- مصنف, کیرین ٹوربے
- عہدہ, بی بی سی عربی، بیروت
- 23 منٹ قبل
اسرائیل اور ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے درمیان شدید تناؤ پایا جاتا ہے جس کی وجہ فریقین کے ایک دوسرے پر حملے اور خطے میں حزب اللہ اور ایران سے جُڑی بڑی شخصیات کی اموات ہیں۔اسرائیل اور حزب اللہ کے تعلقات میں مزید کشیدگی کیا رُخ اختیار کرے گے اس کی پیش گوئی کرنے کے لیے سب سے پہلے لبنان میں موجود مسلح گروہ کی عسکری صلاحیتوں اور اسرائیل کے ساتھ اس کے تنازعات کی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔جولائی 2006 میں بھی اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک بڑی جنگ ہوئی تھی اور اب ایک بار پھر ایسا لگتا ہے جیسے دونوں فریقین ایک اور تنازع کے قریب پہنچ چکے ہیں۔اس ممکنہ جنگ میں ایک طرف اسرائیل کی فضائی اور انٹیلی جنس سبقت ہے تو دوسری طرف حزب اللہ کے پاس موجود میزائلوں کا انبار اور ڈرونز ہیں۔
دونوں کے درمیان ممکنہ جنگ کا منظر کیسا ہو گا؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں دو عوامل پر نگاہ ڈالنی ہوگی: پہلی یہ کہ جولائی 2006 میں ہونے والی جنگ سے کیا سبق سیکھا گیا ہے اور دوسری یہ کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 10 مہینوں سے جاری جھڑپوں میں کیا ہوتا رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی فضائی طاقت حزب اللہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور اس کے سبب لبنان میں بڑی تباہی آ سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ غزہ میں اسرائیل اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے اور اسی سبب اس کے فوجی دستے شاید تھکن کا شکار ہیں۔جہاں تک حزب اللہ کی بات ہے تو اب تک فواد شُکر اور تین بڑے رہنماؤں سمیت اس کے 350 سے زیادہ جنگجو اسرائیلی فضائی حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
سنہ 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان اس وقت باقاعدہ جنگ چِھڑ گئی تھی جب حزب اللہ نے آٹھ اسرائیلی فوجی ہلاک کیے اور دو کو اغوا کر لیا۔حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کے بدلے میں اپنے جنگجوؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک اور جنگ چِھڑ جاتی ہے تو اسرائیل کو 2006 جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل نے نہ صرف لبنان میں فضائی حملے کیے تھے بلکہ وہاں زمینی فوج بھی اُتاری تھی۔تاہم اس سب کے باوجود بھی اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا، نہ اپنے مغوی فوجی رہا کروا سکا تھا اور نہ ہی حزب اللہ کی عسکری طاقت کو کُچل سکا تھا۔
حزب اللہ کے اسرائیل پر حملے
لبنان اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازع گذشتہ برس 8 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوا تھا جب حزب اللہ نے اسرائیلی مورچوں کو نشانہ بنایا تھا۔حزب اللہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ حملے اس نے غزہ میں اسرائیلی بمباری کے بدلے میں اور ’غزہ کی حمایت‘ میں کیے ہیں۔ خیال رہے گذشتہ برس 7 اکتوبر کو حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا تھا اور اس کارروائی کو ’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘ کا نام دیا تھا۔اسرائیل کی جانب سے حماس کے حملوں کے جواب میں غزہ میں آپریشن شروع کیا گیا تھا، جو کہ تاحال جاری ہے۔حزب اللہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے خلاف محاذ اس وقت تک کھولے رکھے گا جب تک غزہ میں جنگ بندی نہیں ہو جاتی۔اس کے علاوہ اس خطے میں ایک عسکری اتحاد بھی کام کر رہا ہے جس میں حزب اللہ، حماس، حوثی جنگجو، اسلامک جہاد اور دیگر عراقی گروہ شامل ہیں اور اس اتحاد کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’اسرائیل کا سب سے مشکل حریف‘
برطانیہ میں مقیم عسکری امور کے ماہر جسٹن کرمپ کہتے ہیں کہ حزب اللہ شاید ’اس وقت اسرائیل کے لیے سب سے مشکل حریف ہے۔‘جسٹن کرمپ برسوں تک برطانوی فوج کا حصہ رہے ہیں اور بعد میں انھوں نے سبلائن نامی کنسلٹنگ کمپنی قائم کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’حزب اللہ کے پاس اب بھی وہ سب موجود ہے جو اس کے پاس 2006 میں تھا، بس اب اس کے پاس ان ہتھیاروں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔‘امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے مطابق حزب اللہ کے پاس ابھی مختلف اقسام کے ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں گولے اور میزائل موجود ہیں، جبکہ اس کے جنگجوؤں کی تعداد 45 ہزار ہے۔ماضی میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ جنگجو موجود ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
حزب اللہ کے پاس موجود میزائل اور ہتھیار
حزب اللہ کبھی بھی یہ ظاہر نہیں کرتی کہ اس کے پاس کتنے اور کونسے میزائل موجود ہیں۔ یہ سب اس ہی صورت میں معلوم ہوتا ہے جب جنگجو ان میزائلوں کا استعمال کرتے ہیں۔گذشتہ برسوں میں سامنے آنے والی متعدد انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق حزب اللہ کے پاس ہتھیاروں کی موجودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ایران ہے جو کہ اس گروہ کو عراق اور شام کے ذریعے ہتھیار پہنچاتا ہے۔ان ہتھیاروں میں الماس تھری اینٹی ٹینک میزائل بھی شامل ہیں جو کہ جدید ایرانی ہتھیار ہے۔حزب اللہ نے حال ہی میں اسرائیل کے خلاف برکن اور جہاد مغنیہ میزائل کا استعمال کیا تھا۔ اس میزائل کا نام حزب اللہ نے اپنے ایک رہنما کے نام پر رکھا ہے جو کہ 2015 میں شام میں مارے گئے تھے۔کارڈف یونیورسٹی سے بطور پرفیسر منسلک امل سعد کہتی ہیں کہ ’ہم جو ابھی دیکھ رہے ہیں وہ حزب اللہ کا وہ ورژن ہے جو کہ 2006 کے مقابلے میں اب زیادہ جدید ہے۔‘امل سعد نے لبنانی گرہ پر ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا نام ہے ’حزب اللہ: پولیٹکس اینڈ رلیجن‘ یعنی سیاست اور مذہب۔وہ لکھتی ہیں ’حزب اللہ اب صرف اس کھیل میں ایک ہائبرڈ کھلاڑی نہیں رہا بلکہ اس میں روایتی فوج اور غیر روایتی گروہوں کی مشترکہ خصوصیات موجود ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
حزب اللہ کے پاس روسی میزائل بھی موجود ہیں
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے گروپ کے پاس ایسے میزائل موجود ہیں جن میں اسرائیل کے مرکزی علاقوں تک پہنچنے کی صلاحیت موجود ہے۔حزب اللہ سے قریب تصور کیے جانے والے لبنانی ٹی وی چینل میادین سے منسلک صحافی و تجزیہ کار علی جزینی کہتے ہیں کہ حسن نصراللہ کے بیانات سے اشارہ ملتا ہے کہ ان کی تنظیم کے پاس شارٹ رینج بیلسٹک میزائل موجود ہیں جو کہ 300 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان فاصلہ کم ہے اور اس سے حزب اللہ کو فائدہ ہو گا کیونکہ اس سے اسرائیلی فوج کو میزائل حملوں سے نمٹنے کے لیے وقت بھی کم ملے گا۔علی جزینی کے مطابق یہ ایرانی ساختہ ذلزل اور فتح 110 میزائل ہوسکتے ہیں۔حزب اللہ کے پاس ان میزائلوں کی موجودگی کا ایک ثبوت وہ تصاویر ہیں جو انٹرنیٹ پر گردش کرتی ہیں۔ ان تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ حزب اللہ کے پاس روسی میزائل بھی موجود ہیں۔ماہرِ عسکری امور جسٹن کرمپ کہتے ہیں کہ شاید حزب اللہ نے یہ میزائل شام میں حاصل کیے ہوں۔ ایران اکثر روسی ہتھیاروں اور میزائلوں کی کاپی بناتا ہے اور ہوسکتا ہے یہ ہتھیار حزب اللہ کے پاس کسی ایرانی سپلائر کے ذریعے ہی پہنچے ہوں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
جنگ میں ڈرونز کا استعمال
میزائلوں کے علاوہ اس مرتبہ ممکنہ جنگ میں بڑی تبدیلی یہ ہوگی کہ حزب اللہ ڈرونز پر اپنا انحصار بڑھائے گی۔ ان ڈرونز میں میزائل بھِی نصب کیے جا سکتے ہیں۔جسٹن کرمپ کہتے ہیں کہ: ’حزب اللہ ان ڈرونز کو بہتر اور اختراعی انداز میں استعمال کر رہی ہے۔‘برطانوی ماہرِ عسکری امور مزید کہتے ہیں کہ سنہ 2006 سے حزب اللہ کے پاس ایک علیحدہ ڈرون یونٹ موجود ہے لیکن وہ سب عسکری طرز کے ڈرون تھے۔’لیکن اب وہ زیادہ تر انحصار کمرشل ڈرونز پر کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے دیگر مسلح گروہ کرتے ہیں کیونکہ جنگوں میں اب ڈرونز مرکزی اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔‘تاہم اس حوالے سے صحافی علی حزینی کہتے ہیں کہ کمرشل ڈرونز کو باآسانی جام کیا جا سکتا ہے یا ناکارہ بنایا جاسکتا ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ حزب اللہ کے پاس عسکری نوعیت کے ڈرونز بھی موجود ہیں جن کے حوالے سے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی مدد سے وہ شمالی اسرائیل میں موجود فوجی تنصیبات کی جاسوسی کرتے ہیں۔حال ہی میں اسرائیلی میڈیا میں حزب اللہ کے ایک ڈرون کے حوالے سے اطلاعات نشر کی گئیں تھیں جو کہ ایرانی شہید 101 قسم کا ڈرون تھا اور اُڑان بھرتے اس کی بالکل آواز نہیں نکلتی تھی۔اسی سبب اس ڈرون کو ریڈار کی مدد سے پکڑنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ یہ زیادہ اونچائی پر نہیں اُڑتا۔حزب اللہ کے قریبی ذرائع کے مطابق ان ڈرونز کا استعمال ماضی میں یمنی اور عراقی گروہ بھی کر چکے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ایکسز آف ریززٹینس‘
جسٹن کرمپ کا ماننا ہے کہ شاید حزب اللہ کے پاس وہ ہتھیار بھی موجود ہوں جو یمن میں حوثی استعمال کر رہے ہیں اور وہ تمام ہتھیار جو حماس اور حوثیوں کے پاس موجود ہیں وہی ہتھیار حزب اللہ کو بھی میسر ہوں گے۔’یہ تمام گروہ تمام تجربات، ٹیکنالوجی اور ہتھیار آپس میں شیئر کرتے ہیں لیکن حزب اللہ ان تمام گروہوں میں سب سے زیادہ جدت اور تجربہ رکھتا ہے۔‘امل سعد کہتی ہیں کہ جنگ کے حوالے سے کوئی بھی پیش گوئی کرنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ جنگ کن حالات میں لڑی جا رہی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اب یہاں ’یونیٹی آف اریناز‘ (متعدد گرہوں کا ایک دشمن کے خلاف لڑنا) اور ایک ہی ’ایکسز آف ریززٹینس‘ کی چھتری تلے تمام گروہوں کا اسرائیل کے خلاف لڑنا کچھ ایسی چیزیں ہیں جنھیں ہمیں دماغ میں رکھنا ضروری ہے۔ان کے مطابق ماضی میں ’یونیٹی آف اریناز جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی تھی لیکب اب وہ ایک تعزویراتی اتحاد کی صورت میں لڑ رہے ہیں اور اس اتحاد کے بڑھنے کا بھی امکان موجود ہے۔‘’ایکسز آف ریززٹینس‘ متعدد گروہوں کا ایک مجموعہ ہے جنھیں ایران کی حمایت حاصل ہے لیکن یہ تمام گروہ الگ الگ شناخت بھی رکھتے ہیں۔’ایکسز آف ریززٹینس‘ میں حماس، اسلامک جہاد، یمنی حوثی، حزب اللہ اور متعدد عراقی گروہ شامل ہیں۔یہاں یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ تمام گروہ حزب اللہ کے خلاف ہونے والی جنگ میں مزاحمت کریں گے یا نہیں، لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ ایران کی وزارتِ خارجہ نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ اسے ’لبنان میں کسی بھی نئی کارروائیوں کی صورت میں غیرمتوقع نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘جولائی 2006 کی جنگ اور جنوبی اسرائیل پر 7 اکتوبر کو ہونے والے حملوں کے درمیان جو وہ وقت گزرا ہے اس میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحد تمام تر کشیدگی کے باوجود پُرامن رہی ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں فریقین آنے والے وقت کی تیاری نہیں کر رہے تھے اور شاید وہ وقت اب جلد ہی آنے والا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.