سنہ 2001 میں القاعدہ کے حملوں میں نیویارک، ورجینیا اور پنسلوانیا میں تقریباً 3000 افراد مارے گئے تھے۔ ان حملوں نے امریکہ کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو جنم دیا تھا۔نائن الیون حملہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سرزمین پر ہونے والا سب سے مہلک حملہ تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران 1941 میں پرل ہاربر پر جاپان کے حملے میں 2400 افراد مارے گئے تھے۔دی نیویارک ٹائمز کے مطابق ملزمان کے ساتھ معاہدے کا پہلی دفعہ ذکر پراسیکیوٹرز کی جانب سے نائن الیون حملوں کے متاثرین کے خاندان کو بھیجے گئے خط میں کیا گیا تھا۔چیف پراسیکیوٹر ریئر ایڈمرل ایرون رَگ نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’سزائے موت کو ممکنہ سزا کے طور پر ہٹانے کے بدلے میں تینوں ملزمان نے چارج شیٹ میں درج 2,976 افراد کے قتل سمیت تمام الزامات کا اعتراف کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔‘
ان تینوں افراد پر امریکی شہریوں پر حملے، جنگی قوانین کی خلاف ورزی، ہائی جیکنگ اور دہشت گردی سمیت متعدد الزامات عائد ہیں۔دی ٹائمز کی خبر کے مطابق توقع کی جارہی ہے کہ تینوں ملزمان باضابطہ طور پر اپنا اعترافِ جرم اگلے ہفتے کے اوائل میں عدالت میں جمع کروا دیں گے۔خالد شیخ محمد کو نائن الیون حملون کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔ ان حملوں میں ہائی جیکرز نے مسافر بردار طیاروں کو ہائی جیک کر کے ان میں سے دو طیاروں کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر جبکہ تیسرے جہاز کو پینٹاگون سے ٹکرا دیا تھا۔ہائی جیک کیا جانے والا چوتھا طیارہ مسافروں کی جانب سے مزاحمت کے بعد پینسلوینیا کے ایک کھیت میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔امریکہ سے تعلیم یافتہ خالد شیخ محمد کو مصطفی الحوساوی کے ہمراہ مارچ 2003 میں پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔استغاثہ کا کہنا ہے کہ خالد شیخ محمد نے ہی طیاروں کو ہائی جیک کر کے انھیں امریکی عمارتوں سے ٹکرانے کا منصوبہ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو پیش کیا تھا۔ ان پر ہائی جیکروں کی بھرتی اور ان کی تربیت میں مدد دینے کا بھی الزام ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesدوران تفتیش خالد شیخ محمد پر ’واٹر بورڈنگ‘ سمیت مختلف طریقوں سے تشدد کیا گیا۔ بعد ازاں امریکی حکومت نے ’واٹر بورڈنگ‘ پر پابندی عائد کردی تھی۔ایڈمرل رَگ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ملزمان کے ساتھ معاہدے کا فیصلہ آسان نہیں تھا اور یہ ’انصاف کے حصول کے لیے بہترین راستہ‘ ہے۔اس سے قبل ستمبر میں بائیڈن انتظامیہ نے کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے پر قید پانچ افراد بشمول خالد شیخ محمد کے ساتھ معاہدے کی شرائط کو مسترد کر دیا تھا۔اطلاعات کے مطابق ان افراد نے مبینہ طور پر صدر بائیڈن سے اس بات کی ضمانت مانگی تھی کہ انھیں قید تنہائی میں نہیں رکھا جائے گا اور انھیں نفسیاتی مسائل کے علاج تک رسائی دی جائے گی۔وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کا کہنا ہے اس معاہدے میں صدر کے دفتر کا کوئی کردار نہیں اور انھیں بدھ کے روز اس نئے معاہدے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔جم سمتھ کی اہلیہ بھی نائن الیون حملوں میں ہلاک والوں میں شامل ہیں۔ نیویارک پوسٹ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کے اہل خانہ 23 سال سے منتظر تھے کہ ’اس بات کو عدالتی ریکارڈ پر لاسکیں کہ ان جانوروں نے ہمارے پیاروں کے ساتھ کیا کیا تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ’یہ موقع ہم سے چھین لیا ہے۔‘ جم سمتھ کہتے ہیں کہ ان ملزمان کو ان کے کیے کی سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ریپبلکنز نے بھی ملزمان کے ساتھ معاہدہ پر بائیڈن انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔سینیٹ کے اقلیتی رہنما مچ میک کونل اس معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسی ڈیل کر کے حکومت نے ’امریکہ کے دفاع اور انصاف فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داری سے بغاوت کی ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات سے زیادہ بدتر یہ ہے کہ حراست میں ہونے باوجود ان سے مذاکرات کریں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
خالد شیخ محمد سمیت دیگر منصوبہ ساز کون ہیں؟
خالد شیخ محمد پاکستان میں پیدا ہونے والے کویتی شہری ہیں اور ان پانچ افراد میں شامل ہیں جن پر 11 ستمبر 2001 میں طیارہ ہائی جیک کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔وہ 14 اپریل 1965 کو پیدا ہوئے اور وہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے پروپیگنڈا کے سابق سربراہ اور ایک مکینیکل انجینئر ہیں۔ وہ اس وقت دہشت گردی سے متعلق الزامات کے تحت گوانتاناموبے کے حراستی کیمپ میں امریکہ کے زیر حراست ہے۔نائن الیون کمیشن کی رپورٹ میں انھیں نائن الیون کے حملوں کے ’ماسٹر مائنڈ‘ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔اسامہ بن لادن، جو اس وقت القاعدہ کے سربراہ تھے، نائن الیون کے حملوں کے منصوبے سے جڑے ہوئے تھے لیکن نائن الیون کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے مطابق حقیقت یہ تھی کہ خالد شیخ محمد (جو بعد میں ’کے ایس ایم‘ کے طور پر جانے گئے) اس حملے کے اصل معمار تھے۔ یہ وہ شخص تھے جنھیں یہ خیال آیا اور وہ اسے لے کر القاعدہ کے پاس پہنچے۔خالد شیخ محمد اسامہ بن لادن کی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے رکن تھے اور تقریباً 1999 سے 2001 کے اواخر تک القاعدہ کی پروپیگنڈا کارروائیوں کی قیادت کرتے تھے۔ خالد شیخ محمد کو یکم مارچ 2003 کو پاکستانی شہر راولپنڈی سے امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) اور پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے ایک مشترکہ آپریشن کے ذریعے پکڑا تھا۔ دسمبر 2006 تک، انھیں گوانتاناموبے کے حراستی کیمپ میں فوجی حراست میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
ولید محمد بن عطاش
،تصویر کا ذریعہInternational Committee of the Red Crossولید محمد صالح مبارک بن عطاش بھی القاعدہ کے اہم رکن ہیں اور ان پر بھی نائن الیون کے حملے کے الزامات کے ساتھ ساتھ پر دہشت گردی کی سازش، شہریوں پر حملہ کرنے، جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قتل اور املاک کو تباہ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ہیومن رائٹس واچ کی ویب سائٹ کے مطابق وہ ایک یمنی شہری ہیں اور ان پر ہائی جیکنگ، دہشت گردی کرنے اور اس کی مالی معاونت کرنے کے الزامات ہیں۔ امریکی حکومت نے چار دیگر افراد سمیت ولید بن عطاش پر 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔بن عطاش پر خاص طور پر الزام ہے کہ اسامہ بن لادن نے انھیں امریکی ویزا حاصل کرنے کی ہدایت کی تھی تاکہ وہ امریکہ کا سفر کر سکیں اور پائلٹ کی تربیت حاصل کر سکیں تاکہ وہ بالآخر ہائی جیکنگ میں حصہ لے سکیں۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے 1999 میں امریکی ویزے کے لیے درخواست دی تھی لیکن اسے مسترد کر دیا گیا تھا، جس کے بعد حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے القاعدہ کے لیے تحقیق جاری رکھی اور نائن الیون کے ہائی جیکرز کے لیے سفر کی سہولت فراہم کی۔اگرچہ ولید بن عطاش کو مبینہ طور پر اپریل 2003 میں گرفتار کر کے امریکی حراست میں منتقل کر دیا گیا تھا، لیکن ستمبر 2006 تک اسے گوانتانامو منتقل نہیں کیا گیا تھا۔
مصطفیٰ احمد الہوساوی
مصطفیٰ احمد آدم الہوساوی ایک عرب شہری ہیں اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے لیے ایک اہم مالی سہولت کار کے طور پر کام کیا۔ہیومن رائٹس واچ کی ویب سائٹ کےمطابق امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مصطفیٰ الہوساوی نے نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے لیے فلائٹ سکولوں کی تحقیق میں مدد کی اور کئی ہائی جیکروں کے بینک اکاؤنٹس کا انتظام کیا۔اگرچہ الہوساوی کو مبینہ طور پر مارچ 2003 میں پاکستان سے گرفتار کر کے امریکی حراست میں منتقل کر دیا گیا تھا، لیکن اسے ستمبر 2006 تک گوانتانامو منتقل نہیں کیا گیا تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.