حماس کی قید سے رہائی پانے والے بدو عرب جنھیں نماز پڑھنے کی اجازت کے علاوہ کوئی رعایت نہیں دی گئی،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/REX/Shutterstock
،تصویر کا کیپشناسرائیلی فوج کے مطابق 52 سالہ قاید فرحان الکادی کو منگل کے روز ’جنوبی غزہ کی پٹی میں ایک پیچیدہ آپریشن‘ کے دوران چھڑوایا گیا تھا

  • مصنف, جارج رائٹ, یاروسلاو لوکیف
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

غزہ سے بازیاب ہونے والے ایک بدو عرب شخص کے کزن نے بتایا ہے کہ قید کے دوران حماس نے ان کے رشتے دار کو مسلمان ہونے کے ناطے نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے علاوہ اور کوئی رعایت نہیں دی۔اسرائیلی فوج کے مطابق 52 سالہ قاید فرحان الکادی کو منگل کے روز ’جنوبی غزہ کی پٹی میں ایک پیچیدہ آپریشن‘ کے دوران چھڑوایا گیا تھا۔بدھ کے روز جنوبی اسرائیل میں اپنے گاؤں واپس پہنچنے کے بعد 11 بچوں کے والد الکادی کا کہنا تھا کہ ان کی ’خوشی اس وقت تک نامکمل ہے جب تک کہ دونوں طرف قیدی موجود ہیں۔‘دریں اثنا ایک سابق اسرائیلی میئر کا کہنا ہے کہ الکادی نے آٹھ ماہ تک سورج کی روشنی نہیں دیکھی تھی۔

دوسری جانب اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اس نے گذشتہ اکتوبر میں حماس کے اسرائیل پر حملے میں مارے گئے ایک اسرائیلی فوجی کی لاش برآمد کر لی ہے۔فوجی کا نام اہل خانہ کی درخواست پر جاری نہیں کیا گیا۔اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ کہنا ہے کہ اسرائیل ڈیفنس فورسز اور ملک کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے کیا جانے والا ’جرات مندانہ آپریشن‘ تمام مغویوں کو وطن واپس لانے کے لیے حکومت کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔امریکہ، مصر اور قطر جنگ بندی معاہدے کے لیے ثالثی کی کوششیں کر رہے ہیں جس کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں حماس 103 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی جن میں سے 33 کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

الکادی کو حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے دوران اغوا کیا تھا۔ یہ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں چھڑوائے جانے والے آٹھویں یرغمالی ہیں۔الکادی بدھ کے روز ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد صحرائے نیگیو میں واقع اپنے آبائی گاؤں کرکور واپس پہنچ گئے ہیں۔نامہ نگاروں اور بدو کمیونٹی کے ارکان کے درمیان گھرے الکادی نے تمام یرغمالیوں کی رہائی کی درخواست کی ہے۔’اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیا وہ عرب ہیں یا یہودی، سب کے خاندان ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ بھی ایسی خوشی محسوس کرنا چاہتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ وہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے دعا گو ہیں۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ منگل کے روز جب ان کی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو سے فون پر بات ہوئی تو ان کو بھی انھوں نے یہی پیغام دیا تھا۔’میں نے کل نیتن یاہو سے کہا، اس کو ختم کرنے کے لیے کام کریں۔‘جنوبی اسرائیلی قصبے راحت کے سابق میئر عطا ابو میڈیگام کا اسرائیلی اخبار ہیرٹس سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 11 بچوں کے والد الکادی نے ’انتہائی ظالمانہ اسیری‘ کے دوران گزارے اپنے ’مشکل دنوں‘ کے بارے میں اپنے رشتہ داروں کو بتایا ہے۔میڈیگام کے مطابق الکادی نے ’یرغمالیوں میں سے ایک کے بارے میں بات کی جو ان کے ساتھ دو ماہ تک قید رہے اور پھر ان کے سامنے ہی وہ مر گئے۔‘سابق میئر کا کہنا تھا کہ اسیری کے دوران الکادی کو اپنی بینائی کھونے کا ڈر ہونے لگا تھا۔ان کے مطابق الکادی اپنی آنکھوں پر انگلیاں رکھ کر یہ تسلی کرنے کی کوشش کرتے کہ آیا ان کی آنکھیں اب بھی کام کر رہی ہیں یا نہیں۔اسرائیلی فوج کا کہنا نے کہا کہ ان کی فورسز کو آپریشن کے دوران الکادی ایک زیر زمین سرنگ میں اکیلے ملے تھے۔،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن20 جنوری 2024 کو اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کی گئی ایک زیرِ زمین سیل کی تصویر جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہاں حماس اپنے قیدیوں کو رکھتی تھی
ان کا مزید کہنا تھا ہے کہ دیگر یرغمالیوں اور افواج کی حفاظت، اور قومی سلامتی کے پیشِ نظر وہ ریسکیو کے بارے میں مزید تفصیلات شائع نہیں کر سکتے ہیں۔تاہم الکادی کے اسیری کے دنوں کے بارے میں کچھ تفصیلات سامنے آ رہی ہیں۔ان کے کزن فادی ابو صاحبان نے دعویٰ کیا ہی کہ اغواکاروں نے الکادی کو مسلمان ہونے کے ناطے کوئی رعایت نہیں دی تھی۔انھوں نے اپنے کزن کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیلی اخبار ہیرٹس کو بتایا کہ الکادی کے مطابق ’انھوں نے اسے نماز پڑھنے کی اجازت دی، صرف یہی انھوں نے اسے کرنے دیا۔‘ابو صاحبان کا کہنا ہے کہ الکادی نے انھیں بتایا ہے کہ ان کے پاس بیرونی دنیا سے رابطے کا کوئی طریقہ نہیں تھا اور انھیں مسلسل کسی بم کے گرنے کا خوف رہتا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ الکادی کو ’اسرائیل ڈیفنس فورسز کی گولہ باری سنائی دیتی تھی‘ اور ان کا جسم خوف سے کانپتا رہتا تھا۔’ہر روز انھیں یقین ہوتا کہ وہ ان کا آخری دن ہے۔‘ ابو صاحبان کا کہنا ہے کہ الکادی کے مطابق اس خوف کی وجہ اغوا کار نہیں تھے بلکہ اسرائیلی فوج کی جانب سے کی جانے والی گولہ باری بھی تھی۔الکادی اسرائیل-غزہ سرحد کے قریب واقع قصبے کبوٹس میگن میں کئی سالوں سے سیکورٹی گارڈ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور یہیں سے انھیں اغوا کیا گیا تھا۔گزشتہ سال سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے دوران تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 251 دیگر کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر حملہ کر دیا تھا۔ حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، اس جنگ کی آغاز کے بعد سے اب تک غزہ میں 40,530 سے ​​زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔حالیہ دنوں میں قاہرہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بالواسطہ بات چیت جاری ہے لیکن فی الحال اہم نکات پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی ہے۔خیال رہے کہ الکادی اکلوتے بدو عرب نہیں جو حماس کی قید میں تھے۔ ان کے علاوہ یوسف زیدنا اور ان کے بیٹے حمزہ دو دیگر بدو عرب ہیں جو ابھی تک حماس کی قید میں زندہ ہیں جبکہ تیسرے بدو محمد التراش کی لاش اب بھی حماس کے پاس ہے۔ایک اور بدو ہشام السید 2015 سے غزہ میں قید ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}