ اسرائیل کی تاریخ کا خوفناک دن بن گیا جس میں قریب 1300 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ وزیر اعظم کے دفتر کے مطابق اس دن 240 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا۔ حماس کے زیرِ انتظام فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جوابی فضائی اور زمینی کاررائیوں میں غزہ کے 23000 سے زیادہ لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔ انھیں اس وقت معلوم نہیں تھا کہ یہ واحد گروہ نہیں جو خدشات ظاہر کر رہا ہے۔ ان کا مشاہدہ انٹیلیجنس کا واحد ذریعہ نہیں تھا جو اس وقت موصول ہوا۔ اخبار نیو یارک ٹائمز کی خبر کے مطابق سات اکتوبر سے ایک سال قبل اسرائیلی حکام کو حماس کے منصوبے کا علم ہوا تھا مگر اسے غیر متوقع سمجھ کر مسترد کر دیا گیا۔ اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی کے یونٹ 8200 کے سابقہ تجزیہ کار نے حماس کے حملے سے تین ماہ قبل متنبہ کیا تھا کہ حماس نے سخت مشقیں کی ہیں تاہم اخبار کے مطابق اسے بھی سنجیدگی سے نہ لیا گیا۔ حماس اور دیگر مسلح گروہوں کی مشقوں کو سوشل میڈیا پر بھی دیکھا گیا تھا۔

،تصویر کا کیپشنشہف اپنی والدہ کے ساتھ

ان خواتین کو ’وہ توجہ نہ مل سکی جو ملنی چاہیے تھی‘

ریٹائرڈ میجر جنرل ایتن ڈنگوٹ کا کہنا ہے کہ ’علامات واضح تھیں۔ جب آپ شواہد جمع کرتے ہیں تو آپ وقت سے پہلے فیصلے لیتے ہیں اور اسے روکنے کے لیے کچھ کرتے ہیں۔‘’افسوس ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔‘وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ مکمل تحقیقات اب تک نہیں ہوئی تاہم یہ واضح ہے کہ ان خواتین کو ’وہ توجہ نہیں دی گئی جو دی جانی چاہیے تھی۔‘’کبھی کبھار سینیئر افسران میں ضرورت سے زیادہ اعتماد ہوتا ہے جیسے وہ کہتے ہیں کہ ’ٹھیک ہے۔ میں نے آپ کی بات سن لی مگر مجھے آپ سے زیادہ معلوم ہے۔ میرے پاس تجربہ ہے۔ ہم آپ سے بڑے ہیں۔ میرے پاس علاقائی حکمت عملی کا علم ہے، یہ وہ نہیں جو آپ بتا رہے ہیں‘۔‘وہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھار مرد اپنی رائے کو خواتین کی رائے پر بھی فوقیت دیتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’انٹیلیجنس کے شعبے میں آپ گول میز پر بیٹھتے ہیں اور معلومات جمع کرتے ہیں۔ آپ اس طرح اپنی پہیلی سلجھاتے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ جب آپ واقعی جاننا چاہیں کہ کیا ہو رہا ہے تو آپ ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور غور سے ان کی بات سنتے ہیں تاکہ صورتحال کو سمجھ سکیں۔‘غزہ ڈویژن کے سابق ڈپٹی کمانڈر بریگیڈیر جنرل عامر اویوی کو نہیں لگتا ہے کہ خواتین کی مخالفت اس کی وجہ تھی تاہم وہ اس بات سے متفق ہیں کہ خدشات کے دور کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جانے چاہیے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں مکمل اعتماد سے نہیں کہہ سکتا کہ کیا ہوا تھا لیکن یہ متوقع تھا۔‘’جب سرحد پر لوگ اپنے کام کرتے ہیں اور ان کے خدشات ہوتے ہیں کہ انھیں کچھ دیکھا اور سمجھا ہے تو آپ کو ان کی بات سننی چاہیے کیونکہ وہ پیشہ ورانہ لوگ ہیں۔ یہ لوگ صحیح معنوں میں بٹالین، بریگیڈ اور ڈویژن کی آنکھیں ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ کیا ہوا لیکن میں وہ بیان کر سکتا ہوں جس کی توقع ہے۔‘’توقع کی جاتی ہے کہ جب سرحد پر موجود لوگ اپنا کام کرتے ہیں اور انھیں خدشات ہوتے ہیں اور وہ ایسی چیزیں دیکھتے ہیں، جن کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے، تو آپ کو ان کی بات سننی چاہیے۔ یہ لوگ ہی بٹالین، بریگیڈ اور ڈویژن کی آنکھیں ہیں۔‘آئی ڈی ایف نے مستقبل میں تحقیقات کا وعدہ کیا ہے اور بی بی سی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس قسم کے سوالات کو بعد کے مرحلے میں دیکھا جائے گا۔‘

،تصویر کا کیپشنشائی کے والد ڈرور کہتے ہیں کہ وہ اکثر اپنی بیٹی کے کمرے میں آ کر روتے ہیں
شائی آشرا کے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل پر ملٹری بیریٹس لٹک رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ وردی میں ملبوس ان کی تصویریں بھی موجود ہیں۔ان کے والد ڈرور کہتے ہیں کہ وہ اکثر اس کمرے میں آ کر روتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ’اسے اپنی نوکری سے بہت محبت تھی۔ اسے فوج سے محبت تھی اور اسے فوجی بننے سے محبت تھی۔‘میں ایک ٹیکسی ڈرائیور ہوں۔ جب میں ریلوے سٹیشن سے لوگوں کو اپنی ٹیکسی میں بٹھاتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کسی فوجی کو اس کے والد لینے آئے ہیں تو میں حسد محسوس کرتا ہوں۔‘

’وہ سب کچھ ہر جگہ میرے ساتھ ہے‘

اپنے خاندان کے گھر میں نوا ہر روز سوشل میڈیا پر اپنی دوستوں کی گاتے اور رقص کرتی ویڈیوز دیکھتی ہیں۔ وہ ہر رات صوفے پر سوتی ہیں کیونکہ بیڈ میں اکیلے سونے سے وہ ڈر جاتی ہیں۔’وہ سب کچھ ہر جگہ میرے ساتھ ہے۔۔۔ ڈراؤنے خوابوں اور خیالات میں، نیند اور بھوک کی کمی میں۔۔۔ میں وہ انسان نہیں رہی جو میں پہلے تھی۔‘واٹس ایپ پر موجود میسجز دکھاتے ہوئے انھوں نے اپنی مختلف ساتھیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ’مر‘ چکی ہیں یا یہ ’اغوا‘ ہو چکی ہیں۔ان کے اڈے پر، ناحال عوز (جس کمرے میں وہ سب کام کرتی تھیں) اب تباہ ہو چکا ہے۔ حماس پر نظر رکھنے کے لیے استعمال ہونے والی سکرینز جل چکی ہیں۔مرنے والوں میں بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جنھوں نے اسرائیل کے لیے سرحد کی بہت قریب سے نگرانی کی، یہ جانتے ہوئے کہ اسرائیل کی بے پناہ طاقت اور وسائل کے باوجود ایک دن ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}