- مصنف, ویدالی چبیلوشی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
وسطی افریقہ کی ریاست ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں حال ہی میں کچھ قیدیوں کے جیل سے فرار ہونے کی ناکام کوشش کے دوران 129 قیدی مارے گئے ہیں۔جیل کاٹنا یوں تو کسی کے لیے بھی آسان کام نہیں ہوتا تاہم ڈی آر کانگو کی اس جیل کو قیدی ’جہنم‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔جیل سے فرار کی کوشش کے دوران ہونے والی مڈبھیر میں زندہ بچ جانے والے چار قیدیوں نے ’نیو یارک ٹائمز‘ سے بات کی ہے اور اِس جیل کے ہولناک حالات کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ جس دن جیل توڑنے کے منصوبے پر عمل کیا گیا اُس دن 36 گھنٹے پہلے سے جیل میں نہ ہی صاف پانی تھا نہ ہی بجلی تھی۔
کہا جا رہا ہے کہ سب سے پہلے جو قیدی جیل توڑ کر باہر بھاگے تھے ان سے گرمی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔انسانی حقوق کے گروپ اس جیل میں موجود قیدیوں کو درپیش مشکل ترین حالات کے بارے میں اکثر آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ تاہم اس واقعے کے بعد وہاں کے حالات ایک بار پھر موضوع بحث ہیں۔ قیدیوں کے فرار کے دوران اس بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا واقعہ رواں ماہ دو ستمبر کی رات پیش آیا تھا۔کانگو کے وزیر داخلہ ژاقمن شبانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جیل سے ایک بڑی تعداد میں قیدیوں نے بھاگنے کی کوشش کی۔ ان کے فرار کی کوشش ناکام بنانے کے لیے فائرنگ کی گئی جس میں 129 قیدی ہلاک ہو گئے۔حکام کے مطابق 24 قیدیوں کی ہلاکت گولی لگنے سے ہوئی جبکہ فرار ہونے کی کوشش کرنے والے دیگر قیدیوں میں بھگدڑ مچی اور تنگ جگہ میں کچلے جانے سے ان کا دم گُھٹ گیا۔
’ یہ جیل نہیں بلکہ ایک حراستی مرکز ہے‘
،تصویر کا ذریعہStanis Bujakera
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق یہاں قیدیوں کے بڑھتے ہجوم سمیت کھانے کے ناقص معیار اور پینے کے صاف پانی کی کمی کے سنگین مسائل ہیں۔صحافی سٹینس بوجاکیرا نے بتایا کہ ’مکالہ جیل کے حالات غیر معمولی ہیں۔ یہاں لگے پانی کے پمپ خشک رہتے ہیں، نہ کسی کو پتہ ہوتا ہے کہ بجلی کب آئے گی۔ قیدیوں کو کئی راتیں اندھیرے میں گزارنی پڑتی ہیں۔‘انھوں نے بتایا کہ یہاں قیدیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ’جیل میں قیدیوں کو گنجائش سے اس قدر زیادہ بھر دیا گیا ہے کہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔‘
قیدیوں کے پاس ٹانگیں بھی سیدھی کرنے کی جگہ نہیں
،تصویر کا ذریعہStanis Bujakera
’تبدیلی کے انتظار میں لوگ مر رہے ہیں‘
،تصویر کا ذریعہEPAکانگو کے جیلوں میں ملنے والے کھانے بھی کڑی تنقید کی زد میں ہیں۔ مکالہ جیل میں قیدیوں کو صرف ایک وقت کا کھانا ملتا ہے جس میں غذائیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ سٹینس بوجاکیرا نے اپنی قید کے دوران اس کی تصاویر لی تھیں۔ ان کے مطابق کھانا اس قدر خراب ہوتا ہے کہ قیدیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ یہ کھانا نہ کھائیں بلکہ وہ کھائیں جو ان کے گھر والے ان کے لیے لاتے ہیں۔ تاہم ہر قیدی اتنا خوش نصیب نہیں ہوتا۔سنہ 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق مکالہ جیل میں 17 قیدی بھوک سے مر گئے تھے۔انسانی حقوق کے لیے سر گرم روسٹن منکیٹا کہتے ہیں کہ جیل کے ایسے حالات قیدیوں کو جیل توڑ کر بھاگنے کے بارے میں سوچنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔انھوں نے حکام سے کہا کہ نئے جیل بنائے جائیں اور جو جیل پہلے سے موجود ہیں ان میں سہولیات کو بہتر بنائیں تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔سٹینس بوجاکیرا جو آج کل امریکہ میں رہائش پذیر ہیں، کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی جلد آنی چاہیے۔’انصاف کا یہ نظام نہایت گندا ہے۔ تبدیلی کے انتظار میں لوگ مر رہے ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.