حافظ نعیم الرحمن نے دھرنے کے آٹھویں روز بعد نماز جمعہ میڈیا بریفنگ میں حکومت سندھ سمجھتی ہے کہ ہم اسمبلی بلڈنگ چھو کر چلے جائیں گے .نئے بلدیاتی بل کے حوالے سے سعید غنی کہتے ہیں کہ پرانا بلدیاتی قانون ایک آمر کا قانون تھا ہم آمر کا قانون نہیں لانا چاہتے جبکہ خود سعید غنی اسی آمر کے قانون میں 2001 سے 2009تک سٹی کونسل میں قائد حزب اختلاف رہے،اسی قانون کے تحت تمام امور کو انجام دیااور جتنے اختیارات تھے آپ نے انہیں انجوائے بھی کیا ، پی پی رہنما قائم علی شاہ کی بیٹی نفیسہ شاہ خٰیر پور کی ناظمہ ،فریال تالپور نوابشاہ کی ناظمہ رہیں اور تمام اختیارات کو انجوائے کیا.ہم تو آئینہ دکھارہے ہیں .
انہوں نے کہا کہ ایک ڈکٹیٹر نے تو اختیارات دیے بھی اور آپ نے اسے انجوائے بھی کیا لیکن آپ خود جمہوریت کے نام پر ہمیں کیوں کچلنا چاہتے ہیں ،جمہوریت کے نام پر کیوں آپ سندھ بھر کے عوام کی گردنوں پر مسلط ہونا چاہ رہےہیں.اس لیے ہم اس قانون کو تسلیم نہیں کرسکتے ، یہ دھرنا بھی جاری ہے اور یہ احتجاج کا سلسلہ وسیع ہوگا.
انہوں نے کہا کہ انکے وزرا کہتے ہیں کہ کے ایم سی کے ادارے تباہ ہیں ہم انہیں درست کریں گے تو ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان ڈسپنسری و دیگر ادارے اس لیے پریشان تھے کہ آپ کے ایم سی کو فنڈ نہیں دیتے تھے، ملازمین کی تنخواہوں تک کا مسئلہ تھا ،کے ایم سی کی اگر کوئی نااہلی تھی تو اسکی ذمے دار یا تو ایم کیو ایم ہے یا اب پیپلز پارٹی کے ایم سی کو ڈیڑھ دو سال سے براہ راست چلارہی ہے تو اگر اس وقت اسپتال و ڈسپنسری کی جو حالت ہے اسکے تو آپ خود ذمے دار ہیں .آپ خود ہی خراب کررہے ہیں اور پھر خود ہی کہہ رہے ہیں کہ اپنے پاس لے لیں گے تو ٹھیک ہوجائے گا،یعنی یہ کرپشن کا سسٹم چلتا رہے .
انہوں نے بلاول بھٹو کے بیان پر حیرانی کا اظہارکیا کہ جس میں بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ہم میئر کو بہت بااختیار بنا رہے ہیں ،واٹر بورڈ کا کو-چیئرمین بھی ہوگا، وہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا بھی چیئرمین یا کو-چیئرمین ہوگا ،تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ بلاول تمام بلدیاتی ایکٹ کا مطالعہ کریں، نفیسہ شاہ و فریال تالپور سے پوچھیں کہ جس طرح انہوں نے نظامتیں کی ہیں وہ ہمیں بتائیں، پھر آپ اس ایکٹ کا اور نئے بل کا موازنہ کریں تو پتہ چل جائے گا کہ آپ جو اختیارات دے رہے ہیں وہ ڈیکوریشن پیس کے سوا کچھ نہیں ہوگا.
انہوں نے کہاکہ انہیں بہت پریشانی ہونے لگتی ہے جب ہم کراچی پہ قبضہ نامنظور کہتے ہیں ، یہ کوئی لسانیت نہیں ہے . یہاں ہر لسانی اکائی کے لوگ رہتے ہیں اور جب ہم کہتے ہیں کہ کراچی کو پانی بجلی ٹرانسپورٹ اختیار دو ،تو یہ سندھی سرائیکی پختون پنجابی مہاجر سب کے حقوق کی بات ہوتی ہے . ہم ان سب کے لیے اختیار مانگتے ہیں اور جب آپ اختیار پہ قبضہ کرتے ہیں تو اسکا مطلب کراچی پہ قبضہ ہوتا ہے .جب ہم ‘حق دو کراچی کو” تحریک چلاتے ہیں تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ کراچی میں رہنے والوں کا حق دو .
انہوں نے کہا کہ جب ہم وڈیرہ و جاگیردار سے نجات کی بات کرتے ہیں تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ استحصال کرنے والے وڈیروں جاگیرداروں سے نجات دلائیں عوام کو ، جو وڈیرے اپنے عوام کو کچل کر ان پہ مسلط ہوتے ہیں ہم انکی بات کرتے ہیں . اچھے برے تو ہر جگہ ہوتے ہیں ، جو وڈیرہ اپنے لوگوں کو سہولیات دے ہم انکے خلاف نہیں ہیں،ہم دیہی و شہری دونوں عوام کی بات کررہے ہیں. انہوں نے کہاکہ ہمارے نعرے کو لسانیت کا رنگ نہ دیا جائے ، یہ آپ کو سوٹ کرتا ہے کہ تعصب پھیلائیں ، ایم کیو ایم کو سوٹ کرتا ہے ، آپ انکے ساتھ مل کر 35سال سے راج کرتے رہے، ہم وہ نعرے نہیں بھولے جب کہا جاتاتھا کہ ‘بے نظیر الطاف بہن بھائی ،پنجابیوں نے آگ لگائی’ .اسی طرح یہی لوگ مل کر سندھی مہاجر فساد کرواتے تھے .حیدرآباد اور کراچی میں کیا ہواتھا. یہ ساری گندی سیاست دفن ہوچکی اور اب جماعت اسلامی کم بیک کررہی ہے اس شہر کے اندر.
انہوں نے کہاکہ آپ سنجیدہ بات کرنا چاہتے ہیں تو آئیں لیکن لسانیت کا الزام نہ لگائیں .انکا کہنا تھا کہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم 8دن سے یہاں ہیں تو 4دن اور بیٹھ کر چلے جائیں گے . انہوں نے انتباہ کیا کہ دھرنا کراچی کو حق دلوانے تک جاری رہے گا
Comments are closed.