پرنس فلپ: خاندان کو مقدم رکھنے والے ڈیوک
رائل فیملی کی سنہ 1968 کی ایک یادگار تصویر
ملکہ الزبتھ دوم کی تاجپوشی کے موقعے پر ڈیوک آف ایڈنبرا ان کی اطاعت کا حلف اٹھانے والے پہلے شخص تھے۔ اب ان کی اہلیہ ان کی ملکہ بن گئی تھیں اور عوامی زندگی میں ڈیوک ہر کام ان کے حکم کے مطابق کرنے کے پابند تھے۔ تاہم اگر شاہی خاندان بقول ڈیوک کے، ایک ‘فرم’ تھا تو ملکہ اس کی مینیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے چیئرمین کے مشورے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتی تھیں۔
ان کے بچوں کے ساتھ ان کی شفقت کے درجے مختلف تھے۔
انھیں ایک کٹر اور سخت گیر باپ کے روپ میں بھی دیکھا جاتا تھا۔ تاہم وہ اپنے خاندان سے پیار کرتے تھے۔ کاؤنٹ ماؤنٹ بیٹن آف برما نے ایک بار کہا تھا: ‘بچے انھیں پسند کرتے ہیں اور وہ بچوں کو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فلپ اپنے بچوں کے لیے بہت اچھے باپ تھے۔’
یہ بھی پڑھیے
تاہم ڈیوک کی زندگی کا تصور جذباتی نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ خود انحصاری ہی میں بقا ہے۔
یورپ کے تمام شاہی خاندانوں سے رشتے داریوں کے باوجود فلپ کا بچپن نسبتاً عسرت میں گزرا۔ وہ یونان کے جزیرہ کورفو میں پیدا ہوئے تھے اور انھیں کم سنی ہی میں ملک بدری کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں۔ بعد میں ان کی والدہ ذہنی خلل کا شکار ہو گئیں اور والدین میں علیحدگی ہو گئی۔ شہزادے نے لڑکپن کا بڑا حصہ مختلف بورڈنگ سکولوں میں گزارا۔
ڈیوک اور شہزادی الزبتھ 1947 میں ہنی مون کے موقعے پر
اصول پسندی
وہ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے اس لیے انھیں پورے خاندان کا پیار ملا۔ تاہم یہ خاندان مختلف ملکوں میں بکھرا ہوا تھا اور چھٹیاں گزارنے کے لیے فلپ کے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جسے وہ گھر کہہ سکیں۔ اس دوران وہ سکاٹ لینڈ کے سخت ڈسلپن والے سکول گورڈن سٹاؤن میں داخل ہو گئے جو تعلیم کے ساتھ جسمانی تربیت پر بھی اتنا ہی زور دیتا تھا۔
یہاں رہ کر نوعمر فلپ نے برداشت، ہمت اور عملیت پسندی جیسے سبق حاصل کیے۔ بعد میں انھی اصولوں کی بنا پر ان کے اپنے بڑے بیٹے سے تعلقات کشیدہ رہے۔
جب ڈیوک نے شہزادہ چارلس کو اسی سکول میں داخلہ دلوایا تا کہ وہ زندگی کی سختیاں برداشت کرنے کے قابل ہو سکیں تو حساس چارلس اسے برداشت نہیں کر سکے۔
ڈیوک کے اپنے بیٹے شہزادہ چارلز سے تعلقات اکثر کشیدہ ہی رہے
چارلس کی سوانح میں جوناتھن ڈمبلبی نے لکھا ہے کہ فلپ ایک ایسی بے لچک شخصیت تھے، جنھوں نے اپنے بیٹے پر شادی کے لیے دباؤ ڈالا اور انھیں اپنا جیسا عملیت پسند بنانے کی کوشش کی۔
بعد میں فلپ نے کہا کہ چارلس تصورپسند شخصیت کے مالک ہیں۔
تاہم ان کے دوسرے بچوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت عام تھی۔ ان کے بیٹے شہزادہ اینڈریو بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نیوی میں چلے گئے اور ان دونوں میں سخت کوشی کی زندگی قدرِ مشترک ٹھہری۔
جب ان کے سب سے چھوٹے بیٹے شہزادہ ایڈورڈ نے رائل میرینز کی نوکری چھوڑی تو اخباروں میں آیا کہ اس سے خاندان میں کھچاؤ آ گیا ہے، تاہم بعد میں پتا چلا کہ یہ بات مبالغہ آرائی پر مبنی تھی۔
نوکری چھوڑنے کے بعد شہزادہ ایڈورڈ نے اپنا زیادہ وقت اپنے والد کے ڈیوک آف ایڈنبرا ایوارڈ کو دینا شروع کر دیا، جس سے باپ بیٹا مزید قریب آ گئے۔ عام بچوں کی طرح ایڈورڈ بھی اپنے والد سے مرعوب تھے۔
ان کی صاحبزادی این بھی مزاج میں اپنے والد پر گئی تھیں اور انھی کی طرح صاف گو تھیں۔
ڈیوک نے ساری زندگی ملکہ کا ثابت قدم سہارا بن کر گزاری، مگر انھیں اس بات کا سخت قلق تھا کہ ان کے اپنے بچوں کی شادیاں ناکام رہیں۔
ڈیوک 1973 میں اپنی بیٹی کی شادی کے موقعے پر
حساسیت
تاہم وہ اپنی بہو شہزادی ڈیانا کے پشت پناہ بنے رہے۔ ان کا یہ روپ شہزادی کی موت کے بعد ان دونوں کی خط و کتابت شائع ہونے سے سامنے آیا، جس میں ڈیانا انھیں ‘ڈیئر پا’ کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں۔
یہ خطوط سنہ 1992 میں اس وقت لکھے گئے تھے جب شہزادہ چارلس اور ڈیانا کی شادی مشکلات سے گزر رہی تھی۔ ان خطوں سے ڈیوک کی گہری ہمدردی کا احساس ہوتا ہے۔ ان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انھوں نے یہ شادی بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
ایک خط میں انھوں نے لکھا: ‘میں چارلس اور تمھاری مدد کے لیے سرتوڑ کوشش کروں گا۔ لیکن اس بات کا بھی اعتراف کرتا چلوں کہ مجھ میں کسی میرج کونسلر جیسی صلاحتیوں کا فقدان ہے۔’
انھوں نے یہی حساسیت شہزادی ڈیانا کے جنازے میں بھی دکھائی جب ڈیانا کے دونوں بیٹے تابوت کے پیچھے چلنے میں ہچکچا رہے تھے۔
شہزادہ فلپ نے ولیم سے کہا: ‘اگر تم تابوت کے پیچھے نہ چلے تو میرا خیال ہے کہ بعد میں پچھتاؤ گے۔ اگر میں چلوں تو کیا تم میرا ساتھ دو گے؟’
وہ شخص جس نے والدین کے بغیر بچپن گزارا، اس نے ملکہ الزبتھ کے ساتھ شادی کے طویل برسوں میں مثالی استقامت دکھائی۔
ان کی خود انحصاری اور عملیت پسندی سے، جو انھوں نے اپنے بچپن میں سیکھی تھی، بعض اوقات یہ تاثر ملتا تھا کہ شاید وہ بےحس ہیں، تاہم جو لوگ ان کے قریب تھے ان کا کہنا ہے یہ بات بالکل غلط ہے۔
جائلز برینڈریتھ اپنی کتاب فلپ اینڈ الزبتھ میں لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے ڈیوک سے پوچھا کہ ان کے اپنے بچوں سے تعلقات کبھی کبھار کشیدگی کی حد تک کیوں پہنچ جاتے تھے تو ڈیوک نے جواب دیا: ‘ہم ایک خاندان ہیں۔ آپ اور کیا توقع رکھتے ہیں؟’
Comments are closed.