حماس کے حملے نے اسرائیل کو چونکا دیا، لیکن آگے کیا ہوسکتا ہے؟
،تصویر کا ذریعہReuters
- مصنف, یولانڈے نیل
- عہدہ, بی بی سی نیوز، یروشلم
یوم کپور جنگ کے50 سال بعد، جس کا آغاز بھی اسرائیل پر مصر اور شام کے اچانک حملے سے ہوا تھا، فلسطینی عسکریت پسندوں نے بھی یہودیوں کی مذہبی تعطیل کے دن ایک غیر متوقع اور بڑا حملہ کیا ہے۔
غزہ کی پٹی میں حالیہ دنوں میں تناؤ بڑھ رہا تھا لیکن روایتی فہم یہی تھی کہ حماس یا اسرائیل اس میں اضافہ نہیں چاہتے۔
لیکن حماس حقیقت میں ایک منظم قسم کے آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ سنیطر کی صبح راکٹوں سے بھرپور حملہ کیا گیا جن میں سے چند تل ابیب اور یروشلم تک پہنچے۔ اس کے ساتھ ہی فلسطینی جنگجو سمندر، زمین اور فضا سے جنوبی اسرائیل میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔
ان عسکریت پسندوں نے کئی گھنٹوں تک اسرائیلی قصبوں اور فوجی پوسٹوں کو گھیرے رکھا، متعدد افراد کو ہلاک کیا اور نامعلوم تعداد میں عام شہریوں اور فوجیوں کر یرغمال بنا کر غزہ کی پٹی میں لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ڈرامائی کارروائی سوشل میڈیا اور مرکزی میڈیا پر براہ راست نشر ہوتی رہی۔
گلی یوسکووچ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ لوگ ہر جگہ گولیاں چلا رہے تھے۔ دو اطراف سے اور میں نے لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھا۔‘
’میں نے سوچا میں مرنے والی ہوں، بس سانس لو اور اپنی آنکھیں بند کر لو کیوں کہ ہر طرف گولیاں برس رہی تھیں۔ یہ سب میرے بہت قریب ہو رہا تھا۔‘
اسرائیلی اخبار یاہوم نے ایلا نامی خاتون کا حوالہ دیا جنھوں نے اپنے والد کے بارے میں خوف کا اظہار کیا جو راکٹ حملے سے خبردار کرنے والے سائرن بجنے کے بعد ایک سیف روم میں چلے گئے تھے۔
’انھوں نے پیغام بھیجا کہ وہاں عسکریت پسند موجود ہیں۔ میں نے ان کی ٹیلیگرام پر تصویر دیکھی جس میں وہ غزہ میں نظر آ رہے ہیں۔‘
بہت سے اسرائیلی شہریوں نے حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ سکیورٹی فورسز ان کی مدد کو جلدی کیوں نہیں آ سکیں۔ حماس کے چینلز پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے اسرائیلی فوجیوں کو حراست میں لیا گیا یا ہلاک کر دیا گیا۔
،تصویر کا ذریعہSAID KHATIB/AFP
غزہ میں، جہاں اسرائیلی فوج سے چھینی گئی گاڑیوں سڑکوں پر چلتی دکھائی دیں، ابتدائی طور پر جشن منانے کی تصاویر سامنے آئیں۔ ایک نوجوان شہری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حماس نے جو کیا اس سے مجھے خوشی ہوئی، انھوں نے الاقصی میں اسرائیلی کارروائیوں کو بدلہ لیا۔‘ وہ مشرقی یروشلم میں یہودیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا حوالہ دے رہے تھے۔
واضح رہے کہ الاقصی مسجد اسلام میں تیسرا سب سے زیادہ اہم سمجھا جانے والا مقام ہے جسے یہودی ٹیمپل ماوئنٹ کہتے ہیں۔ تاہم اس شخص نے، جو اسرائیل کی جوابی کارروائی کی وجہ سے اپنے اپارٹمنٹ سے نکل رہا تھا، آنے والے وقت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔
’ہم پریشان ہیں۔ 2021 میں اسرائیل نے شوروق ٹاور کو تباہ کیا تھا تو ہمارے خاندان کی دکان بھی چلی گئی تھی۔ اس بار حماس نے بڑی کارروائی کی ہے تو اسرائیل کا ردعمل بھی زیادہ ہو گا۔‘
فلسیطین ہسپتال اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد زخمیوں سے بھر چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں تقریبا 23 لاکھ فلسطینی آباد ہیں جہاں 2007 میں حماس انتخابات جیتنے کے بعد برسراقتدار آئی تھی۔ اس وقت سے اسرائیل اور مصر نے اس پٹی کا سخت محاصرہ کر رکھا ہے جہاں غربت اور بے روزگاری کی بہتات ہے۔
2021 میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے بعد مصر، قطر اور اقوام متحدہ نے مزاکرات کروانے میں اہم کردار ادا کیا اور غزہ کی پٹی کے ہزاروں رہائشیوں کو اسرائیل میں ملازمت کی اجازت ملی۔ چند دیگر پابندیوں میں نرمی کے بعد کچھ عرصہ امن رہا۔
گذشتہ ماہ سینکڑوں فلسطینیوں نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر موجود باڑ کے قریب مظاہرے کیے تو یہ خیال کیا گیا کہ یہ حماس کی حمایت سے ہو رہے ہیں جن کا مقصد اسرائیل سے مذید رعایت حاصل کرنا اور قطر سے پیسہ لینا ہے۔ تاہم اب چند افراد کا خیال ہے کہ شاید یہ مظاہرے اس باڑ کا جائزہ لینے کے لیے ہوئے تھے جو غزہ کی پٹی اور اسرائیل کے درمیان موجود ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
حماس اس نئے آپریشن سے بطور عسکریت پسند تنظیم اپنی شہرت بڑھانے میں دلچسپی رکھتی نظر آتی ہے۔ اس تنظیم کے اعلان کردہ مقاصد میں اسرائیل کو تباہ کرنا بھی شامل ہے۔
حملے سے قبل حماس کے عسکری کمانڈر محمد دیئف نے فلسطینیوں اور عربیوں کو بھی شامل ہونے کو کہا۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ مقبوضہ غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں آباد فلسطینی کیا ان کی بات پر عمل کریں گے؟
اسرائیل اس وقت ایک جنگ کا خدشہ دیکھ رہا ہے جو متعدد محاذوں پر ایک ساتھ شروع ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کے لیے سب سے بری صورت حال یہ ہو گی کہ لبنان میں موجود حزب اللہ بھی اس میں شامل ہو جائے۔
فی الحال اسرائیلی فوج نے بڑے پیمانے پر تیاری کا آغاز کر دیا ہے۔ غزہ پر فضائی حملوں میں شدت کے ساتھ یہ عندیہ بھی دیا جا رہا ہے کہ زمینی آپریشن کی منصوبہ بندی بھی ہو رہی ہے۔ تاہم حماس کی جانب سے اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنانے کے بعد یہ معاملہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ’اس وقت ہم علاقے پر کنٹرول بحال کرنے میں مصروف ہیں اور غزہ کی پٹی کے ساتھ والے علاقوں میں زیادہ کارروائیاں کر رہے ہیں اور نظر ثانی کی جائے گی۔‘
نظر ثانی کرنے میں شاید ابھی کچھ وقت لگے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلی خدیہ ادارے اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ خود سے سوال کر رہی ہو گی کہ انھوں نے اس کارروائی کو پہلے کیوں نہیں دیکھا اور اس کے تباہ کن نتائج کو روک کیوں نہیں سکے۔
Comments are closed.