’اِن سیل‘: خواتین بیزار فورمز پر موجود ایسے مرد جو سمجھتے ہیں کہ سیکس، محبت اور خوشی ان کی پہنچ سے دور ہے
- جوناتھن گرفِّن
- بی بی سی ٹرینڈِنگ
اب یہ بات پوری طرح سامنے آ چکی ہے کہ جمعرات 12 اگست کو برطانیہ کے قصبے پلیمتھ میں جیک ڈیویسن نامی جس شخص نے پانچ افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا وہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر خاتون مخالف گروپس کا سرگرم رکن تھا۔ ان فورمز پر آنے والے مرد اپنا تعارف ایسے مردوں کے طور پر کراتے ہیں جو مجبوراً غیر جنسی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایسے مرد خود کو ’اِن سیل‘ (اِن والینٹری سیلیبٹ) یا ’غیر ارادی کنوارے‘ کہلواتے ہیں۔
برطانیہ میں اندھا دھند فائرنگ کے اس واقعے سے پہلے امریکہ میں بھی ایسے دو واقعات ہو چکے ہیں جن کے بعد لوگ انٹرنیٹ پر موجود خاتون بیزار مردوں کی سرگرمیوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسے مردوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں جو انٹرنیٹ پر موجود اس قسم کے فورمز پر جاتے ہیں۔
ناکامی اور احساسِ محرومی
’پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے یہ امید کبھی نہیں تھی کہ میں کسی خاتون کو اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہوں۔‘
یہ الفاظ ہیں جیک پیٹرسن کے جو ہزاروں جوان مردوں کی طرح ’ریڈِف‘ یا اس قسم کی دیگر ویٹ سائٹس پر جاتے ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی جنسی تعلق سے عاری زندگی گزار رہے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے جیک پیٹرسن کا کہنا تھا کہ ’مجھے خواتین سے تعلقات کے حوالے سے ایک دو برے تجربات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے مجھے لگا کہ میرے لیے اپنے ماضی کو بھلا کر نئے سرے سے کسی خاتون سے تعلق جوڑنا مشکل ہو گیا ہے۔ میرا کچھ ایسی خواتین سے واسطہ پڑ چکا ہے جنھوں نے میرے ساتھ خاصا برا سلوک کیا تھا۔‘
اگر آپ کسی بھی اِنسیل فورم پر جائیں آپ کو عموماً ایسے ہی خیالات دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں ناکامی اور محرومی کے احساس کے ساتھ ساتھ خواتین سے نفرت اور غصہ نمایاں ہوتا ہے۔ میں نے اس حوالے سے کئی ایسے نوجوان مردوں سے بات کی جو خود کو اِنسیل کہلواتے ہیں۔ ان کی عمریں بیس سال سے کم یا کچھ زیادہ تھی۔ ان میں سے اکثر کا کہنا تھا کہ انھیں خواتین نے ٹھکرایا دیا اور خواتین کی طرف سے انھیں منفی رویے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ لوگ انٹرنیٹ پر خاتون بیزار فورم پر اس لیے جاتے ہیں کہ یہ زندگی میں اکیلا پن محسوس کرتے ہیں۔ جب وہ کسی ایسے فورم پر جاتے ہیں تو انھیں وہاں غصے سے بھرے ہوئے ایسے مرد نظر آتے ہیں جن کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ پیدائش کے وقت سے ہی اس معاملے میں ہار چکے ہیں اور وہ اب کچھ نہیں کر سکتے، وہ چاہے جو مرضی کر لیں خواتین کے لیے پرکشش نہیں بن سکتے۔
جیک پیٹرسن کا یوٹیوب پر اپنا ایک چینل بھی ہے اور وہ پوڈ کاسٹ بھی کرتے ہیں۔ ان کا شمار گنتی کے ان خاتون بیزار مردوں میں ہوتا ہے جو سنہ 2018 میں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں فائرنگ کے ایک واقعے کے بعد میڈیا سے بات کرنے پر رضامند ہوئے تھے۔
جیک کے علاوہ جن دیگر مردوں نے مجھ سے بات کرنے کی حامی بھری، میں نے اس مضمون میں ان کے فرضی نام استعمال کیے ہیں۔ یہ لوگ اصل میں شرمندہ ہیں کہ وہ خواتین سے تعلقات بنانے میں ناکام ہو چکے ہیں تاہم ان میں بہت سے ایسے ہیں جو جنسِ مخالف کے بارے میں انتہاپسند خیالات کے مالک ہیں۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک ِاِنسیل لیئم (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ کم عمری میں ہی انٹرنیٹ پر اس قسم کے فورمز میں بڑے سرگرم تھے۔ لیئم بیروزگار ہیں اور وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔
لیئم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’میں خواتین کے بارے میں منفی خیالات رکھتا ہوں، شاید اسی وجہ سے میرح زندگی میں بھی بہتری نہیں آ رہی۔‘
میں نے ان سے سیدھا سوال پوچھا کہ کیا آپ عورتوں سے نفرت کرتے ہیں؟‘
’کسی لحاظ سے کرتا بھی ہوں‘ جیک نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ ’میں کوشش کرتا ہوں کہ نہ کروں لیکن میں خود کو ایسا ہی پاتا ہوں۔ میں کوئی بات کر رہا ہوتا ہوں تو ایسی بات کہہ جاتا ہوں، جو مجھے نہیں کرنی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں (اِنسیل) فورمز پر جاتا رہا ہوں۔‘
میری اور لیئم کی گفتگو درمیان میں رکتی رہی اور کبھی بات ادھر ادھر نکل جاتی اور اس میں خاموش لمحے آ جاتے۔ ایک موقع پر میں لیئم سے پوچھتا ہوں کہ ان کے خیال میں وہ اپنی عام زندگی میں ایسی کیا باتیں کر جاتے ہیں جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔
اس کے جواب میں وہ منھ ہی منھ میں خواتین کے بارے میں ایسی تحقیر آمیز باتیں کرتے ہیں جو قابلِ اشاعت نہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کیا ان کے اس رویے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اِنسیل کمیونٹی کی ویب سائیٹس پر جاتے رہے ہیں؟
’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان دونوں چیزوں کے درمیان کوئی تعلق ہے کیونکہ جب آپ چھوٹے ہوتے ہیں تو اس قسم کی باتیں نہیں کرتے لیکن میرا خیال ہے کہ (اگر میں ایسے فورمز پر نہ جاتا تو) اس قسم کی باتیں نہ کرتا۔‘
انٹرنیٹ پر موجود مردوں کی ان ’برادریوں میں یہی ہوتا ہے۔ یہ آپ کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں اور آپ ایک ایسے بڑے خالی کمرے میں پہنچ جاتے ہیں جہاں آپ کو ایسے ہی مسائل کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔‘
’آپ کے ذہن میں کوئی چھوٹی سی چیز آتی ہے تو پھر آپ دیکھتے ہیں کہ ان فورمز پر موجود لوگ آپ سے بھی زیادہ سخت باتیں کر رہے ہیں۔ یوں آپ کو لگتا ہے کہ چھوٹی موٹی بات تو قابل قبول ہوتی ہے۔‘
لیئم نے خواتین کے بارے میں جن انتہا پسندانہ خیالات کا ذکر کیا، اگر آپ ان ویب سائیٹس پر جائیں تو وہاں ایسی باتیں میسج بورڈ پر لکھے ہوئے مردوں کے پیغامات میں صاف دکھائی دیتی ہیں۔
سیکس اور آپ کی جینز کا کیا تعلق ہے؟
اگر آپ ان ویب سائٹس پر جائیں تو وہاں لوگوں کے پیغامات میں یہ چیز واضع نظر آتی ہے کہ تمام عورتیں پیسے بٹورنے کے چکر میں ہوتی ہیں، وہ مختلف مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتی رہتی ہیں اور وہ مردوں کو الو بناتی ہیں۔ ان فورمز پر پرکشش خواتین کو خاص طور پر کچھ القابات سے نوازا جاتا ہے اور انھیں ’سٹیسی‘ کہا جاتا ہے۔
اِنسیل پر پائے جانے والے مردوں کی زبان میں ’سٹیسی‘ سے مراد ایسی خواتین ہیں جن کی مردوں کو خواہش ہوتی ہے لیکن مرد انھیں برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ اور یہ کہتے ہیں کہ سٹیسی ان جیسے اِنسیل مرد کے مقابلے میں ہمیشہ کسی ’چیڈ‘ کو ترجیح دیتی ہے۔
اور چیڈ سے ان لوگوں کی مراد جنسی طور پر ایک کامیاب مرد ہوتا ہے۔ ایسے مرد کے بارے میں مجرّد مرد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زیادہ پر اعتماد شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ ایسے کامیاب مردوں کے مقابلے میں مجرّد مرد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چیڈ مردوں سے پیدائشی طور پر ہی کمتر ہیں۔
انسیلز پر ’چیڈ‘ مرد کی میمز جابجا نظر آتی ہیں
مجوراً کنوارے مردوں کے فورمز پر اکثر چیڈ کو ایک کامیاب مرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کے بال سنہری ہوتے ہیں، کثرتی بدن کا مالک ہوتا ہے اور چمکدار سبز پتلون پہنے شیخیاں بگھار رہا ہوتا ہے۔ چیڈ کے پاس سپورٹس کار تو ہوتی ہی ہے لیکن اس سے بڑھ کر اس کے جسم بھی ایسا ہوتا ہے جسے دیکھ کر حسد ہوتا ہے۔ مثلاً ان کے جبڑے کی ہڈی ایسی ہوتی ہے جیسے تراش کے بنائی گئی ہو۔
جنسی طور پر کامیاب مردوں کا یہ حلیہ سن کر لگتا ہے کہ یہ ہنسنے کی بات ہے لیکن مجبوراً کنوارے مردوں کی ویب سائٹس پر یہ خصوصیات بہت اہم سمجھی جاتی ہیں کیونکہ ان ہی خصوصیات کی بنیاد پر مجرد مردوں میں ’ہم بمقابلہ لوگوں‘ کی سوچ جنم لیتی ہے۔ ایسے مرد سمجھتے ہیں کہ سیکس، محبت اور خوشی ان کی پہنچ سے دور ہے اور یہ چیزیں صرف دوسرے مردوں کو ہی حاصل ہوتی ہیں۔
اس سوچ کے نتیجے میں یہ لوگ خاص طور پر ایک نظریے کے قائل ہوجاتے ہیں جسے ان کی زبان میں ’بلیک پِل‘ یا سیاہ گولی کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کا مطلب یہ ہے کہ سیکس اور جنسِ مخالف کی نظر میں پرکشش ہونا، یہ ایسی چیزیں ہیں جو ان سے پیدائش کے وقت ہی چھین لی گئی تھیں۔
ایسے میں اگر ان مردوں میں سے کوئی یہ کہتا ہے کہ انھیں مثبت سوچ اپنانی چاہیے اور اپنی مدد آپ کرنی چاہیے، تو اس کے ساتھی ناک بھوں چڑھانا شروع کر دیتے ہیں اور اگر کوئی کسی خاتون سے تعلق بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسے ’فیک سیل‘ یا جعلی مجرّد کا لقب دے دیا جاتا ہے۔
الیک مناسیئن نے ٹورونٹو حملے سے کچھ دیر پہلے فیس بک پر خاتون بیزار گروپ کی جانب سے بغاوت کا اعلان کیا تھا
خاتون بیزار کمیونٹی میں شامل مردوں کے گروپ آپ کو ریڈِٹ، فیس بُک، 4چین اور کچھ ایسی ویب سائٹس پر نظر آتے ہیں جو یہ اِنسیل مرد خود چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر ان فورمز کی مخالفت میں بنائے جانے والے گروپ بھی موجود ہیں جہاں خود ساختہ کنوارے مردوں کے خیالات کا تسمخر اڑایا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک گروپ میں میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی جو ماضی میں خاتون بیزار لوگوں میں شامل تھا۔
میتھیو (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ انھیں ایک ایسے گروپ کے بارے میں معلوم ہوا جو ’4چین‘ پر موجود تھا۔ فورچین ایک ایسا میسج بورڈ ہے جہاں خواتین کے حوالے سے انتہائی شدید خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ میتھیو نے مجھے کھل کر بتایا کہ جب انھوں نے صرف پندرہ برس کی عمر میں اس فورم پر جانا شروع کیا تھا تو اس کی وجہ کیا تھی۔
’میرا وزن خاصا زیادہ تھا۔ میں معاشرتی اعتبار سے بہت نابلد تھا اور میرا دوستوں کا حلقہ بھی بہت محدود تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں عدم تحفظ کا شکار ہو گیا۔‘
’اس کے بعد ایک لڑکی سے تعلق قائم ہوا تو اس نے میرا دل توڑ دیا، جس کے بعد مجھ میں عدم تحفظ کا احساس مزید بڑھ گیا۔‘
اس کے بعد کے برسوں میں خواتین کی جانب میتھیو کا رویہ انتہائی سخت ہوتا گیا۔
شروع میں مجھے ایک خاص لڑکی پر غصہ تھا لیکن انٹرنیٹ پر باقی لوگوں سے باتیں کرنے کے بعد انھوں نے مجھے قائل کر دیا کہ بے رحمی ایک ایسی چیز ہے جو تمام خواتین میں مشترک ہوتی ہے۔ اب جب میں سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میری سوچ کتنی غلط تھی۔
’میرا نظریہ یہی تھا کہ اپنا کام نکلوانا تمام عورتوں کی طبیعت میں شامل ہوتا ہے۔ تمام عورتوں کی نیت یہی ہوتی ہے کہ وہ مردوں کو استعمال کر کے فائدہ اٹھائیں۔‘
سرعام فائرنگ اور قتل
انٹرنیٹ پر خاتون بیزار مردوں کی دنیا کا ایک بڑا نام شاید ایلیٹ روجر تھا جس نے سنہ 2014 میں چھ افراد کو مارنے کے بعد خود کو گولی مار لی تھی۔
ایلیٹ روجر کے منشور میں نہ صرف نسل پرستانہ خیالات کا کھلم کھلا اظہار تھا بلکہ خواتین کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ کی بھرمار تھی۔ ان کو شکایت تھی کہ خواتین ان کے ساتھ سیکس نہیں کرنا چاہتیں۔
اپنے منشور میں اگرچہ ایلیٹ نے اِنسیل گروپوں کا کوئی خاص ذکر نہیں کیا تھا لیکن انھوں نے جو حرکت کی اس کا ذکر ایسے گروہوں میں تب سے ہو رہا ہے۔ کبھی کبھی آپ کو لگتا ہے کہ تبصروں میں مزاح ہوتا ہے لیکن دوبارہ نگاہ ڈالیں تو لگتا ہے کہ تبصرے کرنے والے بڑی سنجیدگی سے بات کر رہے ہیں۔
ایلیٹ روجر نے سنہ 2014 میں بندوق اور چاقو سے حملہ کر کے چھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا
مجھے بھی ایسے ہی ایک فورم پر شائع پیغامات دیکھنے کا موقع ملا جہاں کوئی شخص کہہ رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی ختم کرنے کا سوچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ کئی تبصروں میں لوگ کہہ رہے تھے کہ وہ کسی پرتشدد کارروائی کا سوچ رہے ہیں۔
مثلاً ایک شخص نے لکھا ’خود غرض نہ بنو بلکہ کسی پرائمری سکول میں جاؤ اور خودکشی کرنے سے پہلے کچھ بچوں کو بھی ہلاک کر دو۔ پلیز‘
اِنسیل برادری میں اس قسم کے پیغامات کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ یہاں اگر کوئی ذکر کرتا ہے کہ وہ خودکشی کا سوچ رہا ہے تو گروپ کے باقی ارکان اسے یہی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ خودکشی کر لے۔
جب میں لیئم سے بات کر رہا تھا تو اس نے بھی روجر کی اندھا دھند فائرنگ سے چھ افراد کی ہلاکت کے بارے میں مذاق میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔
اس کے بقول ’میں نہیں سمجھتا کہ (روجر) کی حرکت کوئی اتنی غلط تھی۔‘ لیکن جب میں نے سنجیدگی سے پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ ’ہاں یہ بات تو ہر کوئی سمجھتا ہے کہ لوگوں کو ہلاک کرنا غلط چیز ہے۔‘
لیئم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر آپ کو خودکشی کا خیال آتا ہے تو اِنسیل کے فورم ایسی جگہ نہیں جہاں آپ کو مدد کے لیے جانا چاہیے۔
ان فورمز پر ’مرد دوسرے عام لوگوں کے برعکس کوئی لگی لپٹی بات نہیں کرتے۔‘
خواتین بیزار گروپوں کی کوئی نگرانی نہیں
ایسی ویب سایٹس پر انتظامیہ کم ہی توجہ دیتی ہے۔ مثلاً گذشتہ عرصے میں ریڈٹ نے اپنے پلیٹ فارم سے اِنسیل گروہوں کی سرگرمیوں کو ہٹانے کی کئی مرتبہ کوشش کی لیکن اس کے باوجود ریڈٹ پر اب بھی ایسے کئی گروپ موجود ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو ذاتی طور پر ایسے فورمز پر نظر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس حوالے سے میں نے کینیڈا کی ایک خاتون ایمیلی سے بات کی جو کئی برسوں سے ٹورنٹو میں رہنے والے خاتون بیزار مردوں کا مشاہدہ کر رہی ہیں۔ ایمیلی بتاتی ہیں کہ انھیں ایسے گروہوں کی طرف سے ریپ کی دھمکیاں بھی مل چکی ہیں۔
ایمیلی کا کہنا تھا کہ انھوں نے خاص طور ٹورنٹو حملے کے بعد جب ایسے گروپ کے لوگوں سے گفتگو کی تو وہ بہت پریشان ہو گئیں۔ کچھ افراد نے تو کہہ دیا کہ ان کا حملہ آور سے کوئی لینا دینا نہیں جبکہ کئی افراد اپنے ساتھیوں کے اس مؤقف کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’حملے کے ایک دن بعد میں نے ایک برطانوی طالبعلم کو دیکھا جو خود ایک اِنسیل تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے ایک میڈیکل سکول میں داخلہ اس وجہ سے نہیں ملا کہ انٹرویو لینے والی ایک خاتون تھی جس کا خیال یہ تھا کہ میں اتنا بدصورت ہوں کہ ڈاکٹر نہیں بن سکتا۔‘
یہ نوجوان اُسی رات خودکشی کا منصوبہ بنا رہا تھا اور انٹرنیٹ پر لوگ اس کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے کہ وہ نہ صرف بدلہ لے بلکہ ’اکیلا نہ مرے۔‘
’یہ لوگ اپنے پیغامات کے ساتھ ایسی میمز بھی شائع کرتے ہیں جن میں تشدد دکھایا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ لوگوں پر پر حملہ کرو لیکن کوئی (حکام) بھی اس معاملے میں کچھ نہیں کر رہا۔ اگر اس قسم کی حرکت نہام نہاد دولتِ اسلامیہ والے کرتے تو یہ فورم فوراً بند کر دیا جاتا اور لوگوں کو گرفتار کر لیا جاتا۔‘
اپریل میں ٹورنٹو حملے میں مرنے والوں کی یاد میں لوگوں نے یونگ سٹریٹ پر شمعیں روشن کی تھیں
ایمیلی کہتی ہیں کہ ٹورنٹو میں خاص طور پر خاتون بیزار مردوں کی سرگرمیاں زیادہ ہیں جس کی ایک وجہ کینیڈا کی سیاسی فضا ہو سکتی ہے جہاں وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو خود کو حقوق نسواں کا علمبردار کہلانا پسند کرتے ہیں۔
’میں سمجھتی ہوں کہ جب مردوں اور خواتین کی برابری کی بات زیادہ ہوتی ہے تو کچھ لوگ دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے کل تک آپ بادشاہ تھے اور اب تمام لوگ آپ کے برابر ہو گئے ہیں۔ اس سے آپ کو خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔‘
اس کے علاوہ لگتا ہے کہ خاتون بیزار مردوں کے گروہوں کے کلچر اور قوم پرست اور حقوق نسواں کے خلاف تحریکوں کے درمیان مماثلت پائی جاتی ہے اور ان سب کا ایجنڈا ایک جیسا دکھائی دیتا ہے۔ یہ دونوں گروپ دنیا کو ایک ہی زاویے سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ پیدائشی طور پر ہی خواتین کے لیے پرکشش نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں دیگر نسلی گروہوں کی طرح بلاوجہ ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے میتھیو ایک زمانے میں خود خاتون بیزار مردوں میں شامل تھے لیکن ان کے بقول انھوں نے اس گروپ سے اس وجہ سے علیحدگی اختیار کر لی کیونکہ اس میں سیاست آ گئی تھی۔
’ان دنوں یہ گروپ اتنے زیادہ جارحانہ نہیں ہوتے تھے جتنے آج ہیں۔ اب ان گروپس میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو آپ میں غصے کے جذبات کو ابھارتے ہیں۔ یہ لوگ پھر آپ کو انتہائی دائیں بازو کی تحریکوں کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔
اسی لیے ’میں نے 2016 کے آخر میں خود کو اِنسیل کہلوانا بند کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب آسٹریلیا میں سیاسی بیانیہ گرما گرم بحثوں کا شکار ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ان لوگوں نے ہر چیز کا الزام عورتوں پر لگانا شروع کر دیا تھا۔‘
میتھیو اب یونیورسٹی میں پہنچ چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ نئے لوگوں سے ملنے کے بعد ان کے لیے خواتین سے بات کرنا اور ملنا ملانا قدرے آسان ہو گیا ہے۔ لیکن میتھیو کو پریشانی ہے کہ وہ خاتون بیزار مرد جو اپنے آپ میں ہی رہتے ہیں، ان کے لیے خود کو تبدیل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔
پولیس نے الیک مناسیئن کو حملے کے فوراً بعد حراست میں لے لیا تھا
خواتین سے نفرت انگیز سوچ سے نکلنا
انٹرنیٹ پر خواتین کے بارے میں نفرت انگیز خیالات کے باوجود ٹورنٹو حملے کے بعد لگتا ہے کہ کچھ خاتون بیزار مردوں کی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔
میرے پہلے انٹرویو کے چند دن بعد جب جیک پیٹرسن نے ’میں انسیلز کو کیوں چھوڑ رہا ہوں‘ کے عنوان سے ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر لگائی تو میں نے انھیں دوبارہ فون کیا تا کہ پوچھ سکوں کہ وہ اس گروپ کو کیوں چھوڑ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں جب سے زیادہ مصروف ہوا ہوں، کام کر رہا ہوں، شہر جانا شروع کیا ہے، اور سفر کے ساتھ ساتھ مختلف لوگوں سے ملنا شروع کیا ہے، تو میں اس سوچ سے دور ہوتا گیا۔ سی این این، بی بی سی اور روزنامہ سن سے بات کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میری روز مرہ زندگی دلچسپی سے عاری ہے اور اس میں بہت یکسانیت ہے۔‘
’اور مجھے یہ احساس ہو گیا کہ میں اب سارا دن انٹرنیٹ پر ان فورمز میں نہیں جا سکتا اور ہر وقت اپنی بیزاری کا رونا نہیں رو سکتا۔ اب میں اس حوالے سے پوڈ کاسٹ بھی بنا رہا ہوں۔ مجھے اپنے اندر یہ تبدیلی لانا ہے۔‘
’اگر آپ کوئی عام آدمی بھی ہیں جو اپنی والدہ کے ساتھ رہ رہا ہے اور ویڈیوز بنا بنا کر یہ دکھا رہا ہے وہ کتنی بیکار زندگی گزار رہا ہے، تو اس سے بھی آپ کسی حد تک دنیا پر اثرانداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس سے مجھے کچھ اعتماد ملا۔‘
لیکن میڈیا کی توجہ کے بعد جیک نے یہ دیکھا کہ انھیں ایسے حلقوں کی طرف سے بھی اچھا ردعمل مل رہا ہے جن کی انھیں توقع نہ تھی۔
’مجھے حقوں نسواں کے کارکنوں اور بائیں بازو کی جانب سے مثبت تبصرے دیکھنے کو ملے۔ اور دوسری طرف خاتون بیزار برادری تھی جو مجھے خودکشی کی ترغیب دے رہی تھی۔ مجھے لگا کہ یہ میرے لیے کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔‘
ایمیلی ایسے گروہوں کے ساتھ حیران کن ہمدردی رکھتی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جو خاتون بیزار مرد یہ کہانی پڑھیں گے، ان کے لیے ایمیلی کا پیغام کیا ہے۔
’اگر آپ دنیا میں محبت کا پرچار کرتے ہیں، تو آپ کو جواب میں بھی محبت ملے گی۔ اور اگر آپ عورتوں کے بارے میں منفی سوچ کا اظہار کریں گے تو وہ کبھی بھی آپ سے تعلق قائم نہیں کرنا چاہیں گی۔‘
’اس لیے آپ کو اپنے اندر جھانکنے کی شدید ضرورت ہے۔ یہ دنیا قابل نفرت جگہ نہیں ہے۔ یہاں لوگ دوست بننا پسند کرتے ہیں۔ آپ بدصورت نہیں ہیں اور آپ کی ایک حیثیت ہے۔‘
Comments are closed.