- مصنف, جیریمی بوؤن
- عہدہ, انٹرنیشنل ایڈیٹر، بی بی سی نیوز
- 9 منٹ قبل
اسرائیل کے رہنما حزب اللہ کے خلاف کارروائی میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں خوش ہیں، وہ کارروائی جو دھماکہ خیز مواد سے لیس پیجرز اور واکی ٹاکیز کے پھٹنے سے شروع ہوئی اور شدید اور مہلک فضائی حملوں کی شکل میں اب بھی جاری ہے۔اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ پیر کے روز جنوبی لبنان کے علاقوں پر کیے گئے فضائی حملوں کے بعد اپنی تعریف سے باز نہیں رہ سکے۔ اُن کا کہنا تھا ’آج ایک شاہکار تھا۔۔۔ حزب اللہ کے قیام کے بعد سے یہ (اُن کے لیے) بدترین ہفتہ تھا، اور نتائج خود ہی بولتے ہیں۔‘گیلنٹ نے کہا کہ اسرائیلی فضائی حملوں کی مدد سے ایسے ہزاروں راکٹ بھی تباہ کیے گئے جن سے اسرائیلی شہری ہلاک ہو سکتے تھے جبکہ لبنان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 50 بچوں سمیت اس کے 550 سے زائد شہریوں کو اس حملوں میں قتل کیا ہے۔ یہ سنہ 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ہونے والی ایک ماہ کی جنگ کے دوران لبنان میں ہونے والی ہلاکتوں کا لگ بھگ نصف ہے۔اسرائیل کا خیال ہے کہ ایک زبردست حملہ حزب اللہ کو وہ کرنے پر مجبور کرے گا جو وہ (اسرائیل) چاہتا ہے یعنی یہ اسے اس قدر تکلیف پہنچائے گا کہ اس کے رہنما حسن نصر اللہ اور ایران میں اس کے اتحادی اور حمایتی فیصلہ کریں گے کہ مزاحمت کی یہ قیمت بہت زیادہ ہے۔
اسرائیل کے سیاستدانوں اور جرنیلوں کو فتح درکار ہے۔ تقریباً ایک سال کی جنگ کے بعد غزہ اُن کے لیے دلدل بن چکا ہے۔ حماس کے جنگجو اب بھی اسرائیلی فوجیوں کو مارنے اور زخمی کرنے کے لیے سرنگوں اور کھنڈرات سے نکلتے ہیں اور اب بھی اسرائیلیوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔حماس نے گذشتہ اکتوبر میں بڑے حملے کر کے اسرائیل کو حیران کر دیا تھا۔ اسرائیلیوں نے حماس کو ایسے بڑے خطرے کے طور پر نہیں دیکھا تھا جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ لبنان مختلف ہے اور اسرائیل کی فوج ہو یا اس کی خفیہ ایجنسی موساد، وہ سنہ 2006 میں حزب اللہ کے خلاف جنگ کے بعد اُن کے خلاف اگلی جنگ کی منصوبہ بندی میں مصروف تھیں۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کا خیال ہے کہ اُن کے ملک کا تازہ حملہ اُن کی جانب سے طاقت کا توازن حزب اللہ کے مخالف پلڑے میں ہونے کے اعلان کردہ مقصد کی طرف بڑی پیش رفت ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ داغنے کا سلسلہ ختم ہو۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ حزب اللہ کو سرحد سے پیچھے ہٹانے اور اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والی فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے کا ہے۔
ایک اور غزہ؟
لبنان میں گذشتہ ہفتے پیش آئے واقعات غزہ میں ایک سال سے جاری جنگ کی بازگشت یاد دلاتا ہے۔ اسرائیل نے لبنانی شہریوں کے لیے ویسا ہی انتباہ جاری کیا، جیسا کہ اس نے غزہ میں کیا تھا کہ وہ اُن علاقوں سے نکل جائیں جہاں وہ حملہ کر سکتا ہے۔ وہ حماس کی طرح حزب اللہ پر بھی الزام لگا رہا ہے کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔کچھ ناقدین کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ شہریوں کو بھیجے جانے والے یہ انتباہی پیغامات بہت مبہم ہیں اور شہریوں کو انخلا کے لیے کافی وقت نہیں دیا گیا۔ جنگ کے قوانین کے تحت لازم ہے کہ شہریوں کی حفاظت کی جائے اور طاقت کے اندھا دھند اور غیر متناسب استعمال سے گریز کیا جائے۔حزب اللہ نے جہاں اسرائیلی فوج کو نشانہ بنایا ہے وہیں اسرائیل پر کچھ حملوں کے دوران شہری علاقوں بھی نشانہ بنے ہی جو شہریوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ سمیت اہم مغربی اتحادی حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں جبکہ اسرائیل کا اصرار ہے کہ اُس کی فوج قوانین کا احترام کرتی ہے لیکن دنیا کے بیشتر ممالک نے غزہ میں اسرائیلی فوج کے طرز عمل کی مذمت کی ہے۔This video cannot play in your browser. Please enable JavaScript or try a different browser.
ماضی کے حملوں کے سائے
اسرائیلی میڈیا میں حزب اللہ پر حالیہ فضائی حملوں کے اثرات کا موازنہ ’آپریشن فوکس‘ سے کیا ہے جو جون 1967 میں مصر پر اسرائیل کا اچانک حملہ تھا۔ یہ ایک مشہور حملہ تھا جس نے مصری فضائیہ کو اُس وقت تباہ کر دیا جب اُس کے طیارے زمین پر کھڑے تھے۔ اگلے چھ دنوں میں اسرائیل نے مصر، شام اور اُردن کو تین مختلف محاذوں پر شکست دی۔اس فتح نے ہی موجودہ تنازع کو جنم دیا کیونکہ اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور گولان کی پہاڑیوں سمیت مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا۔یہ ایک بہتر موازنہ نہیں ہے۔ لبنان اور حزب اللہ کے ساتھ جنگ الگ ہے۔ اسرائیل نے اگرچہ شدید ضرب لگائی لیکن ابھی تک وہ حزب اللہ کی اسرائیل پر گولہ باری کرنے کی صلاحیت یا ارادے کو ختم نہیں کر سکا ہے۔ماضی میں حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کی لڑائی میں کبھی بھی دونوں فریق ایک فیصلہ کُن فتح حاصل نہیں کر سکے۔ اس بار بھی معاملہ اسی طرح چل سکتا ہے، تاہم جارحانہ کارروائی کا آخری ہفتہ اسرائیل، اس کی انٹیلیجنس سروسز اور اُس کی فوج کے لیے اطمینان بخش رہا ہے۔
اسرائیل کی جارحیت ایک مفروضے پر منحصر ہے – ایک جُوا – یعنی کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب حزب اللہ کچلی جائے گی، سرحد سے پیچھے ہٹ جائے گی اور اسرائیل پر حملے بند کر دے گی۔ حزب اللہ کی کارروائیوں پر نظر رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ وہ نہیں رُکے گی کیونکہ یہی لڑائی اُس کے وجود کی بنیادی وجہ ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل، جس طرح شکست تسلیم کرنے سے گریزاں ہے، اسے جنگ کو مزید بڑھانا پڑے گا۔ اگر حزب اللہ نے شمالی اسرائیل کو اسرائیلی شہریوں کے لیے خطرناک بنانا جاری رکھا تو اسرائیل کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا زمینی کارروائی شروع کی جائے تاکہ شاید بفر زون کے طور پر کام کرنے کے لیے زمین کی ایک پٹی پر قبضہ کیا جا سکے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
جنگ جاری ہے اور ابھی مزید بڑھنی ہے
اسرائیل کے کمانڈر جانتے ہیں کہ لبنان میں داخل ہونا غزہ میں حماس سے لڑنے کے مقابلے میں بہت بڑا فوجی چیلنج ہو گا۔ حزب اللہ بھی 2006 کی جنگ کے خاتمے کے بعد سے منصوبہ بندی کر چکی ہے، اور جنوبی لبنان میں اپنے ’ہوم گراؤنڈ‘ پر لڑے گی جس میں کافی ناہموار، پہاڑی علاقے ہیں جو گوریلا حکمت عملی کے لیے بہترین ہیں۔اسرائیل غزہ میں حماس کی کھودی گئی تمام سرنگوں کو تباہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں میں، حزب اللہ نے پچھلے 18 برس کو ٹھوس چٹانوں میں سرنگیں اور دفاعی پوزیشنیں تیار کرنے میں صرف کیا ہے۔ اس کے پاس ایران کا فراہم کردہ اسلحے کا زبردست ذخیرہ ہے اور غزہ میں حماس کے برعکس، اسے شام کے راستے زمینی راستے سے دوبارہ رسد فراہم کی جا سکتی ہے۔سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز، واشنگٹن ڈی سی میں ایک تھنک ٹینک کا تخمینہ ہے کہ حزب اللہ کے پاس تقریباً 30 ہزار فعال جنگجو اور 20 ہزار ریزرو فوجی ہیں، جن میں زیادہ تر ہلکی پیدل فوج کے چھوٹے چھوٹے یونٹوں کے طور پر تربیت یافتہ ہیں۔ اس کے بہت سے جوانوں کو شام میں اسد حکومت کی حمایت میں لڑنے کا جنگی تجربہ بھی ہے۔زیادہ تر اندازوں کے مطابق حزب اللہ کے پاس ایک لاکھ 20 ہزار سے دو لاکھ تک میزائل اور راکٹ ہیں، جن میں ان گائیڈڈ ہتھیاروں سے لے کر طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایسے ہتھیار بھی شامل ہیں جو اسرائیل کے شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
سفارتی لحاظ سے بند گلی
امریکہ کی قیادت میں اسرائیل کے اتحادی نہیں چاہتے تھے کہ اسرائیل حزب اللہ کے ساتھ جنگ میں اضافہ کرے اور نہ ہی یہ چاہتے ہیں کہ وہ لبنان پر حملہ کرے۔ ان کا اصرار ہے کہ صرف سفارت کاری ہی سرحد کو اتنا محفوظ بنا سکتی ہے کہ شہری اس کے دونوں طرف اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ایک امریکی ایلچی نے ایک معاہدے پر کام کیا ہے، جو جزوی طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کی قرارداد 1701 پر مبنی ہے جس نے 2006 کی جنگ کو ختم کیا تھا۔ لیکن غزہ میں جنگ بندی کے بغیر سفارت کاروں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ جب غزہ جنگ بند ہو جائے گی تو حزب اللہ اسرائیل پر حملے بند کر دے گی۔ اس وقت نہ تو حماس اور نہ ہی اسرائیل وہ ضروری رعایتیں دینے کے لیے تیار ہیں جس سے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ ہو۔ایسے وقت میں کہ جب لبنان پر اسرائیلی فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے، پہلے ہی ٹوٹی پھوٹی معیشت میں اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے جدوجہد کر رہے شہریوں کو تکلیف اور غیریقینی صورتحال کا سامنا ہے۔خوف محاذِ جنگ سے کہیں دور تک پھیلا ہوا ہے۔ اسرائیلی جانتے ہیں کہ حزب اللہ انھیں پچھلے سال سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جارحانہ کارروائی کرتے ہوئے حزب اللہ کو اپنی سرحدوں سے دور پھینک دیا جائے لیکن اسے ایک غیر سنجیدہ، مسلح اور ناراض دشمن کا سامنا ہے۔حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے جنگ کے طویل سال میں یہ سب سے خطرناک بحران ہے اور اس وقت کوئی بھی چیز اسے مزید بدتر کی طرف بڑھنے سے نہیں روک رہی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.