امریکہ کی جانب سے اسرائیلی فوج پر پابندیوں کا خدشہ: میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کروں گا، نتن یاہو،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, ٹام بیٹ مین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، واشنگٹن
  • 2 گھنٹے قبل

اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ملک کی فوج پر عائد کسی بھی قسم کی پابندیوں کو مسترد کر دیں گے۔ اُن کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکی انتظامیہ اسرائیلی فوج کی ایک یونٹ کو فراہم کی جانے والی فوجی امداد پر پابندی لگانے کا سوچ رہی ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم نے اتوار کے روز کہا کہ ’میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کروں گا۔‘اس سے قبل ایکسیوس نیوز کی ویب سائٹ پر یہ خبر دی گئی کہ امریکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اسرائیل کی ’نیتزہ یہودا بٹالین‘ کو پابندیوں کی صورت میں نشانہ بنائے گا۔بی بی سی کا خیال ہے کہ اس پابندی کا اثر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث دیگر غیر ملکی یونٹس کی امداد پر بھی ہوگا، یعنی وہ بھی اسی پابندی کے دائرے میں آئیں گی۔

گزشتہ ہفتے جب ان اطلاعات کے بارے میں پوچھا گیا تھا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کی یونٹس کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد میں کٹوتی کی جا سکتی ہے؟ تو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ ’میں نے اس بارے میں سوچ بچار کی ہے اور فیصلہ کر لیا ہے، جس کے بارے میں آپ آنے والے دنوں جان سکیں گے۔‘اسرائیل کے اہم اتحادی واشنگٹن نے اس سے قبل کبھی بھی آئی ڈی ایف یونٹ کی امداد معطل نہیں کی۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اُن کی فوج کی بٹالین ’نیتزہ یہودا‘ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کام کرتی رہی ہے۔اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’نیتزہ یہودا‘ پر پابندی عائد کرنے کا اپنا ارادہ ترک کر دے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ دنیا امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو پہلے سے کہیں زیادہ قریب اور توجہ سے دیکھ رہی ہے۔‘یواو گیلنٹ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یونٹ پر تنقید کی کسی بھی کوشش سے آئی ڈی ایف کے اقدامات پر بُرے اثرات پڑیں گے، دوستوں اور شراکت داروں کے درمیان ایسے اقدامات درست اور مناسب نہیں۔‘،تصویر کا ذریعہAFP via Getty Images

،تصویر کا کیپشنسنہ 1999 میں قائم ہونے والی ’نیتزہ یہودا بیٹالین‘ صرف مردوں کے لیے ایک خصوصی یونٹ ہے جہاں الٹرا آرتھوڈوکس یہودی خدمات انجام دیتے ہیں
سنیچر کے روز ایکسیوس نیوز نے تین امریکی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ بلنکن چند دنوں کے اندر ’نیتزہ یہودا‘ کے خلاف اقدامات کا اعلان کریں گے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ اقدام مغربی کنارے میں مبینہ زیادتیوں پر کیا جائے گا، جس میں جنوری 2022 میں مغربی کنارے میں تلاشی کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک فلسطینی نژاد امریکی شہری عمر اسد کی موت کا واقعہ بھی شامل ہے۔‘اس وقت امریکہ نے اس معاملے میں ’مکمل مجرمانہ تحقیقات اور مکمل احتساب‘ کا مطالبہ کیا تھا۔بعد ازاں آئی ڈی ایف نے کہا کہ ’انھیں اسد کی موت پر افسوس ہے اور اس پر ’نیتزہ یہودا‘ کے کمانڈر کی سرزنش کی گئی۔‘ اس میں مزید کہا گیا کہ ’دو فوجیوں کو دو سال تک سینیئر عہدوں پر خدمات انجام دینے سے روک دیا گیا لیکن ان پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔‘ بیان میں آگے چل کر کہا گیا کہ ’اسد کی موت پہلے سے موجود طبی حالت کی وجہ سے ہوئی۔‘تاہم اسد کے اہل خانہ، جن میں سے زیادہ تر امریکہ میں مقیم ہیں، نے مقدمے پر کارروائی کے روکے جانے کے فیصلے کی مذمت کی۔یہ تمام مبینہ خلاف ورزیاں 7 اکتوبر کو غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر حماس کے حملے سے قبل ہوئیں۔آئی ڈی ایف یونٹ کو امریکی فوجی امداد سے روکنے کا کوئی بھی فیصلہ ’لیہی لا‘ کے تحت کیا جائے گا، جسے 1997 میں اس وقت کے سینیٹر پیٹرک لیہی نے بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ قانون انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث غیر ملکی فوجی یونٹس کے لیے امریکی فنڈنگ یا تربیت کے استعمال کی جانے والی امداد کی ترسیل کو روکتا ہے۔ایک سابق سینیئر امریکی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ برس امریکی حکام کے ایک گروہ نے اسرائیلی یونٹس کے خلاف لگائے گئے کم از کم ایک درجن الزامات کا جائزہ لیا تھا، جن میں نیتزہ یہودا بٹالین بھی شامل تھی۔امریکی اسلحے کی منتقلی کی نگرانی کرنے والے محکمہ خارجہ کے پولیٹیکل ملٹری افیئرز بیورو کے سابق ڈائریکٹر جوش پال کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ماننا تھا کہ زیادہ تر کیسز میں ان کا ازالہ نہیں کیا گیا اور دوسرے لفظوں میں مجرموں کا مناسب طریقے سے احتساب نہیں کیا گیا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’جب ہم نے ان سفارشات کو وزیر خارجہ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی تو ہم انھیں سیاسی سطح پر کبھی بھی توجہ حاصل نہیں ہوئی۔پال نے نومبر میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی پر احتساب کے فقدان پر احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انھوں نے جن سفارشات کا ذکر کیا وہ بلنکن کی میز تک پہنچیں، انھوں نے حالیہ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیا جن میں کہا گیا تھا کہ ایسا ہوا ہے۔یاد رہے کہ سنہ 1999 میں قائم ہونے والی ’نیتزہ یہودا بیٹالین‘ صرف مردوں کے لیے ایک خصوصی یونٹ ہے جہاں الٹرا آرتھوڈوکس یہودی خدمات انجام دیتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}