جمال خاشقجی کا قتل: امریکہ کی محمد بن سلمان کے لیے بڑھتی نرمی کی وجہ کیا ہے؟
- فرینک گارڈنر
- بی بی سی ، سکیورٹی نامہ نگار
صدارت کا منصب سنبھالنے سے پہلے جو بائیڈن نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں سعودی عرب کے ملوث ہونے پر اسے ‘خارج شدہ’ ملک قرار دیا۔ بطور صدر رواں برس فروری میں ان کی انتظامیہ نے امریکی خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں سعودی ولی عہد کے اس قتل میں ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ ایم بی ایس کے نام سے جانے جانے والے سعودی ولی عہد نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے چھ ماہ بعد بائیڈن انتظامیہ نے محمد بن سلمان کے چھوٹے بھائی اور سعودی نائب وزیرِ دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کا ملک میں آمد پر سرخ قالین بچھا کر استقبال کیا ہے۔ یہ اکتوبر سنہ 2018 میں خاشقجی قتل کے بعد سے کسی اعلیٰ منصب پر فائض سعودی حکومتی اہلکار کا امریکہ کا پہلا دورہ ہے۔
لندن کے تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ میں ایسوسی ایٹ فیلو مائیکل سٹیفنز اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘سعودی حکومت نے محمد بن سلمان اور سعودی عرب کے امیج کو بہتر بنانے کی ٹھوس کوششیں کی ہیں۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ‘سعودی حکومت کی جانب سے معاشی مواقعوں پر توجہ دی جا رہی ہے جبکہ اس سے قبل خطے کی سکیورٹی سے متعلق جس بیانیے کو ہوا دی جا رہی تھی وہ اب کمزور پڑ رہا ہے۔‘
تو کیا اس کا مطلب ہے کہ محمد بن سلمان کو مغربی طاقتوں نے معاف کر دیا ہے؟
ہرگز نہیں اور خاص کر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے خاشقجی قتل کے حوالے سے مکمل اور آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا جاتا رہے گا، جس میں سعودی عرب کے سب سے طاقتور شخص محمد بن سلمان کو بھی حصہ بنایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
خیال رہے کہ سعودی حکومت کے 15 اہلکار سنہ 2018 میں ریاض سے استنبول بذریعہ پرواز پہنچے تھے جہاں انھوں نے محمد بن سلمان کے ناقد جمال خاشقجی کے آنے کا انتظار کیا۔ جیسے ہی انھوں نے سعودی قونصل خانے میں قدم رکھا تو یہ اہلکار ان پر چڑھ دوڑے، ان کا گلا دبا کر انھیں قتل کیا اور پھر ان کے جسم کے ٹکڑے کر دیے۔
شہزادہ خالد بن سلمان جنھیں گذشتہ ہفتے امریکہ میں خوش آمدید کہا گیا تھا، سنہ 2018 میں واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر تھے۔ انھوں نے آغاز میں ان خدشات کو ہی رد کر دیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیا ہے اور کہا تھا کہ یہ ‘سراسر بے بنیاد اور جھوٹا’ دعویٰ ہے۔
جب ترکی نے سعودی قونصل خانے کی خفیہ نگرانی کرنے کے بعد دنیا کو بتایا کہ اصل میں وہاں اس روز ہوا کیا تھا تو سعودی حکومت کو اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ اس نے اس کا ذمہ دار ایک ’نجی آپریشن’ کو قرار دیا جس کا انتظامیہ کو علم نہیں تھا اور ایک خفیہ مقدمے میں متعدد چھوٹے عہدوں پر فائض افسران کو سزائیں سنا دیں۔
یہ بھی پڑھیے
تاہم امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ‘انتہائی وثوق’ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ آپریشن شہزادہ محمد بن سلمان کے علم میں لائے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا۔
امریکہ نے اس کے بعد سے 70 سے زیادہ سعودی اہلکاروں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث پابندیاں عائد کی ہیں جبکہ خاشقجی کے قتل کے بعد سے مغربی رہنماؤں کی جانب سے ولی عہد کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
تاہم سعودی عرب کو اب بھی اکثر مغربی ممالک ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں جو ایران کی پھیلتی طاقت کے خلاف دفاعی حیثیت رکھتا ہے، ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے، اسلحے کا امیر خریدار ہے اور تیل کی منڈی کو مستحکم کرنے والا فریق بھی ہے۔ یہاں حقیقت پسندانہ سیاست کا عمل دخل ہوتا ہے۔
ولی عہد کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ مغربی حکومتوں کے سرکاری مؤقف اور حقیقی مؤقف میں فرق ہے یعنی وہ میڈیا میں تو محمد بن سلمان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کی سعودی عرب سے دوطرفہ تعلقات کی حقیقت مختلف ہے۔
یہی وجہ ہے گذشتہ ہفتے محمد بن سلمان کے قریب ترین رشتہ دار واشنگٹن کے اہم ترین دفاتر میں قدم رکھنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
‘اب یہ کچھ ہی وقت کی بات ہے۔’
دو روزہ دورے کے دوران شہزادہ خالد بن سلمان نے وزیرِ خارجہ اینتھونی بلنکن، صدر کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون، وزیرِ دفاع لائڈ آسٹن اور چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل مارک ملی سے ملاقاتیں کیں۔ یہ فہرست ہی عیاں کر دیتی ہے کہ امریکہ اپنے اتحادی کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ خاص کر یہ بھی کہ شہزادہ خالد کے دورے کے بارے میں کوئی اعلان یا شیڈیول نہیں بتایا گیا تھا۔
اس دوران متعدد موضوعات پر بات ہوئی جن میں یمن میں ہونے والی جنگ بھی شامل ہے۔ اس جنگ سے اب سعودی عرب کو واپسی کا راستہ چاہیے کیونکہ سعودی افواج اب تک ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ حوثی باغیوں نے سنہ 2014 میں غیر قانونی طور پر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس کے علاوہ، توانائی، تیل کی منڈی، افریقی کے مشرقی ممالک میں سکیورٹی کی صورتحال اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سمیت دیگر امور بھی زیرِ غور آئے۔ اطلاعات کے مطابق اس دوران افغانستان پر بھی بات ہوئی جہاں سے اب امریکی افواج کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے اور یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ طالبان کے اقتدار حاصل کرنے سے القائدہ کو دوبارہ وہی طاقت حاصل ہو جائے گی۔
سعودی عرب کے امور پر گہری نظر رکھنے والے سفارت کاروں کے مطابق اس ملک سے تعلقات برقرار رکھنا خاصا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ مغربی ممالک میں شہزادہ محمد بن سلمان سے متعلق خدشات شاید ان کے مرنے تک موجود رہیں۔
مائیکل سٹیفنز کہتے ہیں کہ ’ابھی کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ ابھی مغربی ریاستوں کو مزید وقت لگے گا سعودی عرب سے باضابطہ تعلقات بحال کرنے میں۔ تاہم فی الحال محمد بن سلمان کے لیے حالات سازگار ہو رہے ہیں اور اب یہ کچھ ہی عرصے کی بات ہے اور پھر محمد بن سلمان مغربی دارالحکومتوں کے دورے کرنے لگیں گے۔‘
Comments are closed.