جے ڈی وینس اور اوشا وینس: ٹرمپ کو ’ہٹلر‘ کہنے والے نائب صدر کے امیدوار اور ان کی انڈین نژاد اہلیہ کون ہیں؟،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنجے ڈی اور اوشا وینس
2 گھنٹے قبلسابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی ریاست اوہائیو کے 39 سالہ سینیٹر جے ڈی وینس کو امیدوار برائے نائب صدر چن کر ان کو ریپبلکن پارٹی کا ٹکٹ سونپ دیا ہے۔امریکہ میں صدارتی انتخابات 5 نومبر کو منعقد کیے جائیں گے۔سابق صدر ٹرمپ کو امید ہے کہ وینس کی بدولت نہ صرف ان کی انتخابی مہم میں جان آ جائے گی بلکہ وہ نئی نسل میں ریپبلکن پارٹی کے وفادار نوجوانوں کو بھی راغب کر سکیں گے۔وینس نے 2016 میں ’ہِلبِلی ایلیجی‘ (Hillbilly Elegy) کے عنوان سے اپنی سوانح عمری شائع کر کے خوب نام کمایا۔

کوارٹز میگزن کے مطابق تاحال اس کتاب کی 15 لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔کتاب میں انھوں نے معاشی تنگی سے دوچار اپنی زندگی کی داستان بیان کرتے ہوئے اس موضوع پر تجزیہ کیا کہ غربت میں رہنے والے سفید فام لوگوں کو فلاحی ریاست میں کن مسائل کا سامنا ہے اور لوگ ڈیموکریٹ پارٹی سے منہ کیوں موڑ رہے ہیں۔ٹرمپ نے وینس کو اپنا امیدوار برائے نائب صدر اس لیے بھی منتخب کیا کیونکہ امریکہ کا سفید فام محنت کش طبقہ ان میں خود کو دیکھتا ہے۔سنہ 2022 میں وینس نے ریپبلکن پارٹی میں شامل ہو کر اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں وینس ٹرمپ کے سخت مخالف ہوا کرتے تھے۔سنہ 2016 میں جب امریکی صدراتی انتخابات ہو رہے تھے تو وینس ’نیور ٹرمپ‘ یعنی ’ٹرمپ کبھی نہیں‘ نامی مہم میں پیش پیش تھے۔،تصویر کا ذریعہFULTON COUNTY SHERIFF’S OFFICE

’ٹرمپ امریکی ہِٹلر ہیں‘

وینس سال 1984 میں اوہائیو ریاست کہ ایک چھوٹے سے شہر مِڈل ٹاؤن میں پیدا ہوئے۔ امریکہ کی سنہ 2020 کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی کل آبادی 51 ہزار کے قریب ہے اور یہاں لگ بھگ 22.5 فیصد عوام کا غربت میں شمار ہوتا ہے۔اس علاقے میں ایک زمانے میں صنعتیں خوب ترقی کر رہی تھیں تاہم 1980 کی دہائی میں بیرون ممالک سے مقابلے اور لیبر کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے یہاں صنعتیں ٹھپ ہونا شروع ہو گئیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی نے علاقے کو اپنے شکنجے میں لے لیا۔وینس کی پرورش ان کے غریب نانا نانی نے کی کیونکہ ان کی والدہ نشے کی عادی تھیں اور ان کے والد کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔اپنی سوانح عمری میں انھوں نے روایت پسند خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کے لوگ اور دوست احباب فلاحی ریاست پر انحصار کرتے تھے۔ ان کے مطابق ان لوگوں کو فضول خرچی کی عادت ہو گئی تھی اور ان میں سے زیادہ تر آج تک اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو سکے۔کتاب کو امریکہ میں کافی مقبولیت ملی اور اس پر نیٹ فلِکس نے ایک ڈرامہ بھی پیش کیا۔اپنی سوانح عمری کی بدولت وینس ٹی وی پر بطور سیاسی تجزیہ کار بھی آتے رہے۔ وہ سفید فام محنت کش طبقے کے ٹرمپ سے تعلق پر تنقید کرتے تھے تاہم انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ٹرمپ کی تنقید کرتے ہوئے کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔سنہ 2016 میں اپنے ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ ’ٹرمپ لوگوں کو دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کا موقع دے رہے ہیں۔ مثلاً میکسیکن تارکین وطن یا وہ لوگ جو چین کے ساتھ بزنس کرتے ہیں یا ڈیموکریٹ پارٹی کے اشرافیہ وغیرہ۔‘اسی سال انھوں نے فیس بک پر اپنے کسی جاننے والے سے ذاتی گفتگو میں لکھا کہ ’میں فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ ٹرمپ ایک گھٹیا شخص ہیں یا امریکہ کے ہِٹلر ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

موقف میں تبدیلی

تاہم جب 2022 میں انھوں نے سینیٹ انتخابات میں حصہ لیا تو انھوں نے ٹرمپ سے معافی مانگی اور اپنی سیاسی وابستگیاں بدل دیں۔ ایسا کرنے کے بعد انھیں سابق صدر ٹرمپ کی حمایت حاصل ہوئی۔ٹرمپ کی ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ یعنی ’امریکہ کو دوبارہ سے عظیم بنائیں‘ مہم میں وینس اہم کرداد ادا کر رہے ہیں۔ ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ ٹرمپ کی مہم کا نعرہ اور ان کی تحریک کا نام ہے جس کی بدولت وہ اس سے قبل بھی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے۔سینیٹ میں وہ سابق صدر کے لیے قابل اعتماد قدامت پسند ووٹ رہے ہیں۔ انھوں نے پاپولسٹ معاشی پالیسیوں کی حمایت کی اور یوکرین کو دی جانے والی امداد پر شکوک ظاہر کرنے والے کے طور پر کانگریس میں توجہ حاصل کی۔حالیہ مہینوں میں وینس نے ایسے کالجوں کے لیے وفاقی فنڈز کو روکنے کے لیے بل بھی متعارف کرائے ہیں جو غزہ میں جنگ کے خلاف کیمپوں یا مظاہروں کی میزبانی کرتے ہیں۔ اس میں ایسے کالج بھی شامل ہیں جو بغیر دستاویز والے تارکین وطن کو ملازمت دیتے ہیں۔اپنی خارجہ پالیسی اور مالیاتی مہارت دونوں کو ظاہر کرتے ہوئے وینس نے مارچ میں قانون سازی متعارف کروائی جو چینی حکومت کو امریکی کیپٹل مارکیٹوں سے اس صورت میں دور رکھ سکے گی جب وہ بین الاقوامی تجارتی قوانین کی تعمیل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔اس ایجنڈے کے ساتھ وینس ریپبلکنز کے درمیان تیزی سے ایک اہم کھلاڑی بن گئے اور اب وہ واشنگٹن میں ٹرمپ نواز خیالات کی ایک بااثر آواز بن گئے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنجے ڈی اور اوشا وینس

ان کی بیوی اوشا وینس کون ہیں؟

سینیٹر جے ڈی وینس نے ہند نژاد اوشا سے شادی کی۔ دونوں کی ملاقات سنہ 2010 کی دہائی میں اپنے زمانہ طالب علمی میں ہوئی اور 2014 میں انھوں نے شادی کر لی۔اوشا انڈین تارکین وطن کی بیٹی ہیں جو کیلیفورنیا میں پیدا ہوئیں اور سان ڈیاگو کے مضافات میں پلی بڑھیں۔وہ اس وقت سان فرانسسکو کی ایک قانونی فرم میں ٹرائل اٹارنی ہیں اور قدامت پسند سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان جی رابرٹس جونیئر کی معاون ہیں۔وینس اکثر اپنی بیوی کی اپنے کریئر کی حمایت کرنے کے لیے تعریف کرتے ہیں۔ وہ انھیں اپنے کالج کے زمانے سے اپنا ’روحانی رہنما‘ سمجھتے ہیں۔پچھلے مہینے فاکس نیوز پر ایک انٹرویو کے دوران اوشا نے کہا کہ مجھے جے ڈی پر اعتماد ہے اور میں واقعی ان سے پیار کرتی ہوں، لہذا ہم دیکھیں گے کہ اب ہماری زندگی میں کیا ہوتا ہے۔‘وینس اور اوشا کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنمسٹر ٹرمپ اور مسٹر وینس ریپبلکن کی جانب سے صدر اور نائب صدر کے امیدوار ہیں

ٹرمپ نے جے ڈی وینس کا انتخاب کیوں کیا؟

اوہائیو کے سینیٹر کا انتخاب سابق صدر کی انتخابی مہم کی حکمت عملی پر خاطر خواہ روشنی ڈالتا ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ وائٹ ہاؤس واپس آ گئے تو وہ کس طرح حکومت کریں گے۔ٹرمپ جانتے ہیں کہ اس انتخاب کے نتائج کو بہت حد تک مٹھی بھر سوئنگ صنعتی ریاستوں میں جیت یا ہار طے کرے گی۔اصل میں اوہائیو سے تعلق رکھنے والے وینس کو اپنی سوانح عمری شائع کرنے کے بعد سینیٹ کے لیے منتخب کیا گیا تھا، جس میں انھوں نے اپنے محنت کش طبقے کی پرورش اور اس کی سیاست اور عالمی نظریہ پر اثر انداز ہونے کے بارے میں بات کی تھی۔اپنے پس منظر کے ساتھ وینس سفید فام، محنت کش طبقے کے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہوں گے جنھوں نے سنہ 2016 کے انتخابات میں ان ریاستوں میں ٹرمپ کو کامیابی دلائی تھی۔سابق صدر نے سوشل میڈیا پوسٹ میں وینس کے ساتھ ٹکٹ شيئر کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ’ان لوگوں پر بھرپور توجہ مرکوز کریں گے جن کے لیے انھوں نے بہت شاندار طریقے سے جنگ لڑی۔ ان میں پنسلونیا، مشیگن، وسکونسن، اوہائیو اور مزید دوسری ریاستوں کے امریکی ورکرز اور کسان شامل ہیں۔‘ٹرمپ نے وینس کی فوجی خدمات اور ایک نامور یونیورسٹی میں لا سکول کے طالب علم کے طور پر ان کی تعریف کی۔صرف 39 سال کی عمر میں وینس دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان جوانوں کا نقطہ پیش کریں گے۔ ٹرمپ کے انتخاب نے انھیں ریپبلکنز کی نئی نسل میں سب سے اوپر پہنچا دیا۔اور اگر سابق صدر اگلے سال وائٹ ہاؤس واپس پہنچتے ہیں تو وینس فوری طور پر پارٹی کی جانب سے 2028 کی صدارتی نامزدگی کا حصہ ہو سکتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}