سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کراچی سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے جنہوں نے عمران خان کے نیب ترامیم سے مستفید ہونے کا نکتہ اٹھا دیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے مخدوم علی خان سے مخاطب ہو کر کہا کہ آج آپ اتنی دور سے پیش ہوئے ہیں۔
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ گزشتہ روز کے حالات کے پیشِ نظر مجھے لگا کہ عدالت پہنچنا مشکل ہو گا، آج کل تو سوشل میڈیا بھی نہیں کہ معلومات مل سکیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے مخدوم علی خان کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ دھیان سے بات کریں، عدالت میں جو بات کہیں گے وہ سوشل میڈیا پر گڈ ٹو سی یو کی طرح سیاق و سباق کے بغیر پیش کی جائے گی، اس کیس کی 46 ویں سماعت ہے اور بینچ چاہتا ہے کہ اس کیس کو سمیٹا جائے، تحریری مواد دیکھنے کے بعد ضرورت ہوئی تو مزید سماعت کریں گے، اگر فراہم کردہ مواد پر عدالت کسی نتیجے پر پہنچی تو فریقین کو آگاہ کر دیں گے، نیب ترامیم کیس کی آج 46 سماعتیں ہو چکی ہیں، اب تک خواجہ حارث نے 26 اور مخدوم علی خان نے 19 سماعتوں پر دلائل دیے ہیں، مقدمہ مزید لٹکانا نہیں چاہتے کیونکہ عدالتی چھٹیوں میں شاید بینچ بیک وقت یہاں دستیاب نہ ہو۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب قانون میں بہت سی چیزیں درست ہیں، کچھ غلطیاں ہیں جن پر فیصلہ دیں گے، خواجہ حارث صاحب! نیب ترامیم دیکھ کر بتائیں ان میں غلطی کیا ہے؟ یہ بھی بتائیں کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہاں ہوئی؟ خود سے یہ طے نہیں کر سکتے کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بنیادی حقوق متاثر ہو گئے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اپنے جواب میں مخدوم علی خان کے اعتراضات کا جواب بھی شامل کیجیے گا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت نے نیب قانون میں کل تیسری ترمیم کی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ حکومت بھی تو ہمارا امتحان لیتی جا رہی ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت نے نیب قانون میں ریفرنسز واپس ہو کر متعلقہ فورم سے رجوع کرنے پر ترمیم کی ہے۔
اس موقع پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے عمران خان کے نیب ترامیم سے مستفید ہونے کا نکتہ اٹھا دیا اور کہا کہ پچھلے ہفتے ایک معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا، پہلی بار ایک شخص نے اُس قانون سے فائدہ حاصل کیا جس کو اس نے چیلنج کر رکھا ہے، عمران خان چاہتے ہیں کہ جس قانون سے فائدہ وہ حاصل کر چکے کوئی اور مستفید نہ ہو، پہلی بار یہ بھی ہوا کہ ایک وزیر ِاعظم نے عہدے سے فارغ ہو کر اپنے ترمیم شدہ قانون کو چیلنج کیا، آئین اجازت نہیں دیتا کہ قانون سے ناقد شخص اسی سے فائدہ لے، درخواست گزار نہیں بتا سکے کہ نیب قانون براہِ راست بنیادی انسانی حقوق سے منافی ہے، نیب ترامیم کے خلاف کیس قیاس آرائیوں پر مبنی لمبی مشق ہے، حکومت نے کل جوائنٹ سیشن میں نیب ترامیم منظور کیں، صدرِمملکت نے نیب ترامیم بغیر دستخط کے واپس کیں، پارلیمنٹ نے دوبارہ منظور کیا، عمران خان نے نیب قانون پہلے ٹرائل کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے یہ نکتہ پہلے بھی بہترین انداز میں اٹھایا تھا کہ درخواست ٹھوس بنیادوں پر مبنی نہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت 184 تھری کے مقدمات میں کسی بھی قانون پر جوڈیشل ریویو کر سکتی ہے، ساری دنیا میں عدالتیں قوانین کو کالعدم قرار دیتی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ تیسری ترمیم سے متاثر ہیں تو متعلقہ فورم سے رجوع کر لیں، عدالتی فیصلے میں موجود ہے جس کے تحت عدالت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کہتی رہی ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کی ہدایات دینے کا مقصد قانون کو آسان بنانا تھا تاکہ بہتری ہو۔
عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.