- مصنف, فرینک گارڈنر
- عہدہ, نامہ نگار برائے سکیورٹی امور، بی بی سی
- 2 گھنٹے قبل
لبنان کے شہر بیروت میں حسن نصر اللہ کی ہلاکت نے عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کو ہوا دی ہے۔ اس ہلاکت نے ممکنہ طور پر خطے کو ایک وسیع تر اور اس سے بھی زیادہ نقصان دہ تنازعے کے مزید قریب کر دیا ہے جس میں ایران اور امریکہ دونوں شامل ہو سکتے ہیں۔تو بات یہاں سے کہاں تک جانے کا امکان ہے؟اس کا انحصار تین بنیادی سوالوں پر ہے۔
حزب اللہ کیا کرے گی؟
حزب اللہ ایک کے بعد ایک دھچکے سے دوچار ہے۔ اس کے سربراہ کے علاوہ ایک درجن سے زیادہ کمانڈرز بھی مارے گئے ہیں۔پیجرز اور واکی ٹاکیز کے دھماکوں نے اس کے مواصلات کو سبوتاژ کر دیا اور اس کے بہت سے ہتھیار فضائی حملوں میں تباہ ہوگئے۔امریکہ میں مقیم مشرق وسطیٰ کے سلامتی امور کے تجزیہ کار محمد الباشا کہتے ہیں کہ ’حسن نصراللہ کی موت کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ممکنہ طور پر گروپ کو غیر مستحکم کرے گا اور مختصر مدت میں اس کی سیاسی اور فوجی حکمت عملی کو تبدیل کرے گا۔‘’لیکن یہ توقع کہ اسرائیل مخالف تنظیم اچانک ہار مان لے گی اور اسرائیل کی شرائط پر امن قائم کرے گی، غلط ثابت ہو سکتی ہے۔‘،تصویر کا ذریعہReutersحزب اللہ پہلے ہی لڑائی جاری رکھنے کا عہد کر چکی ہے۔ اس کے پاس اب بھی ہزاروں جنگجو موجود ہیں جن میں سے بہت سے شام میں لڑنے والے سابق فوجی ہیں اور وہ بدلہ لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس کے پاس اب بھی میزائلوں کا کافی ذخیرہ موجود ہے۔ ان میں سے بہت سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے گائیڈڈ ہتھیار ہیں جو تل ابیب اور دیگر شہروں تک پہنچ سکتے ہیں۔
ان ہتھیاروں کو جلد ہی استعمال کیے جانے کے لیے تنظیم میں یقیناً دباؤ ہوگا۔ اس سے پہلے کہ وہ بھی تباہ ہو جائیں۔ لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں اور اسرائیل کے فضائی دفاع کو متاثر کر کے شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اسرائیل کا ردعمل تباہ کن ہو سکتا ہے۔ یہ ردعمل لبنان کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر سکتا ہے یا یہاں تک کہ ایران تک پہنچ سکتا ہے۔
ایران کیا کرے گا؟
یہ قتل ایران کے لیے اتنا ہی بڑا دھچکا ہے جتنا حزب اللہ کے لیے۔پہلے ہی پانچ روزہ سوگ کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اس نے ہنگامی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنے رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کو بھی ممکنہ قتل سے بچانے کے لیے روپوش کر دیا ہے۔ایران نے جولائی میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے تہران کے ایک گیسٹ ہاؤس میں ہونے والے قتل کا بھی تاحال جواب نہیں دیا ہے۔اب جو کچھ ہوا ہے وہ حکومت میں شامل سخت گیر رہنماؤں کو کسی قسم کے ردعمل پر غور کرنے پر مجبور کرے گا۔ایران کے پاس مشرق وسطیٰ میں بھاری ہتھیاروں سے لیس اتحادی ملیشیاؤں کی ایک پوری کہکشاں ہے جسے نام نہاد ’مزاحمت کا محور‘ کہا جاتا ہے۔حزب اللہ کے ساتھ ساتھ یمن میں حوثی اور شام اور عراق میں متعدد گروہ موجود ہیں۔ایران ان گروہوں سے کہہ سکتا ہے کہ وہ خطے میں اسرائیل اور امریکی اڈوں پر اپنے حملے تیز کریں۔لیکن ایران جو بھی ردعمل اختیار کرے گا، وہ ممکنہ طور پر ایک ایسی جنگ شروع کر سکتا ہے جسے جیتنے کی امید اسے نہیں ہوگی۔،تصویر کا ذریعہEPA
اسرائیل کیا کرے گا؟
اگر اس ہلاکت سے پہلے کسی کو کوئی شک تھا تو وہ اب نہیں ہوگا۔یہ واضح ہے کہ اسرائیل اپنے قریبی اتحادی امریکہ سمیت 12 ممالک کی جانب سے تجویز کردہ 21 روزہ جنگ بندی کی خاطر اپنی فوجی کارروائیاں روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔اس کی فوج کا خیال ہے کہ اب حزب اللہ پسپا ہو چکی ہے، لہٰذا وہ اس وقت تک اپنی کارروائی جاری رکھنا چاہے گا جب تک ان میزائلوں کا خطرہ ختم نہیں ہو جاتا۔حزب اللہ کی جانب سے ہتھیار ڈالے بغیر، جس کا امکان نہیں ہے، یہ بظاہر مشکل ہے کہ اسرائیل زمینی فوج بھیجے بغیر حزب اللہ کے خطرے کو ٹال سکے۔ اسرائیل کی دفاعی افواج نے اسی مقصد کے لیے سرحد کے قریب اپنی انفنٹری ٹریننگ کی فوٹیج جاری کی ہے۔لیکن حزب اللہ نے پچھلی جنگ کے خاتمے کے بعد سے گذشتہ 18 سال اگلی جنگ لڑنے کی تربیت میں گزارے ہیں۔اپنی موت سے قبل اپنی آخری عوامی تقریر میں نصراللہ نے اپنے پیروکاروں سے کہا تھا کہ جنوبی لبنان میں اسرائیل کا حملہ ان کے الفاظ میں ’ایک تاریخی موقع‘ ہوگا۔آئی ڈی ایف کے لیے لبنان جانا نسبتاً آسان ہوگا لیکن غزہ کی طرح وہاں سے نکلنے میں بھی مہینوں لگ سکتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.