حماس کا جنگ بندی کی پیشکش پر جواب: ’پہلے اسرائیلی فوج غزہ سے مکمل انخلا کرے‘،تصویر کا ذریعہReuters
،تصویر کا کیپشنحماس نے غزہ سے اسرائیلی فورسز کے انخلا کا مطالبہ کیا ہے

  • مصنف, ایڈو ووک اور لیس ڈوسیٹ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 2 گھنٹے قبل

حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے کے جواب میں عارضی طور پر جنگ میں وقفے کی پیشکش کی ہے۔ اسرائیل، امریکہ، قطر اور مصر کی جانب سے تیار کردہ جنگ میں وقفے کے معاہدے کی تفصیلات اب تک منظرِ عام پر نہیں آئیں۔ اس سے قبل یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ معاہدے میں چھ ہفتوں کی عارضی جنگ بندی اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی تجویز دی گئی ہے۔اسرائیل اور امریکہ دونوں نے کہا ہے کہ وہ مجوزہ معاہدے پر حماس کے جواب کا جائزہ لے رہے ہیں۔برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے حماس کی جانب سے مجوزے معاہدے پر دیا گیا جواب حاصل کرلیا ہے۔

حماس کی جانب سے پیش کی گئی سفارشات

حماس کا کہنا ہے کہ:

  • فریقین پہلے 45 دن کے لیے جنگ میں وقفے کا اعلان کریں۔ اس دوران تمام اسرائیلی خواتین، 19 برس سے کم عمر لڑکے اور بیمار یرغمالیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی خواتین اور بچوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔
  • اسرائیلی فوج غزہ کے آباد علاقوں سے باہر نکلے اور ہسپتالوں اور پناہ گزینوں کے کیمپس کی بحالی کا کام شروع کیا جائے
  • دوسرے مرحلے میں فلسطینی قیدیوں کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا اور اسرائیل کی تمام فورسز کا غزہ سے مکمل طور پر انخلا ہوگا۔
  • تیسرے اور آخری مرحلے میں دونوں فریقین ہلاک ہوجانے والے افراد کی لاشوں اور باقیات کا تبادلہ کریں گے۔

امریکہ کے سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن اس وقت مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی جانب سے دیے گئے جواب پر بدھ کو اسرائیلی حکام سے بات چیت کریں گے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اس مجوزے معاہدے پر حماس کے جواب کو ‘مشکل’ قرار دیتے ہوئے یہ تاثر دیا ہے کہ حماس کے جانب سے کیے گئے مطالبات پر اسرائیلی حکام آسانی سے راضی نہیں ہوں گے۔تاہم امریکی سیکریٹری خارجہ کا کہنا ہے کہ مستقل جنگ بندی کے لیے ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ خطے میں مستقل امن بحال کرنا انتہائی ضروری ہے۔حماس کی جانب سے غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ شاید اسرائیل کی جانب سے مسترد کردیا جائے۔اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ انھیں حماس کی تجاویز موصول ہوگئی ہیں اور ان کا ‘جائزہ’ لیا جا رہا ہے۔

حماس کو یہ مجوزہ معاہدہ تقریباً ایک ہفتے قبل بھیجا گیا تھا لیکن تنظیم کے ایک نمائندے کے مطابق وہ اس کا جواب منگل کو دے پائے ہیں کیونکہ اس کے کچھ حصے ‘غیر واضح’ تھے۔قطر کے وزیرِ اعظم محمد بن عبدالرحمٰن بن جاسم الثانی نے حماس کے جواب کو مجموعی طور پر ‘مثبت’ قرار دیا ہے۔غزہ میں تنازع کی ابتدا گذشتہ برس 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد ہوئی تھی جس میں تقریباً 1300 اسرائیلی شہری ہلاک اور 250 یرغمال بنالیے گئے تھے۔غزہ میں حماس کے زیرِ اثر وزارتِ صحت کے مطابق اس تنازع کے دوران اب تک غزہ میں 27 ہزار 500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔حماس کو متعدد ممالک کی جانب سے دہشتگرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔نومبر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے دوران 205 اسرائیلی اور غیرملکی یرغمالیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید 240 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔دونوں فریقین میں کسی بھی قسم کے معاہدے کے وقت کے تعین میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ رواں ہفتے اسرائیل کے حکام کہہ چکے ہیں کہ ان کی فوج غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کی گرفتاری کے سلسلے میں ‘آگے بڑھ رہی ہے۔’تاہم اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو حماس کے پاس موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے شدید اندرونی دباؤ کا شکار ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنغزہ میں حماس کے زیرِ اثر وزارتِ صحت کے مطابق اس تنازع کے دوران اب تک غزہ میں 27 ہزار 500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں
امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کی تل ابیب آمد کو خطے میں پیدا ہونے والے ایک بحران کو روکنے کی کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے اور ان کی اسرائیل میں موجودگی کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے پر پیشرفت کو یقینی بنانا ہے۔خیال رہے گذشتہ ہفتے اردن میں ایک ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد امریکہ نے اس تنازع کو خطے کے دیگر ممالک تک پھیلنے سے روکنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔اردن میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ نے شام اور عراق میں ایران کے حامی مسلح گروہوں کو نشانہ بنایا تھا۔امریکہ کی جانب سے خطے میں مزید تناؤ کو بڑھنے سے روکنے کے لیے عارضی جنگ بندی کے معاہدے کو ایک حقیقت پسندانہ عمل قرار دیا جا رہا ہے۔واضح رہے منگل کو اسرائیل نے تصدیق کی تھی کہ غزہ میں موجود 136 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے 31 افراد مارے جا چکے ہیں۔اسرائیلی ڈیفنس فررسز (آئی ڈی ایف) کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہگاری کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کے خاندانوں کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ حکام زندہ بچ جانے والے یرغمالیوں کی رہائی کی کوشش کرتے رہیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ہماری اخلاقی، قومی اور بین الاقوامی ذمہ داری ہے کہ انھیں بازیاب کروائیں اور ہم اپنا کام اسی طرح جاری رکھیں گے۔’

شام میں اسرائیلی حملے

دوسری جانب شامی فوج کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے لبنان کے شمال میں واقع شامی علاقے حمص میں اہداف کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق شامی فورسز کی جانب سے اسرائیلی میزائل بھی گرائے گئے ہیں۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو شامی فوج کے ایک ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل نے حمص میں شیعرات ایئر بیس اور دیگر مقامات پر حملے کیے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنشام کے سرکاری میڈیا کے مطابق شامی فورسز کی جانب سے اسرائیلی میزائل بھی گرائے گئے ہیں
اکتوبر میں غزہ میں جنگ کی ابتدا کے بعد اسرائیل نے ایران کے حامی گروہوں پر حملے تیز کر دیے ہیں۔جنگی حالات پر نظر رکھنے والے ادارے ‘سیرین آبزویٹری فار ہیومن رائٹس’ کا کہنا ہے کہ منگل کو اسرائیل حملوں میں شام میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔شام کے سرکاری میڈیا کی جانب سے اسرائیلی حملے کے مقامات کی طرف ایمبولینسز کے جانے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ جبکہ دھماکے کی جگہ ملبے کا ڈھیر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔’سیرین آبزویٹری فار ہیومن رائٹس’ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد میں دو شامی شہری بھی شامل ہیں۔شام میں برسوں سے اسرائیلی حملے جاری ہیں اور حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ایران سے تعلق رکھنے والے عناصر کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔شام میں ایرانی فورسز ملک میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کی ابتدا سے موجود ہیں۔ ایرانی فورسز نے شامی صدر بشا الاسد کے خلاف بغاوت کچلنے میں حکومت کی مدد کی تھی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}