ختنوں کے بعد سرجری کروانے والی خاتون: ’جب پہلی مرتبہ کلیٹورس کو دیکھا تو لگا یہ میرے جسم کا حصہ نہیں‘
- مصنف, بشریٰ محمد
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
انتباہ: اس کہانی میں خواتین کے ختنے کرنے کے مختلف طریقوں کے حوالے سے تفصیلات شامل ہیں۔شمسہ شراوے دنیا بھر میں صومالی برادری میں خواتین کے ختنے یا فیمیل جینیٹیل میوٹیلیشن (ایف جی ایم) کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے بدنام ہو گئی ہیں۔ایک ویڈیو میں یہ واضح کرنے کے لیے کہ جب وہ چھ سال کی تھیں تو ان کی اندام نہانی کے بیرونی حصے (ولوا) کے ساتھ کیا ہوا تھا انھوں نے ایک ریزر بلیڈ کے ذریعے گلاب کی پتیوں کو کاٹ دیا اور پھر پھول میں جو کچھ بچا تھا اس کی سلائی کر دی۔یہ ٹک ٹاک پوسٹ 16 ماہ قبل شیئر کیے جانے کے بعد سے اب تک ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھی جا چکی ہے۔
صومالی شہری یہاں تک کہ تارکین وطن بھی خواتین کے ختنوں کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتے کہ جب کسی کے اندام نہانی کے بیرونی حصے (ولوا) کو کاٹ دیا جاتا ہے اور وجائنہ کو ایک چھوٹے سے سوراخ تک محدود کر دیا جاتا ہے تو وہ اس کے باعث پیدا ہونے والے مسائل جیسے تکلیف دہ حیض، پیشاب کرنے میں دشواری، جنسی تعلق قائم کرنے کی اذیت اور بچے کو جنم دینے سے منسلک خطرات اور ٹراما کس نوعیت کا ہوتا ہے۔ایف جی ایم کی اس شکل کو انفائبولیشن یا ’ٹائپ تھری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ صومالیہ میں زیادہ تر لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ یہ عام خیال ہے کہ ان کے ختنے کرنے سے ان کے کنوارپن کی ضمانت ملے گی۔وہ خواتین جو ایف جی ایم سے نہیں گزرتیں انھیں صومالی معاشرے میں بہت سے لوگ برے کردار یا اعلیٰ جنسی رجحان رکھنے والی عورت کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے خاندان کی ساکھ تباہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔اس کے باوجود 31 سالہ ٹک ٹاکر جو 2001 میں صومالیہ کی خانہ جنگی سے فرار ہونے کے بعد برطانیہ میں رہنے آئی تھیں، مزاحیہ، دلچسپ اور کبھی کبھی دل دکھانے والی ایمانداری کے ساتھ اس طرح کی پابندیوں کا مقابلہ کرنے سے نہیں ڈرتیں۔ٹک ٹاک پر شمسہ اراویلو کا نام استعمال کرتے ہوئے انھوں نے ایک خوفناک کہانی شیئر کی ہے کہ کس طرح صومالیہ کے سفر کے دوران 18 سال کی عمر میں ان کی زبردستی شادی کر دی گئی اور ان کے ساتھ ریپ کیا گیا۔ انھیں برطانیہ واپس فرار ہونے کا راستہ تلاش کرنے میں چھ ماہ لگے۔لیکن ممنوعمہ موضوعات میں شاید سب سے بڑا یہ تھا کہ انھیں اپنے جنسی اعضا واپس چاہییں۔ یہاں تک کہ انھوں نے دوبارہ تعمیری سرجری کروانے کے لیے رقم ادا کی ہے کیونکہ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے ذریعے خواتین کو یہ سہولت دستیاب نہیں ہے۔،تصویر کا ذریعہShamsa Sharaweانھیں ایسا ممکن ہونے سے متعلق اس وقت پتہ چلا جب ان سے ایک جرمن شہری ہاجا بلقیسو نے رابطہ کیا جو بچپن میں اپنے آبائی ملک سیرا لیون کے دورے پر ایف جی ایم سے گزرچکی تھیں۔بلقیسو نے بتایا کہ انھوں نے آچن میں جرمنی کے لوئیسن ہسپتال میں ڈاکٹر ڈین مون او ڈے کی مدد سے اپنی کلیٹورس کی تعمیر نو کروائی ہے۔شمسہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں دوبارہ کاٹے جانے کے خیال سے خوفزدہ تھی حالانکہ اس بار یہ میری رضامندی سے ہو رہا تھا لیکن مجھے اپنی ذہنی صحت کے لیے ایسا کرنا پڑا۔ میں چاہتی تھی کہ دوبارہ کبھی درد محسوس نہ کروں۔‘اس سرجری میں کلیٹورس اور لیبیا کی تعمیر نو شامل ہے، جس میں شمسہ شراوے کے معاملے میں ان کے کولہوں سے لیے گئے ٹشوز یعنی بافتوں کا استعمال کیا گیا تھا اور درد کو کم کرنے اور خواتین کی جنسی زندگی کو بحال کرنے کے لیے سسٹ (رسولیاں) اور زخموں کے نشان والے ٹشوز کو ہٹانا شامل ہے۔ کچھ صورتوں میں، وجائنہ کے دہانے کو بھی بڑھا کر واپس معمول پر لانا شامل ہے۔اس کے باوجود انھیں صومالی کمیونٹی کے اندر اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کرنے کی ہمت حاصل کرنے میں کئی سالوں کی بدسلوکی اور دوسری ناکام شادی کے صدمے کا سامنا کرنا پڑا۔شمسہ شراوے جو اب 10 سالہ بیٹی کے ساتھ اکیلی ماں ہیں این ایچ ایس سے مایوس محسوس کرتی ہیں۔ یہ صرف ایف جی ایم سے بچ جانے والوں کے لیے ڈی انفائبولیشن فراہم کرتا ہے۔ یہ سرجری ہے جو وجائنا کو کھولتی ہے لیکن اس میں کسی بھی ہٹائے گئے ٹشو کی جگہ دوبارہ ٹشو لگانا اور کسی بھی نقصان کو پورا کرنا شامل نہیں۔شمسہ شراوے نے جرمنی میں سرجری کے لیے رقم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ آن لائن کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے وہ 25 ہزار پاؤنڈ جمع کرنے میں کامیاب رہیں اور دسمبر میں ان کا ساڑھے چار گھنٹے کا آپریشن ہوا، وہ تین ہفتوں تک جرمنی میں رہیں۔واپسی پر ایف جی ایم مخالف کارکن اور تدریسی معاون صحت یاب ہونے کے بعد مہینوں تک اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکیں۔ بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات اور سرجری کے علاوہ دیگر اخراجات کا مطلب ہے کہ وہ اب بھی قرض میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ہسپتال کو بھی تقریباً تین ہزار پاؤنڈ ادا کرنے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’ایک ایسے نقصان کی ادائیگی کرنا جو آپ نے اپنے لیے منتخب نہیں کیا یا آپ نے پیدا نہیں کیا واقعی غیر منصفانہ ہے۔‘
شدت کی مختلف سطحوں کے ساتھ ایف جی ایم کی چار مختلف اقسام ہیں:
- کلیٹوریڈیکٹومی: حساس کلیٹورس کو جزوی یا مکمل طور پر ہٹانا
- اخراج: کلیٹورس کو جزوی یا مکمل طور پر اور وجائنا کے آس پاس کی اندرونی جلد کی تہہ (لیبیا مائنورا) کو ہٹانا
- انفبولیشن: بیرونی جلد کی تہہ کو کاٹنا اور دوبارہ لگانا جو وجائنا (لابیا مائنورا اور لابیا ماجورا) کے ارد گرد ہوتا ہے۔ اکثر ٹانکے لگانے کے بعد صرف ایک چھوٹا سا خلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
- اس میں تمام نقصان دہ طریقہ کار شامل ہوتے ہیں جیسے کلیٹورس کو کاٹنا، چھیدنا، چیرا لگانا، کھرچنا اور کاٹنا۔
گذشتہ چند دہائیوں میں اس نقصان سے بحالی کی کوشش کے لیے طبی تکنیک تیار کی گئی ہے جس کی شروعات 2004 میں فرانسیسی سرجن ڈاکٹر پیئر فولڈز نے کی تھی۔بیلجیئم، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، سویڈن اور سوئٹزرلینڈ میں پبلک ہیلتھ انشورنس کے ذریعے کلیٹورل تعمیر نو کی جاتی ہے۔ تاہم افریقہ میں جہاں ایف جی ایم سے گزرنے والی لڑکیوں اور خواتین کی اکثریت رہتی ہے سرجری تک رسائی کینیا تک محدود ہے، جہاں مریضوں کو تقریبا ایک ہزار پاؤنڈ ادا کرنے پڑتے ہیں، اور مصر، جہاں غیر سرکاری تنظیمیں اخراجات برداشت کر سکتی ہیں۔کینیا کے ایک ماہر ڈاکٹر عدن عبدالہٰی کہتے ہیں کہ ’ہر سرجن یہ سرجری نہیں کر سکتا۔ یہ پیچیدہ ہے اور ہر مریض کے لیے مختلف ہے۔‘لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہر قسم کے ایف جی ایم والی خواتین کو فائدہ ہو سکتا ہے: ’اس کا بچے کی پیدائش پر مثبت اثر پڑتا ہے، خاص طور پر ’ٹائپ تھری‘ کے لیے جس کا تعلق وجائنا کے تنگ ہونے سے ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ جنسی تعلقات کے دوران درد جیسے دیگر مسائل کو نمایاں طور پر بہتر یا ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے مریضوں کو اکثر خود اعتمادی میں بہتری اور مکمل ہونے کا احساس ہوتا ہے۔بلقیسو کہتی ہیں کہ وہ اپنی سرجری کے بعد سے زیادہ مکمل محسوس کرتی ہیں جو جرمنی کے صحت کے نظام کے تحت کی گئی۔وہ کہتی ہیں ’سرجری کرنا واقعی جرات مندانہ کام تھا لیکن یہ لڑنے کا ایک طریقہ تھا۔‘وہ 30 سال کی ہیں اور ایک ریکروٹمنٹ ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہیں وہ دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی تحقیق مکمل طور پر کریں۔’تعمیر نو صرف کلیٹورس کے لیے نہیں ہے۔ بہت سی عورتیں جنھیں کٹ لگائے جاتے ہیں ان کے زخم پھول جاتے ہیں۔ آپ کو اپنے ڈاکٹر کے ساتھ اس پر بات کرنی چاہیے کہ آپ ولوا کو زیادہ لچکدار بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘بلقیسو، جو ایک دن ’نارمل جنسی تجربہ‘ حاصل کرنے اور اپنے جسم پر اختیار حاصل کرنے کے لیے پرعزم تھیں۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران ان کے تین آپریشن ہو چکے ہیں جن میں سے ہر ایک میں تقریباً چھ گھنٹے لگتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’یہ آپ کے جسم کے لیے مشکل ہے۔ آپ کو بے ہوش کیا جاتا ہے۔ آپ کو بعد میں دوائیں لینی پڑتی ہیں۔ میں تین ہفتوں تک چل نہیں سکتی تھی۔‘ان آپریشن کا انسانی صحت پر اثر کا مطلب یہ ہے کہ مصر میں ڈاکٹر ریحام عود جیسے ڈاکٹر اس معاملے میں غیر سرجیکل طریقے اپنا رہے ہیں۔ری سٹور کلینک کی شریک بانی کا کہنا ہے کہ ری کنسٹرکشن سرجری آپ کو آرام تو دے سکتی ہے لیکن ولوا کو کاٹنے کا عمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ بہترین سرجیکل تکنیک بھی سیکشوئل فنکشن کو مکمل طور پر بحال نہیں کر سکتی۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرا نہیں خیال کہ سرجری ہر کسی کے لیے ہے۔‘ ان کا کلینک سنہ 2020 میں کھلا تھا اور یہاں آدھے کیسز کو اب غیر سرجیکل طریقے سے حل کیا جا رہا ہے جیسے پلیٹلیٹ رچ پلازمہ کے انجکشن جسے سے ٹشوز کو دوبارہ سے بحال کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ’پلازمہ کے انجیکشن کے ذریعے خون کے بہاؤ میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور جس جگہ پر اسے انجیکٹ کیا جاتا ہے وہاں سوجن میں کمی لائی جا سکتی ہے۔‘تاہم وہ اس مہنگے پروسیجر کے حوالے سے خبردار بھی کرتی ہیں، اور کہتی ہیں کہ یہ اکثر لوگوں کی استطاعت سے باہر ہیں۔ان کا کلینک اس بارے میں تھیراپی بھی فراہم کرتا ہے تاکہ وہ خواتین جنھیں یاد ہے جب ان کے ساتھ یہ ہوا تھا، تو وہ اس ٹرامہ سے نجات حاصل کر سکیں۔جو خواتین ری کنسٹرکٹو سرجری کرواتی ہیں ان پر اس کے جذباتی اثرات ہوتی ہیں۔ بلکیسو جو اس وقت صرف آٹھ سال کی تھیں جب انھیں ایف جی ایم (ٹائپ ٹو) سے گزرنا پڑا تھا کہتی ہیں کہ ’جب پہلی مرتبہ میں نے اپنی کلیٹورس کو دیکھا تھا تو مجھے دھچکا لگا کیونکہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ میرے جسم کا حصہ نہیں ہے۔‘شراوے اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ اس حوالے سے سیکھنے کے بارے میں وقت لگتا ہے اور پھر ان چیزوں کے بارے میں بھی کہ ماہواری کے دوران خون بہنے کے بعد کیا کیا جائے۔ انھیں مزید چھ مہینے مکمل صحتیابی کے لیے لگے اور ان کے پاس واپس جرمنی جا کر چیک اپ کروانے کے پیسے نہیں ہیں جس کے باعث وہ پریشان ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن اب مجھے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ میں ایک مکمل عورت ہوں، اور میں بہت خوش ہوں۔ میں کسی بھی تکلیف کے بغیر زیرِ جامہ پہن سکتی ہوں۔ میں پاجامہ بھی پہن سکتی ہوں۔ میں ایک عام عورت جیسا محسوس کرتی ہے۔‘انھیں کچھ صومالیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم ان کی فیملی میں انھیں ملنے والی سپورٹ انھیں خوشگوار حیرت ہوئی ہے۔ ان کے ایک انکل یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ کیا برطانیہ میں ان کی بیوی کے لیے ایسی سرجری دستیاب ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ ’انھیں برا لگ رہا تھا کہ 50 سال بعد بھی ان کی بیوی کو ایف جی ایم متاثر کر رہا ہے۔ وہ ان کی زندگی کو بہتر بنانا چاہتے تھے۔۔۔ کیونکہ ہم سب ایک بہترین زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.