تبتی بدھ مت میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عظیم استاد یہ انتخاب کرسکتے ہیں کہ وہ کہاں اور کس کے ذریعے دوبارہ جنم لیں گے تاکہ وہ دنیا کو بدھ مت کی تعلیم دینے کا اپنا کام جاری رکھ سکیں۔لاما یشی کی موت کے بعد ان کے اہم شاگرد لاما زوپا نے یہ خواب دیکھا کہ ان کے استاد ایک مغربی باشندے کے طور پر دوبارہ پیدا ہونے کے لیے زمین پر واپس جا رہے ہیں۔جب سپین میں ان کی ملاقات اوسیل سے ہوئی جو اس وقت صرف 18 ماہ کے تھے تو زوپا کو یقین ہو گیا کہ انھوں نے اس باشندے کو ڈھونڈ لیا ہے۔اوسل کی کہانی کچھ یوں ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
بڑھتی عمر اور بغاوت
بڑے ہوتے ہوئے میں جس دباؤ کا سامنا میں نے کیا وہ ناقابلِ بیان تھا۔ ایک بچے کے طور پر یہ میرے لیے واقعی مشکل تھا۔ کبھی کبھی مجھے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دی جاتی تھی لیکن چونکہ میں لاما یشی کا دوبارہ جنم تھا اس لیے میرے ساتھ مختلف سلوک کیا گیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسرے بچے مجھے چھوئیں یا میرے ساتھ قریبی رابطے میں رہیں تاکہ مجھ پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔موسیقی سننے، گیمز کھیلنے یا ٹی وی دیکھنے کے معاملے بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ ان سب کو توجہ بٹانے والے معاملات قرار دیا جاتا تھا۔ خانقاہ کی زندگی میں صرف مطالعہ اور مراقبہ تھا۔چونکہ میں لاما یشی کا دوسرا جنم تھا اس لیے بہت سے لوگ خانقاہ میں آ کر مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ اس لیے روزانہ تقریبا 40 منٹ کے لیے میں ایسے لوگوں سے ملتا تھا۔ اس وقت بیرونی دنیا سے میرا صرف یہی رابطہ تھا۔کبھی کبھار جن لوگوں سے میری ملاقات ہوتی تھی وہ میرے لیے ’ممنوعہ‘ اشیا لے کر آتے تھے۔ وہ چیزیں جن کی ہمیں خانقاہ میں استعمال کی اجازت نہیں تھی جیسے مغربی موسیقی کی کیسٹس اور سی ڈیز۔مجھے ٹریسی چیپمین کی ایک کیسٹ، لنکن پارک کی سی ڈی، لمپ بزکٹ کی سی ڈی اور ایسٹوپا نامی مشہور ہسپانوی گروپ کا ایک ریکارڈ بھی دیا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
آزادی کا مزہ
تبدیلی کا موڑ
اپنے خاندان کے ساتھ سپین میں وہ وقت گزارنے سے مجھے احساس ہوا کہ خانقاہ میں دی گئی تعلیم نے مجھے کافی نرگسیت پسند اور خودپرست بنا دیا ہے۔میرے بہن بھائی میرے ساتھ وقت گزارنا نہیں چاہتے تھے اور ان سب کا آپس میں مضبوط جذباتی رشتہ تھا اور میں اس کا حصہ نہیں تھا۔ اس چیز نے مجھ پر بہت اثر ڈالا۔میں نے محسوس کیا کہ مجھے اپنی حقیقی ذات کو تلاش کرنے اور دوسروں سے تعلق قائم کرنے کا طریقہ سیکھنے کی ضرورت ہے۔لہٰذا جب میں ابیزا سے واپس آیا تب میں نے فیصلہ کیا کہ میں ہمیشہ خانقاہ میں نہیں رہوں گا۔ میں نے خود سے کہا ’ایک بار جب میں 18 سال کا ہو جاؤں گا، تو مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں آزاد ہو جاؤں گا۔‘میں نے اپنی 18 ویں سالگرہ پر سپین جانے کے لیے بات کی اور انھوں نے اسے قبول کرلیا۔ایک بار جب میں 18 سال کا ہوا اور قانونی طور پر بالغ ہو گیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں واپس نہیں آؤں گا۔ وہ مایوس تھے۔ اس کے بعد ایک سال تک مجھے بہت سی ڈاک موصول ہوئیں جن میں مجھ پر واپس جانے کا دباؤ ڈالا گیا۔ اس سے نمٹنا کافی مشکل تھا، کیونکہ میں چاہتا تھا کہ لوگ خوش رہیں لیکن اس سارے عمل کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ دوسروں کی خوشی میری ذمہ داری نہیں ہے۔تو میں نے خود سے کہا: ’میری زندگی میری اپنی ہے۔ مجھے اپنی زندگی خود گزارنی ہے اور یہ میرا حق ہے۔‘
بنیادی تبدیلی
خانقاہ سے نکلنے کے بعد مجھے ایک بڑا دھچکا لگا تھا۔ میں دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ میں نے پہلے کبھی کسی برہنہ عورت کو نہیں دیکھا تھا۔ لہذا ابیزا میں میرے ابتدائی دنوں میں سے ایک پر میری ماں نے سوچا کہ مجھے برہنہ لوگوں کے لیے مخصوص ساحل پر لے جانا دلچسپ ہوگا۔انھوں نے مجھے آدھے گھنٹے کے لیے وہاں چھوڑ دیا۔ میں مکمل طور پر صدمے میں تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ میں برہنہ نہیں ہو سکتا تھا۔ میں ایک ایسی ثقافت سے آیا تھا جو اس لحاظ سے بہت قدامت پسند تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ کہاں دیکھوں، لہٰذا میں نے صرف زمین کی طرف دیکھا۔ جب وہ مجھے دوبارہ لینے آئیں تو میں بہت پریشان تھا۔ پھر اسی رات وہ مجھے ابیزا کے ایک کلب میں لے گئیں۔ انھوں نے انٹری فیس دی اور مجھے اکیلے اندر جانے دیا۔ اندر بہت شور تھا اور میں حرکت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ کلب لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ 2003 کی بات ہے اور لوگ اندر سگریٹ نوشی کر رہے تھے۔ میں سانس نہیں لے پا رہا تھا۔ پراعتماد نظر آنے کی کوشش میں شراب کا ایک گھونٹ پیا اور میں تقریبا مرنے والا ہو گیا۔ یہ جہنم کی طرح تھا۔آخرکار جب میں گھر پہنچا، تو میں نے اُن سے کہا کہ وہ مجھے دوبارہ کبھی بھی نیوڈسٹ ساحل یا کلب میں نہ لے جائیں۔،تصویر کا ذریعہWikimedia Commons
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.