جیل، زہر یا جلاوطنی؟ روسی صدر پوتن کی مخالفت کی ممکنہ قیمت
- مصنف, وٹالی شیوچینکو
- عہدہ, بی بی سی مانیٹرنگ
روسی صدر ولادیمیر پوتن اب روس پر عملاً بلا روک ٹوک حکمرانی کر رہے ہیں۔ ان پر تنقید کرنے والے بہت سے افراد یا تو جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے یا بہت سے مخالفین جیل میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں جبکہ بعض ایسے بھی ہیں جنھیں قتل کر کے انھیں ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا گیا ہے۔
صدر پوتن نے فروری 2022 میں یوکرین پر بھرپور حملے کا آغاز کیا تھا جس کے بعد سے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک چھائی رہنے والی حزب اختلاف روس میں تقریبا ختم ہو گئی۔
صدر پوتن نے اپنی حکمرانی کے بالکل آغاز میں روس کے طاقتور اور مالدار افراد کے سیاسی عزائم کے حامل افراد کو اپنے مقصد کے لیے منتخب کیا۔
اس ضمن میں روسی تیل کمپنی یوکوس کے سربراہ میخائل خودورکوفسکی کو 2003 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر اپوزیشن جماعتوں کو فنڈز فراہم کرنے، ٹیکس بچانے اور چوری کا الزام لگایا گیا۔
تقریباً 10 سال جیل میں گزارنے کے بعد جب انھیں رہائی ملی تو انھوں نے روس چھوڑ دیا۔
روسی حزب اختلاف کی نمایاں شخصیت الیکسی ناوالنی
الیکسی ناوالنی جیل 2021 سے روس کی جیل میں نو سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں
اب تک روس میں حزب اختلاف کی سب سے نمایاں شخصیت الیکسی ناوالنی کی رہی ہے جنھوں نے جیل سے صدر پوتن پر الزام لگایا ہے کہ لاکھوں بے گناہ افراد پوتن کی مجرمانہ اور جارحانہ جنگ کا شکار بن چکے ہیں۔
اگست 2020 میں ناوالنی کو سائبیریا کے دورے کے دوران انتہائی طاقتور زہر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں وہ تقریباً ہلاک ہونے کے قریب تھے جس پر انھیں علاج کے لیے جرمنی لے جانا پڑا۔
جنوری 2021 میں جب وہ دوبارہ روس واپس آئے تو اپنے جوش خطابت سے انھوں نے حزب اختلاف کے مظاہرین کو عارضی جوش دلا دیا لیکن انھیں جلد ہی فراڈ اور توہین عدالت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔
اس وقت سے الیکسی ناوالنی جیل میں نو سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔2010 کی دہائی میں الیکسی ناوالنی بڑے پیمانے پر حکومت مخالف ریلیوں میں پیش پیش رہے اور اس دوران انھوں نے انسداد بدعنوانی فاؤنڈیشن ایف بی کے کی جانب سے آن لائن تہلکہ خیز انکشافات کیے جس نے لاکھوں افراد کی توجہ حاصل کی۔
سنہ 2021 میں اس فاؤنڈیشن پر انتہا پسندی کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
الیکسی ناوالنی بدعنوانی کے الزامات کو سیاسی محرک قرار دے کر بارہا مسترد کر چکے ہیں تاہم ان کے بہت سے ساتھی سکیورٹی سروسز کے دباؤ میں آ گئے اور کچھ بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں، جن میں ایف بی کے، کے سابق سربراہ ایوان زہدانوف، تنظیم کے سابق وکیل لیوبوف سوبول اور روس بھر میں ناوالنی کے دفاتر کے توسیعی نیٹ ورک کے سربراہان شامل ہیں۔
ناوالنی کے انتہائی قریبی ساتھی لیونیڈ وولکوف نے اس وقت روس چھوڑ دیا جب 2019 میں ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلایا گیا۔
بورس بیریزوسکی بھی روس کے ایک ایسے طاقتور امرا میں شمار کئے جاتے تھے جنھوں نے صدر پوتن کو برسر اقتدار لانے میں بھی مدد کی تھی۔ تاہم ان کو بھی جلا وطنی اختیار کرنا پڑی اور 2013 میں برطانیہ میں جلاوطنی کے دوران مبینہ طور پر خودکشی کر کے ان کی زندگی کا باب ختم ہو گیا۔
روس میں تمام اہم میڈیا رفتہ رفتہ یا توریاست کے کنٹرول میں آ گیا یا کریملن کی سرکاری ہدایات پر چل پڑا۔
الیا یاسین ’غلط معلومات‘ پھیلانے کے الزام میں جیل میں قید
روس میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پوتن کے ایک اور اہم ناقد الیا یاسین بھی ہیں، جنھوں نے روس کے یوکرین پر حملوں پر کڑی تنقید کی۔
اپریل 2022 میں یوٹیوب پر ایک لائیو سٹریم میں انھوں نے روسی افواج کے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور صدر پوتن کو اس جنگ کا بدترین قصاب قرار دیا۔
اس لائیو سٹریم کو روسی فوج کے بارے میں جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانا قرار دیا گیا اور قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
یہ قانون 24 فروری 2022 کو روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے فوراً بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا۔
الیا یاسین سال 2000 میں 17 سال کی عمر میں اس وقت سیاست میں شامل ہوئے تھے جس سال پوتن اقتدار میں آئے تھے۔
برس ہا برس تک حزب اختلاف میں سرگرم رہنے کے بعد 2017 میں وہ ماسکو میں کراسنوسلسکی ڈسٹرکٹ کونسل کے سربراہ منتخب ہوئے جہاں وہ کریملن کے خلاف مسلسل تنقید کرتے رہے۔
سنہ 2019 میں ماسکو سٹی کونسل کے انتخابات کے لیے آزاد اور مخالف سوچ رکھنے والے امیدواروں کو رجسٹر کرنے سے حکام نے انکار کیا جس پر الیا یاسین نے حکومت مخالف مظاہرے شروع کیے اور نتیجتاً انھیں ایک ماہ سے زیادہ وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیے:
جمہوریت کے لیے جنگ
کارا مرزا جمہوریت پسند گروہ ’اوپن روس‘ کے ڈپٹی چیئرمین تھے۔ اس تنظیم کو روس کے نامور امرا میں شمار کیے جانے والے میخائل خودورکووسکی نے قائم کیا تھا۔
تاہم اس گروپ کو روس میں باضابطہ طور پر ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے 2021 میں بند کر دیا گیا تھا۔ اوپن روس کے سربراہ، آندرے پیوواروف اس ’ناپسندیدہ تنظیم‘ سے وابستہ رہنے کے باعث چار سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
اور اب کارا مرزا کو طویل قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن ان کے قریبی دوست اور اہم روسی اپوزیشن لیڈر بورس نیمتسوف کے برعکس وہ ابھی زندہ سلامت موجود ہیں۔
روس میں صدر پوتن کے دور حکومت سے پہلے نیمتسوف نے گورنر، وزیر توانائی اور پھر نائب وزیراعظم جیسے اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں، وہ روس کی پارلیمنٹ کے رکن کے لیے بھی منتخب ہوئے۔ اس کے بعد وہ کریملن کی مخالفت میں تیزی سے آواز اٹھانے لگے اور ولادیمیر پوتن پر تنقید کرنے والی متعدد رپورٹیں شائع کیں اور ان کی مخالفت پر مبنی کئی مظاہروں میں شرکت کی۔
27 فروری 2015 کو نیمتسوف کو کریملن کے باہر ایک پل عبور کرتے ہوئے اس وقت چار گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ 2014 میں یوکرین پر روس کے ابتدائی حملے کے خلاف مارچ کے لیے حمایت کی اپیل کر رہے تھے۔
نیمتسوف کے قتل کے الزام میں پانچ افراد کو ملزم قرار دیا گیا تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان کے قتل کا حکم کس نے دیا تھا یا کیوں دیا تھا۔
ان کی موت کے سات سال گزرنے کے بعد ایک تحقیق سے اس بات کے شواہد سامنے آئے کہ قتل سے کچھ عرصہ قبل ایک خفیہ قاتل سکواڈ سے تعلق رکھنے والا سرکاری ایجنٹ نیمتسوف کا ہر جگہ تعاقب کرتا پایا گیا تھا۔
حزب اختلاف کی سرکردہ شخصیات کے علاوہ بھی کئی دیگر افراد کو اختلاف ظاہر کرنے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
گذشتہ سال یوکرین پر روس کے حملے کے آغاز کے بعد روس میں آزاد میڈیا کو فرار ہو کر بیرون ملک جانا پڑا جن میں نیوز سائٹس میڈوزا، نووایا گازیٹا اور ٹی وی رین شامل ہیں۔ جبکہ کئی کو اپنی نشریات بند کرنا پڑیں۔
تجربہ کار صحافی الیگزینڈر نیوزوروف کی طرح لاتعداد تبصرہ نگار جلاوطنی اختیار کر چکے ہیں جنھیں روس میں غیر ملکی ایجنٹ کا نام دیا گیا ہے اور روسی فوج کے خلاف جعلی اور گمراہ کن خبریں پھیلانے کے جرم میں ان کی غیر حاضری میں آٹھ سال قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔
مارچ 2023 میں ریاضی کے ایک طالب علم دمتری ایوانوف کو جنگ مخالف ٹیلی گرام چینل چلانے کے الزام میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اس سے قبل الیکسی موسکالیف کو ان کی 13 سالہ بیٹی کی جانب سے سکول میں بنائی گئی جنگ مخالف تصویروں کی تحقیقات کے بعد دو سال قید کی سزا سنائی گئی اور کہا گیا کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر اختلاف رائے کو بھڑکایا۔
ولادیمیر پوتن کو اس بات کو یقینی بنانے میں دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ لگا کہ کوئی بھی طاقتور مخالف ان کے اقتدار کو چیلنج کرنے کے لیے آزاد نہ رہے۔ اگر تو یہ ان کا باقاعدہ منصوبہ تھا تو وہ اپنے اس منصوبے میں کامیاب رہے۔
Comments are closed.