جی 20 اجلاس: دنیا کے سب سے طاقتور ملکوں کا دلّی میں اجلاس اتنا اہم کیسے بنا؟
- مصنف, شکیل اختر
- عہدہ, بی بی سی اردو، نئی دہلی
دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں والے 20 ممالک کی تنظیم جی-20 کا سربراہی اجلاس نو اور 10 ستمبر کو انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد ہو رہا ہے۔
جی-20 کے موجودہ صدر کی حیثیت سے انڈیا اس اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ دلی اور اس کے نواحی شہروں کےبڑے بڑے ہوٹل سربراہان حکومت اور مندوبین کے لیے ریزرو کیے گئے ہیں۔
پورا شہر خوبصورتی سے سجایا گیا ہے اور نئی دہلی اس وقت غیر معمولی سکیورٹی کے حصار میں ہے۔ آئندہ تین دنوں تک شہر میں تعطیل ہے اور شہر کے وہ علاقے جہاں یہ اجلاس ہو رہا ہے کو عام لوگوں کی آمد و رفت کے لیے تقریباً بند رکھا گیا ہے۔
جی-20 میں امریکہ، روس، چین، انڈیا، ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اندونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔
بیشتر ممالک کے صدور اور وزرا اعظم اس اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں لیکن چین اور روس کے صدر اس سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔
ان کی جگہ چین کے وزیر اعظم اور روس کے وزیر خارجہ ان کی نمائندگی کریں گے۔ جی-20 کے صدر کے طور پر انڈیا نے بنگلہ دیش، مصر، نائجیریا، متحدہ عرب امارات، عمان، سنگاپور، نیدر لینڈز، سپین اور ماریشیئس کو بھی مہمان کے طور اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن سمیت بیشتر سربراہان حکومت جمعے کو نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی جو بائیڈن اور برطانیہ کے وزیر اعطم رشی سونک سمیت کئی رہنماؤں سے باہمی ملاقات کریں گے۔
یہ اجلاس نوتعمیرشدہ بین اقوامی کنونشن سنٹر ’بھارت منڈپم‘ میں منعقد کیا جا رہا ہے۔
کنونشن سنٹر سربراہی اجلاس کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ مہمانوں کے خیر مقدم کے لیے پوری دلی کو سجایا گیا ہے۔
شہر میں جگہ جگہ جی-20 کےبڑے بڑے بینرز لگائے گئے ہیں۔ ہوائی اڈے سے لے کر کنونشن سنٹر تک سڑک کے دونوں جانب گروپ-20 کے ملکوں کے پرچم لہرا رہے ہیں۔
جی 20 کی تاریخ
جی-20 ایشیائی معاشی بحران کے بعد 1999 میں قائم کیا گیا تھا۔ ابتدائی سالوں میں اس کے اجلاس میں رکن ممالک کے وزرا خزانہ اور سینٹرل بینکوں کے گورنر شریک ہوتے تھے لیکن سنہ 2007 کے عالمی معاشی بحران کے بعد اسے سربراہی اجلاس میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
اس کا پہلا سربراہی اجلاس سنہ 2008 میں واشنگٹن میں منعقد ہوا تھا۔ جی-20 کا سربراہی اجلاس سال میں ایک بار ہوتا ہے۔ اس کی سربراہی باری باری سبھی رکن ممالک کے پاس آتی ہے۔
آئندہ اجلاس کی سربراہی برازیل کے پاس ہو گی۔ اس گروپ کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی معیشت کا 85 فی صد جی ڈی پی اور 75 فی صد عالمی تجارت انھیں ملکوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ممالک دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ویسے تو اس گروپ کا مقصد معاشی نظام کے مختلف پہلوؤں اور مسائل پر غور کرنا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں دیر پا ترقی، صحت، زراعت، توانائی، ماحولیاتی تبدیلی اور انسداد بدعنوانی جیسے معاملات بھی شامل ہوتے گئے۔
اجلاس میں جو بھی فیصلے ہوتے ہیں ان پر رکن ممالک عموماً عمل کرتے ہیں لیکن وہ قانونی طور پر اس کے پابند نہیں ہیں۔
یہ اقتصادی طور پر طاقتور ملکوں کا گروپ ہے اس لیے یہاں کیے گئے فیصلے عالمی تجارت پر کافی حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
ان فیصلوں کا عالمی سطح پر گہرا اثر پڑتا ہے اور اقتصادی بحران میں یہ گروپ اچتماعی طور پر قدم اٹھانے مین کارگر ثابت ہوتا ہے۔
جی-20 کے سربراہی اجلاس کو اس وقت کامیاب مانا جاتا ہے جب اجلاس کے اختتام پر اتفاق رائے سے مشترکہ بیان جاری ہو۔
اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ذمے داری میزبان ملک کی ہوتی ہے۔ اس وقت یوکرین کی جنگ کے سوال پر روس اور چین ایک طرف اور مغربی ممالک دوسری جانب کھڑے ہیں۔
ان حالات میں دلی کے سربراہی اجلاس میں مشترکہ بیان کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا وزیرِ اعظم نریندر مودی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اجلاس میں چین کے صدر شی جن پنگ کے نہ آنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے یہ تشویش بھی ظاہر کی ہے کہ چین اور روس اجلاس میں اتفاق رائے بنانے کے حوالے سے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔
Comments are closed.