جھوٹ پکڑنے والی ٹیکنالوجی کس حد تک قابل اعتبار ہے؟
پروفیسر ییل ہانین میرے چہرے کے بائیں جانب کئی الیکٹروڈز چپکاتے ہیں۔
پروفیسر ییل کہتی ہیں: ‘اپنی آنکھیں ہلائیں، پلکیں جھپکائیں، مسکرائیں۔ اب آرام کرنے کی کوشش کریں۔ ہم جلد ہی دیکھ لیں گے کہ آیا آپ جھوٹے ہیں یا سچے۔’
پروفیسر ہانین اور ان کے ساتھی پروفیسر ڈینو لیوی اسرائیل کی تل ابیب یونیورسٹی میں ایک ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس ٹیم نے جھوٹ کا پتا لگانے کا ایک نیا طریقہ تیار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے دو قسم کے جھوٹے لوگوں کی شناخت کی ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو غیر ارادی طور پر اپنی بھنویں ہلاتے ہیں جب وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اور دوسرے وہ ہیں جو ہونٹوں کی ہلکی سی حرکت کو کنٹرول نہیں کر سکتے جہاں ان کے ہونٹ ان کے گالوں سے ملتے ہیں۔
ان کا سافٹ ویئر اور اس کا الگورتھم ابھی 73 فیصد جھوٹ کا پتہ لگا سکتا ہے اور وہ اس نظام کو مزید بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ‘جب آپ جھوٹ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان چیزوں میں سے ایک جس سے آپ بچنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ہے کسی بھی قسم کا جسمانی رد عمل۔’
پروفیسر لیوی نے مزید کہا: ‘لیکن آپ کے لیے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے جھوٹ کو چھپانا بہت مشکل ہے۔’
جھوٹ کا پتہ لگانے کے طریقے غالباً اس وقت سے موجود ہیں جب تک کہ لمبی لمبی کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ پہلی دستاویزی مثالوں میں سے ایک چین کی ہے جہاں ایک ہزار سال پہلے ایک مشتبہ شخص کو خشک چاولوں سے اپنا منہ بھرنا پڑتا تھا ہے۔
ایک وقت کے بعد اناج کی جانچ کی جاتی اور اگر وہ خشک رہتے تو اس شخص کے مجرم ہونے کا تعین کیا جاتا تھا۔ نظریہ یہ تھا کہ اگر فرد واقعی جھوٹ بولتا ہے تو وہ خوفزدہ ہوگا یا گھبرا جائے گا، اور اس وجہ سے اس کا منہ خشک ہوگا اور چاول خشک رہے گا۔
20ویں صدی کے اوائل میں جھوٹ کا پتہ لگانے والی پہلی مشین یا پولی گراف کی ایجاد ہوئی۔ ان میں سے سب سے مشہور ‘اینالاگ پولی گراف’ ہے، جس میں عام طور پر تین یا چار سیاہی سے بھری سوئیاں ہوتی ہیں جو حرکت پذیر کاغذ کی پٹی پر گول رقص کرتی ہیں۔
مشتبہ شخص کی انگلیوں، بازوؤں اور جسم سے سینسر جڑے ہوتے ہیں اور اس کے بعد مشین سانس لینے کی رفتار، نبض، بلڈ پریشر اور پسینے کی پیمائش کرتی ہے اور اسی حالت میں وہ کئی سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔
پھر بھی ان مشینوں کی درستگی کے بارے میں مسلسل خدشات رہے ہیں کہ کیا ان کو بے وقوف بنانا ممکن ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے محققین اور ٹیکنالوجی فرمیں مزید ہائی ٹیک پولی گراف سسٹم تیار کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
نیدرلینڈز کے روٹرڈیم کی ایراسمس یونیورسٹی میں ڈاکٹر سیبسٹین سپیئر اور ان کی ٹیم ایم آر آئی (مقناطیسی گونج امیجنگ) مشین کا استعمال کر رہی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا کوئی جھوٹ بول رہا ہے یا دھوکہ دے رہا ہے۔ وہ سوالات کے جواب میں دماغی سکینوں میں رنگ کی تبدیلیوں کو دیکھ کر ایسا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سپیئر کہتے ہیں: ‘بنیادی طور پر ہم [دماغ کے] مختلف حصوں کو دیکھتے ہیں جب کوئی دھوکہ دینے یا ایماندار ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ زیادہ مضبوطی سے متحرک ہوتے ہیں [سکین پر روشن ہوتے ہیں] ۔’
اوٹاہ کی ایک کمپنی کنویرس میں جھوٹ کا پتہ لگانے کا ایک ہائی ٹیک نظام آئی ڈیٹیکٹ پہلے سے ہی استعمال میں ہے۔ یہ جھوٹ کا پتہ لگانے کے لیے آنکھوں کی غیر ارادی حرکت پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
جس شخص کے جھوٹ کی جانچ ہو رہی ہوتی ہے اس سے متعدد صحیح یا غلط، یا ہاں اور نہیں والے سوالات کے جوابات مانگے جاتے ہیں۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو آنکھ سے باخبر رہنے والا سافٹ ویئر ان کے ردعمل کو دیکھتا اور مطالعہ کرتا ہے۔ اس کے بعد نتیجہ پانچ منٹ کے اندر فراہم کیا جاتا ہے، اور یہ 86-88 فیصد درست ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
کنویرس کمپنی کہنا ہے کہ آئی ڈیٹیکٹ کو اب 50 ممالک میں 600 سے زیادہ صارفین استعمال کرتے ہیں،جس میں 65 امریکی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں اور دنیا بھر میں تقریباً 100 مزید ایجنسیاں اسے استعمال کر رہی ہیں۔
چیف ایگزیکٹیو ٹوڈ میکلسن کا کہنا ہے کہ اس ٹیسٹ کو حکام اور فرموں کی جانب سے متعدد چیزوں کی جانچ کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے: ان میں پیشگی جرائم، منشیات کا ماضی یا حال میں استعمال، غیر رپورٹ شدہ انضباطی کارروائی، نوکری کے لیے دی جانی والی درخواست یعنی سی وی پر جھوٹ لکھنا اور دہشتگردوں کے ساتھ تعلقات کا بھی پتا چلایا جا سکتا ہے۔
دریں اثنا پولیس کے جاسوس کسی جرم سے متعلق مخصوص سوالات پوچھنے کے لیے آئی ڈیٹیکٹ کا استعمال کر سکتے ہیں۔
تاہم یہ بات انتہائی اہم ہے کہ جھوٹ پکڑنے والوں کی قانونی حیثیت ہر ملک کے نظام کے مطابق ہوتی ہے۔
برطانیہ میں پولی گرافس سنہ 2014 سے ’جنسی جرائم کے مرتکب افراد کے انتظام میں‘ پروبیشن سروس کے ذریعے اسے استعمال کر رہے ہیں۔ اور اب ان کا گھریلو زیادتی کے مجرموں کے حوالے سے ٹرائل کیا جا رہا ہے۔
لیکن پولی گراف ٹیسٹ کے نتائج کو برطانیہ کے تین الگ الگ قانونی نظاموں۔۔ انگلینڈ اور ویلز، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں فوجداری مقدمات میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
برطانیہ کے آجروں کو عملے کا جھوٹ کا پتہ لگانے والے ٹیسٹ کی اجازت حاصل ہے مگر یہ اختیاری ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے
امریکہ میں مختلف ریاستوں کے اپنے اپنے قوانین ہیں اور امریکی ریاست کا وفاقی قانون ان سب سے مقدم ہے جو اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
مثال کے طور پر کیلیفورنیا میں اگر دونوں فریق متفق ہوں تو ریاست کے قوانین فوجداری مقدمات میں جھوٹ کا پتا لگانے کے لیے ٹیسٹ کی اجازت دیتے ہیں۔ مگر ریاست نیویارک میں کسی بھی صورت میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ اور امریکہ کی پولیس یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ مشتبہ یا گرفتار شخص کا ٹیسٹ کروایا جائے۔
دریں اثنا فیڈرل ایمپلائی پولی گراف پروٹیکشن ایکٹ کمپنیوں کو امتحان کے ذریعے ملازمت کی درخواستیں دینے سے روکتا ہے۔
کرسٹوفربرگرس
سی آئی اے کے سابق افسر کرسٹوفر برجیس نے خبردار کیا ہے کہ جھوٹ پکڑنے والوں کو مجرموں یا جاسوسوں کے جرم یا بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے ان مشینوں کو سب کچھ نہیں سمجھنا چائیے۔
ان کے مطابق ’یہ ایک ایسا آلہ ہے جسے دوران تفتیش استعمال کیا جاتا ہے۔ ثبوت ایسا کہ جس سے پتا چلا سکے کہ جھوٹوں، بدمعاشوں، دھوکے بازوں اور جعل سازوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔‘
کرسٹوفر برجیس، جو اب ایک سیکورٹی تجزیہ کار ہیں، مزید کہتے ہیں کہ آلات مکمل طور پر درست نہیں ہیں، اور کہتے ہیں کہ وہ خود بھی سنہ 1990 کی دہائی کے وسط میں ایک غلط ٹیسٹ کے نتیجے میں غلط طور پر پھنس گئے تھے۔
جھوٹ کا پتا چلانے کے لیے جیسے جیسے ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس سے اخلاقی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ تل ابیب یونیورسٹی میں واپس آنے والے محققین کو امید ہے کہ الیکٹروڈز کو ویڈیو کیمروں اور سافٹ ویئر سے بدل دیا جائے گا، جو چہرے کے پٹھوں کی حرکات کی بنیاد پر دور سے یا انٹرنیٹ لنک کے ذریعے بھی جُھوٹے کی نشاندہی کر سکیں گے۔
پروفیسر لیوی نے پیش گوئی کی کہ بینک میں، پولیس کی پوچھ گچھ میں، ہوائی اڈے پر یا آن لائن ملازمت کے انٹرویوز میں، چہرے کے پٹھوں کی حرکت کی نشاندہی کرنے کے لیے تربیت یافتہ ہائی ریزولوشن کیمرے جھوٹ سے سچے بیانات کا پتا چلانے کے قابل ہوں گے۔ پوچھ گچھ کے بعد میں پوچھتا ہوں کہ کیا میں پاس ہو گیا ہوں۔ دو پروفیسرز نے مذاق سے کہا کہ ’تم بہت اچھے جھوٹے نہیں ہو۔‘
Comments are closed.