حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ گزشتہ 11 ماہ سے ہی جاری تھا جن میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر حملے کے بعد سے شدت آئی تھی۔اس تحریر میں جانتے ہیں کہ حزب اللہ نامی تنظیم ہے، یہ کس طرح وجود میں آئی اور اس کے پاس کتنے فوجی اور کیسے ہتھیار ہیں؟،تصویر کا ذریعہReuters
حزب اللہ
حزب اللہ لبنان میں شیعہ مسلمانوں کی ایک انتہائی طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم خیال کی جاتی ہے۔ ایران کی پشت پناہی سے سنہ 1980 کی دہائی میں تشکیل پانے والی یہ جماعت لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلا کے لیے مسلسل جدوجہد کرتی رہی ہے۔ حزب اللہ کا لغوی مطلب ’خدا کی جماعت‘ کے ہیں۔لبنان پر اسرائیلی قبضے کے بعد شیعہ علما کے ایک چھوٹے سے گروہ کی اعانت سے اُبھرنے والی اس تنظیم کے اولین مقاصد میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور لبنان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا تھا۔سنہ 1992 سے حسن نصراللہ اس کے سربراہ ہیں جبکہ اس تنظیم کو مئی 2000 میں اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی جب اسرائیل نے وہاں سے مراجعت کی۔ اس عمل کے پس منظر میں حزب اللہ کے عسکری ونگ ’اسلامک ریزسسٹینس‘ کا ہاتھ تھا۔اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لبنان کی کثیر المذہبی ریاست کی جگہ لبنان میں ایرانی طرز کی اسلامی ریاست بنائی جائے مگر بعد میں اسے یہ خیال ترک کرنا پڑا۔ایران کی طرف سے حزب اللہ کو ایک طویل عرصے تک مالی اور عسکری مدد فراہم کی جاتی رہی ہے۔ لبنان میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور یہ تحریک لبنان میں بسنے والے شیعہ فرقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلا سے اس تنظیم نے عام لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔اب لبنان کی پارلیمان میں اس جماعت کے امیدواروں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ہی سماجی، معاشرتی اور طبی خدمات کے حوالے سے اس تنظیم نے لوگوں میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ جماعت کا اپنا ٹی وی سٹیشن ’المینار‘ کے نام سے قائم ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کون ہیں؟
حسن نصر اللہ 1992 سے حزب اللہ کی قیادت کر رہے ہیں جنھوں نے اس تنظیم کو سیاسی اور عسکری طاقت میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اس گروپ کو اس وقت لبنان کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں شمار کیا جاتا ہے جس کا اپنا مسلح ونگ بھی ہے۔حسن نصراللہ، جو لبنان اور دیگر عرب ممالک دونوں میں مقبول ہیں، حزب اللہ کا مرکزی چہرہ سمجھے جاتے ہیں اور انھوں نے اس گروہ کی تاریخ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ایران اور ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای سے ان کے قریبی روابط ہیں۔ کئی برس سے حسن نصر اللہ عوامی سطح پر سامنے نہیں آئے ہیں جس کی وجہ اسرائیل کی جانب سے ممکنہ قاتلانہ حملے بتائے جاتے ہیں۔تاہم حسن نصر اللہ حزب اللہ کے لیے نہایت قابل احترام شخصیت ہیں جن کے خطابات باقاعدگی سے ہر ہفتے ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں۔یہ تقاریر دراصل طاقت کے استعمال کے لیے نصر اللہ کا اہم ہتھیار ہیں اور اس طرح وہ لبنان اور دنیا کے مختلف مسائل پر تبصرہ کرتے ہیں اور اپنے حریفوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesحزب اللہ پر کئی سالوں سے خاص طور پر اسرائیلی اور امریکی اہداف کے خلاف بم دھماکے اور سازشیں کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ اسے مغربی ریاستوں، اسرائیل، خلیجی عرب ممالک اور عرب لیگ نے ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دے رکھا ہے۔حزب اللہ کو شام کے صدر بشار الاسد کا ایک کٹر اتحادی سمجھا جاتا ہے اور اس نے شام کی خانہ جنگی کے دوران مسٹر اسد کی طرف سے لڑنے کے لیے ہزاروں عسکریت پسند بھیجے۔ شام کی خانہ جنگی سنہ 2011 میں شروع ہوئی اور یہ تنازع شدت اختیار کرتا گیا۔ حکومت کی حامی افواج کو حزب اللہ کا ساتھ باغیوں کے ہاتھوں جانے والی زمین کو دوبارہ حاصل کرنے میں فیصلہ کن ثابت ہوا، خاص طور پر پہاڑی لبنانی سرحد کے ساتھ۔اسرائیل اکثر شام میں ایران اور حزب اللہ کے عسکریت پسندوں سے منسلک اہداف پر حملے کرتا ہے، لیکن وہ ان حملوں کو شاذ و نادر ہی تسلیم کرتا ہے۔تاہم شام میں حزب اللہ کی شمولیت نے لبنان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو تیز کر دیا ہے۔شام کے علوی شیعہ صدر کے لیے حزب اللہ کی حمایت اور ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات کی وجہ سے خلیجی عرب ممالک کی طرف سے دشمنی میں گہرا اضافہ دیکھا گیا ہے۔حزب اللہ کی فوجی، سکیورٹی، اور سیاسی طاقت کے ساتھ ساتھ اس کی فراہم کردہ سماجی خدمات نے ریاست کے اندر ایک ریاست کے طور پر اس کی ساکھ قائم کی ہے۔ اس کا حکومتی اداروں سے مقابلہ ہے جس کی وجہ سے اس کے حریفوں کی طرف سے اس کی سخت تنقید کی جاتی ہے۔ بعض معاملوں میں اب اس کی صلاحیتیں لبنانی فوج سے زیادہ ہیں اور سنہ 2006 کی جنگ میں اسرائیل کے خلاف ان کی عسکری قوت کا خاطر خواہ استعمال بھی کیا گيا ہے۔کچھ لبنانی حزب اللہ کو ملک کے استحکام کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، لیکن یہ شیعہ برادری میں مستقل طور پر مقبول ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
حزب اللہ کا اسرائیل مخالف مؤقف
حزب اللہ کی ابتدا کی درست نشاندہی کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے پیش رو سنہ 1982 میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے حملوں کے جواب میں جنوبی لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد اُبھرے۔اس حملے کے بعد عسکریت پسندوں کے ردعمل کے حامی شیعہ رہنما عمال تحریک سے الگ ہو گئے۔نئی تنظیم، اسلامی عمال کو وادی بیکاہ میں واقع ایران کے پاسداران انقلاب کی طرف سے کافی عسکری اور تنظیمی حمایت حاصل ہوئی، اور یہ شیعہ ملیشیا میں سب سے نمایاں اور موثر بن کر ابھری جس نے بعد میں حزب اللہ کی بنا رکھی۔ان ملیشیا گروپوں نے اسرائیلی فوج اور اس کی اتحادی جنوبی لبنان آرمی کے ساتھ ساتھ لبنان میں غیر ملکی طاقتوں پر حملے شروع کر دیے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سنہ 1983 میں امریکی سفارت خانے اور امریکی میرین بیرکوں پر ہونے والے بم دھماکوں میں ان کا ہاتھ تھا، جس کے نتیجے میں 258 امریکی اور 58 فرانسیسی فوجی مارے گئے تھے اور مغربی امن دستوں کو انخلا پر مجبور ہونا پڑا تھا۔سنہ 1985 میں حزب اللہ نے باضابطہ طور پر ایک ‘کُھلا خط’ شائع کرکے اپنے قیام کا اعلان کیا جس میں امریکہ اور سوویت یونین کو اسلام کے بنیادی دشمنوں کے طور پر شناخت کیا گیا اور اسرائیل کے ‘خاتمے’ کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کر رہا ہے۔
سنہ 1989 کے طائف معاہدے نے، جس نے لبنان کی خانہ جنگی کا خاتمہ کیا اور ملیشیاؤں کو غیر مسلح کرنے پر زور دیا، اس نے حزب اللہ کو اپنے فوجی ونگ کو ایک ‘اسلامی مزاحمت’ فورس کے طور پر تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جو اسرائیل کے قبضے کو ختم کرنے کے لیے وقف ہے، اور اسے اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت دی۔1990 میں شامی فوج کی طرف سے لبنان میں امن قائم کرنے کے بعد حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں اپنی گوریلا جنگ جاری رکھی، لیکن لبنان کی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کرنا شروع کیا۔ 1992 میں اس نے پہلی بار قومی انتخابات میں کامیابی سے حصہ لیا۔جب سنہ 2000 میں اسرائیلی فوجیں پیچھے ہٹ گئیں تو حزب اللہ کے سر ان کو باہر دھکیلنے کا سہرا باندھا گیا۔ اس گروپ نے غیر مسلح کرنے کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کی اور جنوب میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھا، شیبا فارمز اور دیگر متنازع علاقوں میں مسلسل اسرائیلی موجودگی کے جواز کے طور پر انھوں نے خود کو مسلح رکھا۔سنہ 2006 میں حزب اللہ کے عسکریت پسندوں نے سرحد پار سے حملہ کیا جس میں آٹھ اسرائیلی فوجی مارے گئے اور دو کو اغوا کر لیا گیا، جس سے اسرائیل کی طرف سے زبردست ردعمل سامنے آیا۔اسرائیلی جنگی طیاروں نے جنوبی لبنان اور بیروت کے جنوبی مضافات میں حزب اللہ کے مضبوط ٹھکانوں پر بمباری کی، جب کہ حزب اللہ نے اسرائیل پر تقریباً 4000 راکٹ داغے۔ 34 روزہ لڑائی کے دوران 1,125 سے زیادہ لبنانی، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، کے ساتھ ساتھ 119 اسرائیلی فوجی اور 45 عام شہری مارے گئے۔حزب اللہ اسرائیل کے خلاف اس جنگ میں بچ گئی اور حوصلے کے ساتھ ابھری۔ اگرچہ اس کے بعد سے اس نے اپنے ہتھیاروں کو اپ گریڈ اور بڑھانا شروع کیا اور کئی نئے جنگجو بھی بھرتی کیے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
حزب اللہ کی قوت میں اضافہ
سنہ 2008 میں جب لبنان کی مغربی حمایت یافتہ حکومت نے حزب اللہ کے نجی ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک کو بند کرنے اور بیروت کے ہوائی اڈے کے سکیورٹی چیف کو گروپ سے تعلقات کی وجہ سے ہٹانے کے لیے اقدام کیے تو حزب اللہ نے دارالحکومت کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا اور حریف سنی گروپس سے لڑ کر اپنا جواب دیا۔فرقہ وارانہ جھڑپوں کو ختم کرنے کے لیے لبنان کی حکومت پیچھے ہٹ گئی کیونکہ اس میں 81 افراد کو ہلاک ہو گئے تھے اور لبنان ایک نئی خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گيا تھا۔ اس کے بعد اقتدار کی شيئرنگ کے معاہدے نے حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کو کابینہ کے کسی بھی فیصلے کو ویٹو کرنے کا اختیار دیا۔سنہ 2009 کے انتخابات میں اس نے پارلیمنٹ میں 10 نشستیں حاصل کیں اور متحدہ حکومت میں شامل رہی۔اسی سال کے آخر میں حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصر اللہ نے ایک نیا سیاسی منشور جاری کیا جس میں گروپ کے ’سیاسی وژن‘ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔اس نے 1985 کے منشور میں شامل اسلامی جمہوریہ کا حوالہ چھوڑ دیا، لیکن اسرائیل اور امریکہ کے خلاف سخت موقف برقرار رکھا اور کہا کہ حزب اللہ کو اپنے ہتھیار رکھنے کی ضرورت ہے۔سنہ 2011 میں گروپ اور اس کے اتحادیوں نے سعودی حمایت یافتہ سنی سعد حریری کی قیادت والے اتحاد کی حکومت کو تحلیل کرنے پر مجبور کیا۔ حزب اللہ نے خبردار کیا کہ وہ اس کے ساتھ نہیں رہے گا کیونکہ اس کے چار ارکان پر 2005 میں مسٹر حریری کے والد رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ دسمبر 2020 میں، حزب اللہ کے رکن سلیم عیاش کو قتل میں ملوث ہونے پر اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ خصوصی ٹریبونل برائے لبنان نے غیر حاضری میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔حزب اللہ اور اس کے اتحادی اس کے بعد کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں، جہاں وہ کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
حماس سے زیادہ طاقتور
حزب اللہ جو کہ لبنانی عسکری، سیاسی اور سماجی تحریک ہے اسے اسرائیل نے ایک طویل عرصے سے حماس سے زیادہ طاقتور قوت کے طور پر دیکھا ہے۔حزب اللہ دنیا میں ایک ایسی غیر سرکاری مسلح طاقت کے طور پر جانی جاتی ہے جسے ایران کی جانب سے اسلحہ اور پیسہ دونوں دستیاب ہیں۔حسن نصر اللہ کا دعوی ہے کہ ان کی تنظیم کے پاس ایک لاکھ جنگجو ہیں تاہم دیگر خود مختار تخمینوں کے مطابق یہ تعداد 20 سے 50 ہزار کے درمیان ہو سکتی ہے۔ یہ جنگجو تربیت یافتہ ہیں اور انھیں شام کی خانہ جنگی میں لڑنے کا تجربہ بھی ہے۔سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے مطابق بھاری ہتھیاروں سے لیس ایرانی حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ کے پاس اندازاً 130,000 راکٹ اور میزائل ہیں۔ان ہتھیاروں میں سے زیادہ تر چھوٹے ہیں اور یہ کسی شخص کے لیے قابل نقل و حمل ہیں، یہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے ان گائيڈڈ راکٹ ہیں۔ لیکن ان میں طیارہ شکن اور جہاز شکن میزائلوں کے ساتھ ساتھ گائیڈڈ میزائل بھی شامل ہیں جو اسرائیل کے اندر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ ہتھیار حماس کے پاس موجود ہتھیار سے زیادہ جدید قسم کے ہیں۔یروشلم میں موجود بی بی سی کے انٹرنیشنل مدیر جیریمی بوون کا تجزیہ ہے کہ حزب اللہ حماس سے زیادہ ہتھیار رکھنے کے ساتھ ساتھ بہتر تربیت یافتہ بھی ہے اور شام میں کئی سال کی جنگ کی وجہ سے اس کے جنگجو بہت تجربہ رکھتے ہیں۔ان کے مطابق ایک جانب جہاں غزہ کی پٹی میں حماس نے ریت میں خندقیں کھود رکھی تھیں وہیں لبنان کے جنوب میں پتھریلی اور پہاڑوں والی زمین میں بھی حزب اللہ کی خندقیں ضرور ہیں لیکن وہ ریت کے بجائے پتھر سے بنی ہیں۔جیریمی کے مطابق اسرائیل چاہتا ہے کہ ملک کے شامل میں بسنے والے ساٹھ ہزار اسرائیلی شہریوں کی اپنے گھروں کو واپسی ممکن بنانے کے لیے حزب اللہ کو سرحد سے دور دھکیلنا اور ان کی عسکری طاقت کو ختم کرنا ضروری ہے۔تاہم ان کے مطابق اسرائیل ایسا کرنے میں کامیاب ہو گا یا نہیں، یہ اہم سوال ہے خصوصا اس صورت حال میں جب حزب اللہ سرحد کے پار اسرائیل میں راکٹ داغتا رہا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.