متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کےسربراہ خالد مقبول صدیقی نے پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت سے اتحاد کی تردید کردی۔
کراچی میں تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ سندھ حکومت نہ کوئی معاہدہ ہواہے نہ کوئی اتحاد ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن کے کردار کو مضبوط اور مثبت کرنا چاہتے ہیں، ہم شہری علاقوں کے مطالبات پر احتجاج کررہے ہیں۔
ایم کیو ایم سربراہ نے مزید کہا کہ ہم چاہتے تھے سندھ حکومت مطالبات سنے، تسلیم کرے اور عمل کرے، صوبائی حکومت ہمیں سننے کو تیار ہوئی ہے اور ہم نے مطالبات پیش کردیے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے پی پی کو اپنے مطالبات کی یادداشت پیش کردی ہے، مطالبات پر عملدرآمد کے لئے میکنزم تیار کرنے کیلئے پھر بیٹھیں گے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ 2 فیصد لوگ ملک کے مالک بنے بیٹھے ہیں، وہ کروڑوں کی قسمت کا فیصلہ کررہے ہیں، ملک میں دو فرقے ہیں حاکم اور محکوم، دو ہی مسالک ظالم اور مظلوم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ کا اور ہمارا اتحاد اس ظالم نظام کو نیست و نابود کردے گا، پاکستان کو ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے۔
ایم کیو ایم سربراہ نے یہ بھی کہا کہ کراچی کے بلدیاتی ایوان میں 75 فیصد سے زائد ایم کیو ایم تھی اور قائد ایوان پشتون تھا، ایک پشتون بھائی کو ہم نے سینیٹر بناکر ایم کیو ایم کا پارلیمانی لیڈر بنوایا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں کس بات کا ڈر ہے؟ غریبوں کے مسند اقتدار پر آنے کا ڈر ہے، اقتدار میں غریب کی اتنی ہی نمائندگی ہونی چاہیے جتنا ان کا تناسب ہے، ہمارے 100 لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ گزشتہ 15 سالوں سے ہمیں دیوار سے لگایا گیا ہے، ہم آپ کا مقدمہ اور مسائل لے کر حکمرانوں کو پاس بیٹھے ہیں، یہ وہی مطالبے ہیں جو ہم گزشتہ کئی برسوں سے دوہرا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ان لوگوں سے بھی مخاطب ہوں جو ہر اچھے برے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے، آپ وعدہ کریں کہ ظلم کے خلاف مل کر جدوجہد کریں گے۔
ایم کیو ایم سربراہ نے کہا کہ شہری سندھ میں قومیتوں کے مابین کوئی جھگڑا نہیں ہے، جب تک تمام قومیتوں کو برابر کا وفادار نہیں سمجھا جائے گا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
اُن کا کہنا تھا کہ آپ پاکستان زندہ باد کے نعرے کے ساتھ کھڑے ہیں ہم بھی اسی طرح کھڑے ہیں، ہم سمجھتے ہیں ایسے کسی قدم کے لیے پہلے بھروسہ قائم کرنا بہت ضروری ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایوانوں عدالتوں اور سڑکوں پر احتجاج بلند کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں، وزیر اعلیٰ ہاؤس پر گئے کہ ہمارے مطالبات سنے جائیں، اب جب کہ مطالبات جائز سمجھے گئے ہیں تو اس پر ایک نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہ ہی حکومت سے اتحاد میں گئے ہیں نہ ہی کوئی وزارت حاصل کرنا مقصود ہے، انہوں نے نہ حکومت کی پیشکش کی ہے نہ ہی ہمارا ارادہ ہے۔
ایم کیو سربراہ نے کہا کہ جمہوریت کے لئےجتنی ضرورت حکومت کی ہی اتنی ہی اپوزیشن کی ہے، ملک ایسے اقتصادی اور سیاسی حالات میں پہنچاہے جہاں جمہوریت کو خطرہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کو بردباری سے حکومت کے بجائے جمہوریت کو بچانا ہے، اگر وہ مطالبات سن کر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ہم ہر گھڑی تیار ہیں۔
Comments are closed.