حملوں کے بعد محصور اسرائیلی شہری: ’وہ میرے گھر میں گُھسنے کی کوشش کر رہے ہیں، میں ان کی آوازیں سن سکتی ہوں‘
حملوں کے بعد محصور اسرائیلی شہری: ’وہ میرے گھر میں گُھسنے کی کوشش کر رہے ہیں، میں ان کی آوازیں سن سکتی ہوں‘
،تصویر کا ذریعہReuters
سنیچر کے روز اسرائیلی علاقوں میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے حملوں کے بعد کئی گھنٹے تک اسرائیل میں اپنے گھروں میں محصور افراد ٹی وی سٹیشنز کو فون کر کے یہ اطلاع دیتے رہے کہ فلسطینی عسکریت پسند ان کے قصبوں اور گاؤں میں گھس کر ایک شدید اور اچانک حملہ کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
اکثر لوگ اب بھی چھپے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ گولیوں کی آوازیں سن سکتے ہیں جبکہ کئی لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔
ایلیت ہاشم نے چینل 12 کو غزہ کی پٹی کے قریب كيبوتز بئیری نامی قصبے میں اپنے گھر سے کال کر کے بتایا کہ ’دہشتگرد میرے گھر کے اندر گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ان کی آوازیں سن سکتی ہوں، وہ گھر کا دروازہ بجا رہے ہیں۔ میں اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ یہاں پھنسی ہوئی ہوں۔‘
اسرائیل نے سرحد کے قریب رہنے والے عام شہریوں سے کہا ہے کہ وہ گھروں میں رہیں۔ تاہم كيبوتز بئیری میں رہائشیوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گھروں اور پناہ گاہوں میں گُھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایک رہائشی نے چینل 12 کو بتایا کہ ’قصبے کی دوسری جانب سے فائرنگ ہو رہی ہے، میں گھر پر ہوں اور میں ان کی آوازیں اپنے گھر کے باہر سن سکتا ہوں۔ ہم یہاں خاموشی سے بیٹھے ہیں، پورا قصبہ خاموش ہے تاکہ وہ ہمارے گھروں میں نہ آئیں۔‘
ایک 23 سالہ رہائشی ایلا کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایسا سنا ہے کہ ’وہ پناہ گاہ میں داخل ہو گئے ہیں‘ اور پھر انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے اب بھی فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔‘
اسرائیل میں تمام گھروں میں قانون کے مطابق بم شیلٹرز بنانا لازمی ہوتے ہیں اور شہروں اور قصبوں میں مختلف جگہوں پر بمباری کی صورت میں بم پروف پناہ گاہیں بھی بنائی گئی ہیں۔
یہ گذشتہ کئی برسوں میں اسرائیل فلسطین تنازع میں ہونے والی شدید ترین کشیدگی میں سے ایک ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق عسکریت پسند گروپ حماس کے جنگجو صبح سحر کے وقت غزہ سے اسرائیل میں داخل ہوئے۔ وہ موٹر سائیکلوں، پیراگلائیڈرز اور کشتیوں پر بھی داخل ہوئے۔ ایسے کسی حملے کی اس سے پہلے نظیر نہیں ملتی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے درجنوں اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا ہے جبکہ سدیروٹ نامی قصبے میں اسلحہ بردار جنگجو نے رہائشیوں پر فائرنگ کر دی ہے۔
ملک کی ایمرجنسی سروس کے مطابق اب تک کم سے کم 70 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہReuters
غزہ کی پٹی کے قریب كيبوتز نیریم نامی قصبے کے شہری نے چینل 13 کو بتایا کہ ’میں اپنے ایک ہفتے کے بچے کے ساتھ گذشتہ دو گھنٹوں سے شیلٹر میں موجود ہوں اور میرے گھر کو نذرِ آتش کر دیا گیا ہے۔‘
دیگر رہائشی سوشل میڈیا پر مدد مانگ رہے ہیں۔ ایلا مور نے فیسبک پر لکھا کہ ’فوری اعلان، فوری اعلان، خدارا یہ میڈیا تک پہنچانے میں میر مدد کریں۔ مجھے اپنے بھانجوں کو بچانا ہے جو اس وقت چھپے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مجھے کال کر کے بتایا کہ انھوں (فلسطینی عسکریت پسندوں) نے کفار ازا میں میری والدہ اور والد کو ہلاک کر دیا ہے۔ اور انھیں اپنی نومولود بہن نہیں مل رہی۔
’پولیس جواب نہیں دے رہی اور میگن ڈیوڈ ایڈوم (اسرائیل کی ایمرجنسی میڈیکل سروں) کبٹز تک نہیں پہنچ پا رہی۔‘
’میں اس سے پہلے کبھی اتنی خوفزدہ نہیں ہوئی‘
ہم حالت جنگ میں ہیں، بنیامن نتن یاہو
کسی اور جگہ سے فیسبک پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اڈیل نامی خاتون نے لکھا کہ ’ہمیں کہا گیا ہے کہ دروازے مقفل کر لیں اور سیف روم نہ چھوڑیں۔‘
’ہم تو ایئرکنڈیشننگ کا درجہ حرارت بھی تبدیل نہیں کر رہے، اس ڈر سے کہ کہیں اس سے گھر میں لوگوں کی موجودگی کے بارے میں شک نہ ہو سکے۔
’میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ میں گھر کے باہر بہت زیادہ فائرنگ سن سکتی ہوں، سیف روم کی موٹی دیواروں سے بھی۔ میں بیت الخلا جانا چاہتی ہوں لیکن ایسا کرنے سے بھی ڈر رہی ہوں۔ میں اس سے پہلے کبھی اتنی خوفزدہ نہیں ہوئی۔‘
جنوبی اسرائیل کے قصبے كيبوتز نیر عوز میں ایک رہائشی یونی نے فیس بک پر لکھا کہ ’انھوں نے میری ساس کو گرفتار کیا اور انھیں اغوا کر کے چلے گئے، میں فوج اور میڈیا سے فوری طور پر رابطہ کرنا چاہتی ہوں۔‘
صفا کے رہائشی اوفیر کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنی پناہ گاہ میں محصور ہو چکے ہیں اور فوج اب تک یہاں نہیں پہنچی۔ میرے شوہر سکواڈ کے ساتھ مل کر ان سے لڑ رہے ہیں۔ وہ ہمارے گھروں پر ہم پر فائرنگ کر رہے ہیں اور ہمارے گھروں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’كيبوتز واٹس ایپ گروپ رہائشیوں کے پیغامات سے بھرا ہوا ہے اور لوگ لکھ رہے ہیں کہ وہ ان کے گھروں پر حملے کر رہے ہیں۔
’ہم باڑ کے قریب ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ فوج کہاں ہے، یہاں کوئی بھی نہیں ہے۔‘
حماس کی جانب سے یہ بے مثال حملہ سنیچر کی صبح کیا گیا اور جنگجوؤں نے راکٹ حملوں کی آڑ میں اسرائیل میں داخل ہوئے تھے۔
عسکریت پسندوں کی جانب سے ہزاروں راکٹ فائر کیے گئے جن میں سے اکثر کے ذریعے تل ابیب اور یروشلم کو نشانہ بنایا گیا۔
مصنف اور صحافی گیڈیئن لیوی جو اس وقت تل ابیب میں ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گلیاں مکمل طور پر خالی ہیں۔ ریستوران، کیفے سب کچھ بند ہے اور اس وقت یہاں حیرانی، خوف اور اچانک صدمہ پہنچنے کے آثار نظر آتے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اس حملے کے ردِ عمل میں متعدد فضائی حملے کیے ہیں ’جب پہلے راکٹ گرے تو میں پارک میں دوڑ رہا تھا، اس دوران آنے والے آواز خوفناک تھی۔‘
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل ’حالتِ جنگ‘ میں ہے اور اعادہ کیا کہ حماس جو غزہ پر حکمرانی کرتا ہے کو ’اس کی وہ قیمت ادا کرنی پڑے گی جس کے بارے میں اسے کبھی علم نہیں تھا۔‘
غزہ میں ہونے والے حملوں میں مقامی فلسطینی حکام کے مطابق اب تک کم سے کم 200 افراد ہلاک جبکہ ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔‘
Comments are closed.