خلائی مخلوق کی موجودگی سے متعلق ناسا کی رپورٹ ہمیں کیا بتاتی ہے؟

خلائی مخلوق

  • مصنف, برینڈن لائیوسے
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے سینکڑوں یو ایف او دیکھے جانے کی اطلاعات کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان ’غیر واضح مظاہر‘ کے پیچھے کسی خلائی مخلوق کا ہاتھ ہے۔ تاہم خلائی ادارہ بھی اس امکان کو مسترد نہیں کر سکا۔

اگر ایلینز کہیں سچ میں ہیں تو یہ طویل عرصے سے متوقع رپورٹ اس کا کوئی حتمی ثبوت پیش نہیں کرتی ہے۔ لیکن اس میں اس بات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح ناسا بہتر ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ یو اے پیز (نامعلوم غیر معمولی مظاہر) کی تحقیقات کرے گا۔

ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن کا کہنا ہے کہ امریکی خلائی ایجنسی نہ صرف ممکنہ یو اے پی واقعات پر تحقیق میں پیش قدمی کرے گی بلکہ زیادہ شفافیت کے ساتھ اعداد و شمار کا تبادلہ بھی کرے گی۔

رپورٹ کے آخری صفحے میں کہا گیا ہے کہ اس نتیجے پر پہنچنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ناسا کی جانب سے سینکڑوں یو اے پی دیکھنے کے پیچھے غیر زمینی ذرائع کا ہاتھ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’تاہم ۔۔۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے ان اشیا نے ہمارے نظام شمسی سے سفر کیا ہوگا۔‘

اگرچہ رپورٹ یہ نتیجہ اخد نہیں کیا گیا ہے کہ غیر زمینی زندگی موجود ہے، لیکن ناسا نے ’زمین کی فضا میں موجود ممکنہ نامعلوم اجنبی ٹیکنالوجی‘ کے امکان سے انکار نہیں کیا۔

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

محدود یو اے پی ڈیٹا

ناسا کے سائنس مشن ڈائریکٹوریٹ کی ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر نکولا فوکس کا کہنا ہے کہ ’یو اے پی ہمارے سیارے کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک ہے‘ اور اس کی بنیادی وجہ اعلیٰ معیار کے اعداد و شمار کی کمی ہے۔

فوکس کا کہنا ہے کہ متعدد بار یو اے پی دیکھنے کے باوجود عام طور پر کافی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جو ’یو اے پی کی نوعیت اور اصلیت کے بارے میں حتمی سائنسی نتائج اخذ کرنے کے لیے استعمال کیے جاسکیں۔‘

فوکس نے بتایا کہ ناسا نے ’مستقبل کے اعداد و شمار کی تشخیص کے لیے ایک مضبوط ڈیٹا بیس قائم کرنے‘ کے لیے یو اے پی ریسرچ کا ایک نیا ڈائریکٹر مقرر کیا ہے۔

ڈائریکٹر ڈیٹا جمع کرنے اور تجزیہ کے عمل میں اے آئی اور مشین لرننگ کا استعمال کرے گا۔

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہUS DEPARTMENT OF DEFENSE

میکسیکو سے وائرل ’ایلین‘ کی تصاویر پر ناسا کی مؤقف

بی بی سی کے نامہ نگار سیم کیبرال نے ناسا کے پینل سے مبینہ طور پر غیر زمینی مخلوق کی تصاویر کے بارے میں پوچھا جو اس ہفتے کے اوائل میں میکسیکو کے حکام کو پیش کی گئی تھیں۔

خود کو یو ایف او کے ماہر کہلانے والے جیمی موسان نے کانگریس کی سماعت کے دوران دو قدیم ’غیر انسانی‘ اجنبی لاشیں پیش کیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ لاشیں 2017 میں پیرو کے شہر کوسکو سے ملی تھیں اور ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ یہ چیزیں 1800 سال پرانی ہیں۔

ان نمونوں کی صداقت پر سائنسی حلقوں میں شدید شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور موسان خود اس سے قبل بھی ماورائے زمین زندگی کے دعوے کر چکے ہیں جن کی تردید کی گئی تھی۔

ناسا کے سائنسدان ڈاکٹر ڈیوڈ سپرگل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نمونے عالمی سائنسی برادری کو فراہم کریں اور ہم دیکھیں گے کہ وہاں کیا ہے۔‘

ایلین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جیمی موسان نے کانگریس کی سماعت کے دوران دو قدیم ’غیر انسانی‘ اجنبی لاشیں پیش کیں

خطرات کے باعث نئے یو ایف او بوس کی شناخت ایک معمہ

ناسا میں یو اے پی ریسرچ کا ایک نیا ڈائریکٹر آئے گا لیکن ان کی شناخت ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔

جمعرات کو ہونے والی بریفنگ کے دوران انکے ممکنہ کردار کی تفصیلات اور اجرت کے اس بارے میں گفتگو کو دلچسپ طور پر مبہم چھوڑ دیا گیا کیونکہ ناسا نے اپنی یو اے پی تحقیق میں زیادہ شفاف ہونے کا وعدہ کیا ہے۔

اس کی ایک وجہ نئے ڈائریکٹر کو کسی بھی ممکنہ عوامی ہراسانی سے بچانا بھی ہوسکتا ہے۔

ناسا کے اسسٹنٹ ڈپٹی ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر برائے ریسرچ ڈاکٹر ڈینیئل ایونز کا کہنا ہے کہ یو اے پی ریسرچ پینل کے ارکان کو ’دھمکیاں‘ ملی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ناسا اپنی ٹیم کی سلامتی اور حفاظت کو ’انتہائی سنجیدگی‘ سے لیتا ہے اور یو اے پی کے ریسرچ ڈائریکٹر کا نام شائع نہ کرنے کے فیصلے کی ایک وجہ خطرات ہیں۔

ناسا مصنوعی ذہانت کے آلات کے استعمال تجویز کرتا ہے

رپورٹ کے مطابق مصوعی ذہانت اور مشین سے سیکھنا یو ای پیز کی شناخت کے لیے ایک لازمی آلہ ہے۔

لوگ ’یو ای پیز کو سمجھنے کے ضروری پہلو‘ کے بارے میں سوچتے ہیں۔

ناسا جس نے کہا ہے کہ یو اے پیز کو بہتر طور پر سمجھنے میں سب سے بڑا چیلنج اعداد و شمار کی کمی ہے اور یہ کمی پورا کرنے کے لیے عوام سے معلومات حاصل کرنے کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔

اس میں ’اوپن سورس سمارٹ فون پر مبنی ایپس‘ اور ’دنیا بھر میں متعدد شہریوں کے دیگر سمارٹ فون میٹا ڈیٹا شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سویلین یو اے پی رپورٹوں کو جمع کرنے اور منظّم کرنے کے لیے فی الحال کوئی معیاری نظام موجود نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ’بہت کم اور نامکمل اعداد و شمار پیدا ہوتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ