حاملہ بیوی کو سکاٹ لینڈ کی چوٹی سے گِرا کر قتل کرنے والا شوہر ’نہیں چاہتا تھا کہ وہ آزاد ہو‘
- مصنف, یاسمین آرا خان اور جینی پارکس
- عہدہ, بی بی سی نیوز نائٹ
جس خاتون کو اس کے شوہر نے چوٹی سے دھکیل کر قتل کیا اس کی ماں کا کہنا ہے کہ یہ مرد ’ظالم اور حاسد‘ تھا اور اسے ’عدم تحفظ‘ تھا۔
فوزیہ جاوید کی موت 2021 میں اس وقت ہوئی جب ان کے شوہر کاشف انور نے انھیں ایڈنبرگ کے سیاحتی مقام آرتھرز سیٹ سے نیچے دھکیل دیا تھا۔
اپنے پہلے ٹی وی انٹرویو میں فوزیہ کی ماں یاسمین جاوید نے بی بی سی نیوز نائٹ کو بتایا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ انور ’اپنی بیوی کی آزاد زندگی کو پسند نہیں کرتے تھے۔‘
فوزیہ نے ایک خفیہ ریکارڈنگ کی تھی جس میں ان کے شوہر انھیں کہتے ہیں کہ وہ ’برطانوی خاتون جیسا رویہ نہ رکھیں۔‘
فوزیہ کی ماں کا کہنا ہے کہ انور اس بات سے ناخوش تھے کہ ان کی 31 سال کی وکیل بیوی آزاد ہیں اور ایک تعلیم یافتہ نوجوان خاتون ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’انھیں یہ پسند نہ تھا کہ فوزیہ کی اپنی آواز، اپنے خیالات تھے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتے تھے۔‘
لیڈز سے تعلق رکھنے والی فوزیہ نے ایک آپٹیکل اسسٹنٹ انور سے 25 دسمبر 2020 کو ایک اسلامی تقریب میں شادی کی تھی۔
عدالت کو کیس کی سماعت کے دوران بتایا گیا کہ شادی کے تین ماہ بعد انور نے ایک قبرستان میں فوزیہ پر تشدد کیا تھا اور انھیں مار مار کر بے ہوش کر دیا تھا۔
اسی دوران انھوں نے ایک بار اپنی بیوی کے چہرے پر تکیہ رکھا اور ان کے سر پر مُکا مارا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ انور نے اپنی بیوی کے بینک اکاؤنٹ سے 12 ہزار پاؤنڈ نکال لیے تھے جب وہ سو رہی تھیں۔
یاسمین نے کہا کہ انھوں نے اپنی بیٹی سے کہا تھا کہ وہ انور کو چھوڑ دیں مگر فوزیہ اپنا وقت لینا چاہتی تھیں اور انھوں نے کہا تھا کہ ’انھیں معلوم ہیں وہ کیا کر رہی ہیں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ فوزیہ نے ’طلاق کے لیے وکلا سے رابطہ کیا تھا کیونکہ اس (ان کے شوہر) نے انھیں (فوزیہ کو) بتایا تھا کہ وہ کبھی انھیں طلاق نہیں دے گا۔‘
’انھوں نے ان کی آواز کی ریکارڈنگ کی تھی جس میں وہ انھیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ وہ شواہد تھے جو ثابت کرتے ہیں کہ ان کا رویہ کیسا تھا۔‘
ایک آڈیو ریکارڈنگ میں فوزیہ کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ’آپ نے میری زندگی تباہ کر دی ہے۔‘
انور انھیں جواب دیتے ہیں کہ ’میں آپ کو ایک چیز کہنا چاہتا ہوں۔ آپ نے اسے ختم کیا تو میں آپ کی زندگی برباد کر دوں گا۔‘
ایک دوسری ریکارڈنگ میں انور اپنی بیوی سے کہتے ہیں کہ ’آپ کو کیا لگتا ہے آپ ہو کون؟ آپ کوئی مرد نہیں۔۔۔ تو جیسا کہا جائے ویسا کرو اور کل واپس آ جانا۔‘
ان کی بیوی پوچھتی ہیں کہ ’آپ کا مسئلہ کیا ہے؟‘
انور جواب دیتے ہیں کہ ’میرا مسئلہ؟ مجھے چیلنج مت کرو، برطانوی عورت نہ بنو۔‘
’کیونکہ میں بتا رہا ہوں کہ یہ کام نہیں کرے گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں یہ کام نہیں کرے گا۔ ایسا میرے ساتھ نہیں چلے گا۔‘
فوزیہ دو بار پولیس کے پاس گئیں اور ان کے پاس انور کے رویے کی رکارڈنگ بھی تھی۔ مگر وہ یہ نہیں چاہتی تھیں کہ پولیس اس مرحلے پر مداخلت کرے۔
انور کی جانب سے انھیں قتل کرنے کے کچھ روز قبل دوسری پولیس رپورٹ تشکیل دی گئی تھی۔
ستمبر 2021 میں سی سی ٹی وی فوٹیچ میں دونوں کو آرتھرز سیٹ پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دیکھا جاسکتا ہے۔
50 فٹ اونچے پہاڑ سے گرنے کے بعد فوزیہ نے مرنے سے قبل اردگرد لوگوں کو بتایا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
رواں سال اپریل کے دوران انور کو اپنی بیوی کے قتل پر 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ان کی بیوی 17 ہفتوں سے حاملہ تھیں۔
فوزیہ کی والدہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے آخری الفاظ نہیں بھول سکتیں: ’کیا میں مرنے والی ہوں؟ کیا میرا بچہ مرنے والا ہے؟‘
’یہ الفاظ ہر روز میرے ذہن میں گردش کرتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’دکھ اور تکلیف کے ساتھ ساتھ میں یہ الفاظ بھلا نہیں پاتی۔‘
یاسمین نے نیوز نائٹ کو بتایا کہ خاندان سمجھتا ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا کیونکہ انور جیل میں ہونے کے باوجود ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
’میرے پاس اب تک فوزیہ کی تمام چیزیں نہیں ہیں۔ مجھے لڑ کر کچھ چیزیں حاصل کرنا پڑیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انور کے والدین ’اس کنٹرول کو قائم رکھ رہے ہیں اور ہمیں تمام چیزیں واپس نہیں دے رہے۔‘
عدالت کو اس سے قبل ایک ریکارڈنگ سنائی گئی جس میں انور کو اپنی اہلیہ سے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’جو کچھ یہاں ہے، آپ یقیناً کہو گی کہ آپ کی ملکیت ہے۔ آپ یہاں سے کچھ بھی نہیں لے کر جا رہی۔
’یہ سب یہیں رہے گا، یہ میری ملکیت ہے کیونکہ یہ میرا گھر ہے۔‘
بی بی سی نیوز نائٹ کو کاشف انور کے والدین نے بتایا کہ انھوں نے فوزیہ کی چیزیں پولیس اور ان کے خاندان کو واپس کر دی تھیں۔
یاسمین جاوید کا ماننا ہے کہ انور کے ان کی بیٹی کو قتل کرنے کی اصل وجہ غیرت کے نام پر کنٹرول، حسد اور عدم تحفظ ہیں۔
غیرت کے نام پر کیا گیا جرم یا حادثہ کسی خاندان یا برادری کی ’غیرت‘ کو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
انھوں نے بی بی سی نیوز نائٹ کو بتایا کہ ’وہ فوزیہ کو کہا کرتا تھا کہ ہمارے خاندان میں طلاقیں نہیں ہوتیں، ہم طلاق نہیں دیتے، خاندان میں رہتے ہیں چاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘
سکاٹ لینڈ پولیس نے فوزیہ کے قتل میں تحقیقات کی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں کسی قسم کے غیرت کے نام پر کیے گئے تشدد کے شواہد نہیں ملے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گھریلو تشدد اور زبردستی کنٹرول کرنا اس کیس میں اصل محرکات ہیں۔
تاہم فلاحی ادارے کرما نروانا، جو یاسمین کی فوزیہ کے قتل سے پہلے بھی حمایت کر رہا تھا، کا کہنا ہے کہ وہ غیرت کے نام پر کیے گئے تشدد کو فوزیہ کے واقعے کا حصہ سمجھتے ہیں۔
شائستہ گوہر مسلم ویمن نیٹ ورک برطانیہ کی چیئر ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ کچھ جنوبی ایشیائی خواتین کو پرتشدد رشتوں کو چھوڑنے میں اضافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نے مذہبی طلاقوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھیں کنٹرول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انھوں نے ایسی برادریوں میں متاثرہ خواتین کی آگاہی اور امداد کی ضرورت پر زور دیا۔
انھوں نے کہا کہ اس تنظیم کی رکن کے طور پر فوزیہ ایک ذہین اور پڑھی لکھی خاتون تھیں جنھیں اپنے حقوق کے بارے میں علم تھا ’اس کے باوجود انھیں قتل کر دیا گیا۔‘
Comments are closed.