پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ جیل جاکر زیادہ خطرناک ہوجائیں گے۔
خاتون جج کو دھمکی دینے پر سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہو رہی ہے، عدالت آتے ہوئے آج پھر صحافیوں نے عمران خان پر سوالات کی بوچھاڑ کردی۔
صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ کیا حکومت آپ کو گرفتار کرنے کا پلان بنا رہی ہے، جواب میں پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ میں جیل میں جا کر اور زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔
عمران خان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر معافی مانگیں گے، اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ معافی سے پہلے میں آپ سے این او سی لوں گا، آپ کا کافی تجربہ ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ان تین عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینے کا مقصد تھا، ایک سول توہینِ عدالت ہے، دوسری جوڈیشل توہینِ عدالت اورتیسری فوجداری توہینِ عدالت، عدالت کی اسیکنڈلائزیشن فردوس عاشق اعوان سے متعلق ہے، یہ کرمنل توہینِ عدالت ہے جو زیرِ التواء مقدمے سے متعلق ہے۔
انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کا جواب تفصیلی پڑھا، فیصلے میں حوالہ توہینِ عدالت کی اقسام میں فرق سے متعلق دیا گیا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم پابند ہیں، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کا مسرور احسن بنام اردشیر کاؤس جی کیس دیکھیں، جس کا پیرا گراف نمبر 96 پڑھیں، فیصلے میں حوالہ توہینِ عدالت کی اقسام میں فرق سے متعلق دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم پابند ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اتنی پولیورائزڈ سوسائٹی ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بے عزت کرتے ہیں، اگر اس جج کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟ ہم نے وکلاء تحریک کے ثمرات حاصل نہیں کیے، ماتحت عدلیہ اس عدالت کی ریڈ لائن ہے، ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ عدلیہ کی آزادی اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے، آپ نے اپنے جواب میں جسٹیفائی کرنے کی کوشش کی۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹیفائی نہیں، وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کیا سابق وزیرِ اعظم لا علمی کا عذر پیش کر سکتے ہیں؟ جرم انتہائی سنگین ہے، جس کا احساس نہیں ہوا، ہم نے صرف قانون کو دیکھنا ہے، ہمیں احساس ہے کہ اس لیے جواب میں وہ باتیں لکھی ہیں، آپ خود ہی بتائیں کہ کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق درست ہے؟
Comments are closed.