حماس پر اسرائیلی خواتین کے مبینہ ریپ اور جنسی تشدد کا الزام: اسرائیلیوں نے برطانوی ارکان پارلیمان کے سامنے کیا گواہیاں پیش کیں؟
- مصنف, لوسی میننگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 32 منٹ قبل
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی میتوں کی ابتدائی جانچ والے اسرائیلیوں نے برطانوی اراکین پارلیمان کے سامنے دعویٰ کیا ہے کہ (متاثرہ اسرائیلی) خواتین کے جنسی اعضا کو ’جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے مسخ‘ کیا گیا اور اس میں ’کوئی شبہ‘ نہیں کہ چند متاثرہ خواتین کو جنسی حملوں کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔برطانوی بزنس سیکریٹری اور وزیر برائے خواتین کیمی بادینوک کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فراہم کی جانے والی ان اطلاعات کی مکمل تحقیقات کی جانی چاہییں اور جنسی حملوں کی مذمت کی جانی چاہیے۔حماس نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ انھوں نے اسرائیل پر حملوں کے دوران اسرائیلی خواتین کو جنسی حملوں کا نشانہ بنایا۔لیکن اسرائیل پولیس کے ایک سینیئر افسر کا کہنا ہے کہ ان کی فورس کے پاس ’واضح ثبوت‘ موجود ہیں جن کی بِنا پر کہا جا سکتا ہے کہ حماس کے حملوں کے دوران بڑے پیمانے پر جنسی تشدد ہوا ہے جسے انسانیت کے خلاف جُرم قرار دیا جا سکتا ہے۔
انتباہ: اس رپورٹ کے کچھ حصے قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتے ہیں۔7 اکتوبر کو غزہ سے سینکڑوں مسلح افراد جنوبی اسرائیل میں داخل ہو کر حملہ آور ہوئے تھے اور مختلف اطراف سے کیے گئے ان حملوں میں 1300 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کے غزہ پر جوابی حملوں میں اب تک 26 ہزار 900 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔برطانوی اراکین پارلیمنٹ اور ہاؤس آف لارڈز کے اراکین، جو اسرائیلیوں کی حماس کے حملوں کے حوالے سے گواہیاں سُن رہے تھے، بدھ کے روز ہونے والے اجلاس میں روتے ہوئے نظر آئے۔شاری مینڈس پیشے کے اعتبار سے آرکیٹیکٹ ہیں۔ 7 اکتوبر کے حملوں کے فوراً بعد اسرائیلی حکام نے انھیں میڈیکل سٹاف کی مدد کے لیے بطور ریزرو اہلکار بُلایا تھا اور انھیں ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ ’شوریٰ‘ نامی فوجی ایئربیس پر پہنچنے والی اسرائیلی خواتین کی شناخت کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بہت ساری خواتین کے زیر جامے پھٹے ہوئے اور خون آلود تھے جبکہ بعض خواتین مکمل طور پر برہنہ تھیں۔‘انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہماری ٹیم کی کمانڈر نے متعدد اسرائیلی خواتین فوجی اہلکاروں کو دیکھا جن کی وجائنا (اندام نہانی) یا چھاتیوں پر گولیاں ماری گئیں تھیں۔ یہ ناقابلِ برداشت تھا۔ یہ جان بوجھ کر ایک منظم طریقے سے کی گئی جنسی اعضا کی بے حرمتی تھی۔‘شاری مینڈس کا کہنا تھا کہ اُن کے یونٹ نے ایسی بہت سے لاشوں کی شناخت کی جن کے سر دھڑ سے جدا کر دیے گئے تھے یا دیگر اعضا کاٹے گئے تھے۔انھوں نے کہا کہ ’میں یہاں اُن سب کی آواز بننے کے لیے موجود ہوں۔‘سِمچا گرینیمان ’زکا‘ نامی تنظیم کی رضاکار ہیں جو کہ ایک اسرائیلی مذہبی تنظیم ہے اور جس کا کام ہلاک ہونے اسرائیلیوں کی تدفین کرنا تھا۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے حماس کے حملے کے بعد کئی لاشیں اٹھائیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک گھر میں ہم نے ایک خاتون کی میت دیکھی جنھیں ان کے اہلخانہ سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ وہ اپنے بیڈروم میں تھیں اور بیڈ پر پڑی تھیں۔‘اس واقعے کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’وہ نیم برہنہ تھیں۔ ان کے سر کے پچھلے حصے میں گولی ماری گئی تھی جبکہ ان کے ہاتھ میں ایک دستی بم پکڑا دیا گیا تھا۔‘وہ کہتے ہیں انھیں ایک اور خاتون کی میت ملی جن کے ’جسم اور اعضائے مخصوصہ میں کیلیں اور دیگر چیزیں موجود تھیں۔‘انھوں نے مزید بتایا کہ ’یہ سب کچھ ایسا تھا جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔‘سِمچا کو یقین ہے کہ کچھ متاثرہ خواتین پر واضح طور پر جنسی حملہ کیا گیا تھا۔’اس (جنسی حملہ کرنے) میں کوئی شبہ ہی نہیں، میں ان چیزوں سے نمٹ رہا تھا، میں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھا ہے۔‘’میں یہاں یہ کہنے کے لیے موجود ہوں کہ ہاں ایسا ہی ہوا تھا۔ اور دںیا کو دِکھانا ہے کہ ہم سچ بول رہے ہیں۔ دنِیا کو یہ سمجھنا ہو گا اور اس کا سدِباب کرنا ہو گا۔‘انھوں نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ ان جرائم کے ذمہ داروں کو سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے۔ ’انھوں نے جو کیا اس کی قیمت انھیں ادا کرنی چاہیے۔‘سِمچا اور شاری دونوں جنسی جرائم کی تشخیص پر مہارت نہیں رکھتے لیکن ان کی گواہیاں اسرائیلی حکام کے فراہم کردہ شواہد سے مطابقت رکھتی ہیں۔ یہ شواہد فرانزک تحقیقات، سینکروں گواہوں اور جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچنے والے افراد کی گواہیوں کی مدد سے جمع کیے گئے ہیں۔اسرائیلی پولیس کی چیف سپرنٹینڈنٹ میرت بین میئر نے اراکینِ پارلیمنٹ کو بتایا کہ مختلف مقامات سے (اس ضمن میں) ثبوت اکٹھے کرنا آسان نہیں تھا، ثبوت اکھٹے کرنا اس لیے بھی آسان نہیں تھا کیونکہ بہت سارے افراد قتل ہوئے تھے۔انھوں نے مزید کہا کہ ’واضح ثبوت موجود ہیں کہ متاثرہ افراد کے ساتھ ریپ اور جنسی جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ ہم انسانیت کے خلاف جرائم کی مزید تحقیقات کر رہے ہیں۔‘بی بی سی کی جانب سے ایسے ثبوت دیکھے اور سُنے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کے ریپ کیے گئے اور جنسی اعضا مسخ کیے گئے۔ ان ثبوتوں میں نووا میوزک فیسٹول میں موجود عینی شاہدین کے بیانات، حماس کے مسلح افراد کی جانب سے بنائی گئی خواتین کی خون آلود اور برہنہ ویڈیوز اور حملوں کے مقامات پر بنائی گئی تصاویر شامل ہیں۔اگم برجر نامی 19 سالہ یرغمالی کی ایک کزن کا کہنا ہے کہ انھیں نہیں معلوم کہ ان کی کزن اتنے عرصے قید کے بعد زندہ بھی رہنا چاہتی ہیں یا نہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ’آپ واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ ہر گزرتے منٹ کے ساتھ ہماری پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے کہ ہماری خواتین اور بچیاں ان حیوانوں کے ہاتھ میں ہیں۔‘’وہ 117 دنوں سے وہاں موجود ہیں۔ اگر وہ حاملہ ہوئیں تو کیا ہو گا؟‘برطانوی وزیر کیمی بادینوک کا کہنا ہے کہ برطانیہ حماس کے حملوں سے متاثرہ افراد کے ساتھ کھڑا ہے۔ انھوں نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ ان کی جانب سے واضح طور پر اسرائیلوں کے خلاف ہونے والی جنسی حملوں کی مذمت کی جائے۔اسرائیل حکام اور انسانی حقوق کے کارکنان نے الزام عائد کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں جنسی حملوں کے الزامات پر ردِعمل دینے میں تاخیر کر رہی ہیں۔پیر کو اقوامِ متحدہ کی نمائندہ پرامیلا پیٹن اسرائیل پہنچی تھیں اور انھوں نے اسرائیل میں حماس کے حملوں سے متاثر ہونے والے افراد کو کہا تھا کہ ’برائے مہربانی آگے بڑھیں، اپنی خاموشی توڑیں کیونکہ آپ کی خاموشی مجرموں کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کا ایک لائسنس بن سکتی ہے۔‘انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں لوگوں کو انصاف ملے اور ان سنگین جرائم کا خاتمہ ہو۔‘اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ جنسی تشدد کا عمل ’بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی جو کہ جنگی جرائم کے مترادف ہے۔ ان حملوں سے قبل پلاننگ اور متاثرہ افراد کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ سے انھیں انسانیت کے خلاف جُرم بھی کہا جا سکتا ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.