خانقاہ سے نائٹ کلب تک: ہسپانوی بچے کی کہانی جسے ایک بودھ لاما کا دوسرا جنم قرار دیا گیا،تصویر کا ذریعہLama Yeshe Wisdom Archive
،تصویر کا کیپشنبدھ راہب لاما زوپا کی اوسیل سے ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ 14 ماہ کے تھے اور چار ماہ بعد انھیں انڈیا کی ایک خانقاہ میں منتقل کر دیا گیا
49 منٹ قبلاوسیل ہیٹا ٹوریس کمسن تھے جب دلائی لاما نے ان کی پہچان ایک تبتی روحانی پیشوا کے دوسرے جنم کی صورت میں کروائی تھی۔دو ہسپانوی ہپیوں کی اولاد اوسیل 1985 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والدین نے ابیزا میں تبتی بودھ استاد لاما یشی سے ملاقات کے بعد بدھ مت قبول کیا تھا۔لاما یشی دوسرے راہبوں سے مختلف تھے۔ وہ اپنے مزاحیہ اور غیر روایتی انداز کے ساتھ 1970 کی دہائی کے دوران مغرب میں بدھ مت کو پھیلانے والے اولین لوگوں میں سے ایک تھے۔اوسیل کبھی بھی لاما یشی سے نہیں ملے۔ درحقیقت وہ اوسیل کی پیدائش سے ایک سال پہلے فوت ہو گئے تھے لیکن ان کی زندگی کا اوسل کی شخصیت پر غیرمعمولی اثر پڑا۔

تبتی بدھ مت میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عظیم استاد یہ انتخاب کرسکتے ہیں کہ وہ کہاں اور کس کے ذریعے دوبارہ جنم لیں گے تاکہ وہ دنیا کو بدھ مت کی تعلیم دینے کا اپنا کام جاری رکھ سکیں۔لاما یشی کی موت کے بعد ان کے اہم شاگرد لاما زوپا نے یہ خواب دیکھا کہ ان کے استاد ایک مغربی باشندے کے طور پر دوبارہ پیدا ہونے کے لیے زمین پر واپس جا رہے ہیں۔جب سپین میں ان کی ملاقات اوسیل سے ہوئی جو اس وقت صرف 18 ماہ کے تھے تو زوپا کو یقین ہو گیا کہ انھوں نے اس باشندے کو ڈھونڈ لیا ہے۔اوسل کی کہانی کچھ یوں ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناوسل ہیتا ٹورس بدھ مت کے لباس میں ملبوس ایک بچے کے طور پر
1970 کی دہائی میں لاما یشی اور ان کے شاگرد لاما زوپا ابیزا کے سفر پر گئے جہاں میرے والدین کی ان سے ملاقات ہوئی۔اس دورے کے دوران میرے والدین لاما یشی سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے سپین کے جنوب میں منتقل ہونے اور الپوہارا کے پہاڑوں میں بدھ مت کا مرکز شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے دلائی لامہ کو بھی وہاں آنے کی دعوت دی اور جب وہ وہاں آئے تو وہ اس جگہ سے بہت متاثر ہوئے کیونکہ وہ بہت زیادہ تبت جیسی تھی۔لہٰذا انھوں نے اس جگہ کو اوسیل لنگ کا نام دیا جس کا مطلب تبتی زبان میں ’صاف روشنی کی جگہ‘ ہے۔اس طرح مجھے اپنا نام ملا کیونکہ کچھ سال بعد جب میں پیدا ہوا تو میرے والدین نے مجھے اوسیل کا نام دیا۔ میں اپنے والدین کے استاد لاما یشی کی موت کے صرف 11 ماہ بعد پیدا ہوا تھا۔وہ میری پیدائش سے پہلے ہی وہ اس چیز کے متلاشی تھے کہ لاما یشی نے دوسرے جنم کس شکل میں لیا اور جب یشی کے اہم شاگرد لاما زوپا نے مجھے 14 ماہ کی عمر میں دیکھا تو انھوں نے میری نشاندہی کی اور سوچا کہ میں ہی وہ فرد ہوں۔،تصویر کا ذریعہLama Yeshe Wisdom Archive
،تصویر کا کیپشندلائی لامہ نے اوسیل کو لامہ یشی کے دوبارہ جنم کے طور پر تسلیم کیا
چند ماہ بعد مجھے آزمائش کے لیے انڈیا لے جایا گیا۔ انھوں نے جو اہم ٹیسٹ کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ بہت ساری چیزیں میرے سامنے رکھی گئیں، جیسے گھنٹیاں، گلاب اور ڈھول۔انھوں نے مجھ سے ان میں سے وہ چیزیں منتخب کرنے کو کہا جو لاما یشی کی تھیں اور میں نے ہر بار ان کی درست شناخت کی حالانکہ میں نے انھیں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے ان لوگوں کو بھی پہچان لیا جنھیں میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور ان مقامات کو بھی جہاں میں کبھی نہیں گیا تھا۔ آخرکار مجھے دلائی لامہ سے ملوانے لایا گیا جنھوں نے باضابطہ طور پر مجھے لامہ یشی کے دوبارہ جنم کے طور پر تسلیم کیا۔ جب اس کا اعلان کیا گیا تو ایک بڑی تقریب ہوئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔اس وقت میں صرف دو سال کا تھا۔ مجھے تخت پر بیٹھ کر سینکڑوں راہبوں اور خیر خواہوں کو دعائیں دینی تھیں۔ اس کے بعد مجھے تین سال کے لیے دورے پر لے جایا گیا، جہاں میں نے بودھ مذہب کے ان تمام مراکز کا دورہ کیا جن کی بنیاد لاما یشی نے دنیا بھر میں رکھی تھی۔پھر جب میں چھ سال کا ہوا تو مجھے انڈیا کے جنوب میں واقع کرناٹک کی سیرا جے خانقاہ لے جایا گیا جہاں مجھے لاما یشی کی طرح راہب بننے کے لیے پڑھائی شروع کرنی پڑی۔اس سارے عرصے کے دوران میں اپنے خاندان سے دور تھا۔ میری دیکھ بھال راہب کر رہے تھے لیکن میری دیکھ بھال کرنے والے لوگ مسلسل تبدیل ہو رہے تھے۔اس عرصے کے دوران میں نے اپنے والدین کو بہت کم دیکھا۔ اس کے نتیجے میں، میں نے محسوس کیا کہ میرا ان کے ساتھ مضبوط جذباتی تعلق نہیں رہا۔

بڑھتی عمر اور بغاوت

بڑے ہوتے ہوئے میں جس دباؤ کا سامنا میں نے کیا وہ ناقابلِ بیان تھا۔ ایک بچے کے طور پر یہ میرے لیے واقعی مشکل تھا۔ کبھی کبھی مجھے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دی جاتی تھی لیکن چونکہ میں لاما یشی کا دوبارہ جنم تھا اس لیے میرے ساتھ مختلف سلوک کیا گیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسرے بچے مجھے چھوئیں یا میرے ساتھ قریبی رابطے میں رہیں تاکہ مجھ پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔موسیقی سننے، گیمز کھیلنے یا ٹی وی دیکھنے کے معاملے بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ ان سب کو توجہ بٹانے والے معاملات قرار دیا جاتا تھا۔ خانقاہ کی زندگی میں صرف مطالعہ اور مراقبہ تھا۔چونکہ میں لاما یشی کا دوسرا جنم تھا اس لیے بہت سے لوگ خانقاہ میں آ کر مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ اس لیے روزانہ تقریبا 40 منٹ کے لیے میں ایسے لوگوں سے ملتا تھا۔ اس وقت بیرونی دنیا سے میرا صرف یہی رابطہ تھا۔کبھی کبھار جن لوگوں سے میری ملاقات ہوتی تھی وہ میرے لیے ’ممنوعہ‘ اشیا لے کر آتے تھے۔ وہ چیزیں جن کی ہمیں خانقاہ میں استعمال کی اجازت نہیں تھی جیسے مغربی موسیقی کی کیسٹس اور سی ڈیز۔مجھے ٹریسی چیپمین کی ایک کیسٹ، لنکن پارک کی سی ڈی، لمپ بزکٹ کی سی ڈی اور ایسٹوپا نامی مشہور ہسپانوی گروپ کا ایک ریکارڈ بھی دیا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناوسل کی پرورش ایک مشہور لامہ کے دوبارہ جنم کے طور پر ہوئی تھی جنھوں نے مغربی ممالک میں بدھ مت کو پھیلایا تھا
مجھے یاد ہے کہ میں انھیں اپنے کمرے میں یا باتھ روم میں ایئر فونز کی مدد سے سنتا تھا لیکن مجھے انھیں چھپانا پڑتا تھا کیونکہ اگر انھیں سی ڈیز مل جاتیں تو وہ انھیں ضبط کر لیتے تھے۔مجھے اسے سمجھنے میں کچھ وقت لگا۔ پہلی بار جب میں نے لنکن پارک کو سنا، تو میں نے کہا ’یہ موسیقی نہیں ہے، یہ صرف شور ہے۔‘لیکن آہستہ آہستہ میں سمجھنے لگا کہ گانے میں کیا کہا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر وہ احساس کہ آپ کو سمجھا نہیں گیا۔ میں اسے سمجھ سکتا تھا کیونکہ مجھے بھی غلط سمجھا گیا تھا، میں اپنی پہچان چاہتا تھا، میں چاہتا تھا جو میں ہوں اس حیثیت سے مجھ سے پیار کیا جائے۔لیکن خانقاہ میں، میں نے محسوس کیا کہ لوگ واقعی یہ جاننا نہیں چاہتے تھے کہ میں کون ہوں میرے والدین سمیت ہر کوئی چاہتا تھا کہ میں اپنا کردار ادا کروں۔

آزادی کا مزہ

،تصویر کا کیپشننوجوانی میں اوسیل نے محسوس کیا کہ خانقاہ کی زندگی وہ نہیں ہے جو وہ چاہتے تھے
جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا اور زیادہ باغی ہوتا گیا۔ میں نے خانقاہ میں مزید ممنوعہ اشیا لانا شروع کر دیں۔جب میں 16 سال کا تھا تو میرے پاس دو کمپیوٹر، ایک باکسنگ بیگ اور ایک گٹار تھا اور ان چیزوں نے مجھے بیرونی دنیا کا حصہ بننے کا احساس دیا۔مجھے یاد ہے کہ میں اپنے ایک قریبی دوست کے ساتھ ممنوعہ اشیا کا تبادلہ کرتا تھا جو کسی اور لاما کا دوسرا جنم تھا۔ان کے پاس برٹنی سپیئرز کنسرٹ کی ویڈیو تھی اور وہ رقص کی مشق کر رہا تھا۔ اس وقت تک ہمیں علم نہیں تھا کہ رقص کیا ہوتا ہے لہٰذا جب ہمیں برٹنی کی ویڈیو ملی تو ہم گھبرا گئے۔وہ مجھے ایک ہفتے کے لیے ویڈیو ادھار دیتا اور پھر جب ہم دوبارہ ملتے تھے تو ہم موازنہ کرتے تھے کہ کس نے بہتر رقص کیا۔ اس سب میں ہمیں بہت مزہ آیا۔اسی عمر کے آس پاس میں نے ادارے کو قائل کیا کہ مجھے مغربی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے ان سے کہا ’میں ایک مغربی بانشدے کے طور پر پیدا ہوا ہوں، اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاما یشی مغربی لوگوں کے ساتھ گہری سطح پر جڑنا چاہتے ہیں اور مغربی نفسیات اور طرز زندگی کو سمجھنا چاہتے ہیں۔‘لہٰذا میں نے ان سے بات کی کہ میں سپین کے ایک سیکنڈری سکول میں عام بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دو ماہ کے لیے سپین جا سکتا ہوں اور اپنے خاندان کے ساتھ رہ سکتا ہوں۔ میں نے اپنا نام بدل کر نکولس رکھ لیا تاکہ کسی کو پتہ نہ چل سکے کہ میں کون ہوں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنلاما تبتی بدھ مت کے مذہبی اور روحانی رہنما ہیں
مجھے ایک بڑا ثقافتی دھچکا لگا۔ سکول میں سب سے پہلے جس چیز نے مجھے حیران کیا وہ یہ تھی کہ بچے بڑوں کا احترام نہیں کرتے تھے۔تبتی ثقافت میں، والدین اور اساتذہ مقدس ہیں۔ والدین ہمیں ہماری زندگی دیتے ہیں اور اساتذہ حکمت۔ یہاں تک کہ کاغذ کا ایک ٹکڑا جس پر کچھ لکھا ہوا ہے مقدس ہے کیونکہ یہ ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے۔سماجی طور پر بھی، یہ ایک بہت بڑا بدلاؤ تھا۔ سکول میں پہلے تین ہفتوں تک مجھے ہر روز تنگ کیا جاتا تھا لیکن میں نے برا نہیں منایا۔ درحقیقت میں خوش تھا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ میں دوسرے بچوں کو ہنسا رہا ہوں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ بلیئنگ کیا ہے۔ میں صرف انسانوں سے تعلق بنانے پر خوش تھا۔آخرکار دوسرے بچے مجھے پسند کرنے لگے کیونکہ انھیں احساس ہوا کہ میں اداکاری نہیں کر رہا ہوں اور یہ کہ میں ایسا ہی ہوں۔ میں اس لحاظ سے بہت پاکیزہ تھا، بہت معصوم تھا۔ان دو مہینوں کے دوران میں نے بہت سی چیزیں پہلی مرتبہ کیں۔میری پہلی دریافتوں میں سے ایک موٹر سائیکل تھی۔ میرے لیے یہ صرف مکمل آزادی تھی۔ میں اکیلے پورے جزیرے پر جہاں بھی جانا چاہتا تھا وہاں جا سکتا تھا۔میں نے پہلی بار ایک لڑکی کو بوسہ بھی دیا، جو شاندار تھا۔ وہ میری دوست تھی اور جب یہ ہوا ایسا لگا تو میں جنت میں تھا اور دو ہفتوں تک میں اس کے سحر میں رہا۔ میں بہت خوش تھا۔

تبدیلی کا موڑ

اپنے خاندان کے ساتھ سپین میں وہ وقت گزارنے سے مجھے احساس ہوا کہ خانقاہ میں دی گئی تعلیم نے مجھے کافی نرگسیت پسند اور خودپرست بنا دیا ہے۔میرے بہن بھائی میرے ساتھ وقت گزارنا نہیں چاہتے تھے اور ان سب کا آپس میں مضبوط جذباتی رشتہ تھا اور میں اس کا حصہ نہیں تھا۔ اس چیز نے مجھ پر بہت اثر ڈالا۔میں نے محسوس کیا کہ مجھے اپنی حقیقی ذات کو تلاش کرنے اور دوسروں سے تعلق قائم کرنے کا طریقہ سیکھنے کی ضرورت ہے۔لہٰذا جب میں ابیزا سے واپس آیا تب میں نے فیصلہ کیا کہ میں ہمیشہ خانقاہ میں نہیں رہوں گا۔ میں نے خود سے کہا ’ایک بار جب میں 18 سال کا ہو جاؤں گا، تو مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں آزاد ہو جاؤں گا۔‘میں نے اپنی 18 ویں سالگرہ پر سپین جانے کے لیے بات کی اور انھوں نے اسے قبول کرلیا۔ایک بار جب میں 18 سال کا ہوا اور قانونی طور پر بالغ ہو گیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں واپس نہیں آؤں گا۔ وہ مایوس تھے۔ اس کے بعد ایک سال تک مجھے بہت سی ڈاک موصول ہوئیں جن میں مجھ پر واپس جانے کا دباؤ ڈالا گیا۔ اس سے نمٹنا کافی مشکل تھا، کیونکہ میں چاہتا تھا کہ لوگ خوش رہیں لیکن اس سارے عمل کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ دوسروں کی خوشی میری ذمہ داری نہیں ہے۔تو میں نے خود سے کہا: ’میری زندگی میری اپنی ہے۔ مجھے اپنی زندگی خود گزارنی ہے اور یہ میرا حق ہے۔‘

بنیادی تبدیلی

خانقاہ سے نکلنے کے بعد مجھے ایک بڑا دھچکا لگا تھا۔ میں دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ میں نے پہلے کبھی کسی برہنہ عورت کو نہیں دیکھا تھا۔ لہذا ابیزا میں میرے ابتدائی دنوں میں سے ایک پر میری ماں نے سوچا کہ مجھے برہنہ لوگوں کے لیے مخصوص ساحل پر لے جانا دلچسپ ہوگا۔انھوں نے مجھے آدھے گھنٹے کے لیے وہاں چھوڑ دیا۔ میں مکمل طور پر صدمے میں تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ میں برہنہ نہیں ہو سکتا تھا۔ میں ایک ایسی ثقافت سے آیا تھا جو اس لحاظ سے بہت قدامت پسند تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ کہاں دیکھوں، لہٰذا میں نے صرف زمین کی طرف دیکھا۔ جب وہ مجھے دوبارہ لینے آئیں تو میں بہت پریشان تھا۔ پھر اسی رات وہ مجھے ابیزا کے ایک کلب میں لے گئیں۔ انھوں نے انٹری فیس دی اور مجھے اکیلے اندر جانے دیا۔ اندر بہت شور تھا اور میں حرکت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ کلب لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ 2003 کی بات ہے اور لوگ اندر سگریٹ نوشی کر رہے تھے۔ میں سانس نہیں لے پا رہا تھا۔ پراعتماد نظر آنے کی کوشش میں شراب کا ایک گھونٹ پیا اور میں تقریبا مرنے والا ہو گیا۔ یہ جہنم کی طرح تھا۔آخرکار جب میں گھر پہنچا، تو میں نے اُن سے کہا کہ وہ مجھے دوبارہ کبھی بھی نیوڈسٹ ساحل یا کلب میں نہ لے جائیں۔،تصویر کا ذریعہWikimedia Commons

،تصویر کا کیپشناوسیل اب بھی بدھ مت کے پیروکاروں سے رابطے میں ہیں
لیکن آہستہ آہستہ میں نے اس طرز زندگی کو اپنانا شروع کر دیا۔ کچھ عرصے بعد میں نے تقریبات میں جانا شروع کیا، اور آخر کار ریو آرگنائزرز کے ساتھ شامل ہو گیا اور ابیزا میں ٹرانس ریوز کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ میں تھوڑا شرارتی ہو گیا، ایک ’بیڈ بوائے۔‘اس دوران میں بدھ مت برادری سے رابطے میں تھا، لیکن میں نے ان سے دور رہنے کی کوشش کی کیونکہ میں اپنا راستہ تلاش کرنا چاہتا تھا۔ مجھے اپنی شخصیت تلاش کرنی تھی کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ میرے پاس کوئی شخصیت نہیں ہے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میں کون ہوں؟آخرکار میں کینیڈا میں فلم کی تعلیم حاصل کرنے گیا اور پھر میں نے میڈرڈ میں فلم سازی میں ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد اگلے 10 برسوں تک میں نے بہت ساری مہم جوئی کی۔ میں نے سفر کیا، بہت سے لوگوں سے ملا بہت سے عجیب کام کیے۔ یہاں تک کہ میں کچھ عرصے تک سڑکوں پر بھی رہا۔ میں بہت خوش قسمت تھا کیونکہ لوگ ہمیشہ مجھ پر بہت مہربان تھے۔ لیکن میں نے خود کو کچھ خطرناک حالات میں ڈال دیا۔ پھر مجھے محبت ہو گئی اور آخرکار میں 32 سال کی عمر میں خود باپ بن گیا۔ مجھے باپ بن کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔ میرے لیے یہ بہت اہم ہے کہ میں اپنے بیٹے کو کچھ مختلف دوں، جو میرے پاس تھا اس سے کچھ بہتر یعنی اس کے ساتھ ایک صحت مند رشتہ۔خوش قسمتی سے، میرا بیٹا ایک بہت خوش مزاج لڑکا ہے۔ کئی برس تک، مجھے یقین نہیں تھا کہ میں لاما یشی کا دوبارہ جنم ہوں۔ میں نے ان کی کتابیں پڑھنے یا ان کی تعلیمات کو دیکھنے سے گریز کیا کیونکہ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ میں کون ہوں۔لیکن جب میں نے آخرکار ان کی سوانح حیات پڑھی تو حیران رہ گیا کیونکہ میری ان کے ساتھ بہت زیادہ مماثلت تھی۔کئی برس کے شکوک و شبہات کے بعد، آج مجھے یقین ہے کہ ہمارے درمیان مسلسل دماغی ربط موجود ہے۔اب میں بھی تعلیم دیتا ہوں۔ میں دنیا بھر کے دھرما مراکز میں تقاریر کرتا ہوں، اور ایسی تقریبات کی میزبانی کرتا ہوں۔ لیکن اس بار یہ میری اپنی مرضی ہے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ میرے لیے صحیح ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}