امریکی محققین کا کہنا یے کہ جھوٹی مسکراہٹ سچ میں انسان کا موڈ بہتر کرسکتی ہے۔
انسانی رویوں پر کیے گئے حالیہ مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانی جسم میں آنے والی تبدیلیوں کا اثر دماغ پر بھی مرتب ہوتا ہے۔
Nature Human Behaviour نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ تبدیلیاں دماغ کو موڈ اور جذبات کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں جیسا کہ دل کی تیز دھڑکن خوف یا خوشی کے احساسات کو اُجاگر کرتی ہے۔
ایسے ہی ایک مسکراہٹ دماغ کو دھوکہ دے کر حقیقی خوشی کو جنم دے سکتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ جذبات کا شعوری اظہار ، حقیقی جذبات کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر نکولس کولس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص ہر وقت بھنویں چڑھا کر رہتا ہے تو اس کے اندر غصے کے جذبات جنم دیتے ہیں اور ایسا ہی مسکراہٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔
اس مطالعے کے لیے ماہرین نے ایک ’’دی مینی اسمائلز کولیبریشن‘‘ نامی تحقیقی تجربہ مرتب کیا جس میں 19 مختلف ممالک کے 3 ہزار 8 سو 78 افراد کو شامل مطالعہ کیا۔
ان افراد میں سے نصف کو اپنے منہ میں قلم رکھ کر کسی کتے، بلی کے بچوں یا پھولوں کی خوشگوار تصاویر دیکھنے کے لیے کہا گیا جبکہ نصف کو صرف لبوں پر جعلی مسکراہٹ سجانے کی ہدایت کی گئی اور کہا گیا کہ وہ اپنے چہروں کے پٹھوں کو اسی طرح حرکت دیں جیسے ہم مسکراتے وقت دیتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ مسکراہٹ کو کیسے جعلی بنایا جائے کیونکہ قلم کو منہ میں رکھ کر مختلف خوشگوار چیزوں کو دیکھ کر جعلی مسکراہٹ کا طریقہ کار غیر مؤثر ثابت ہوا اور شرکاء تحقیق کو دانتوں پر دباؤ پڑنے سے وہ تکلیف کا شکار ہوگئے جبکہ حقیقی مسکراہٹ میں، دانتوں پر دباؤ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی چپکتے ہیں۔
دوسری جانب قلم کے بغیر اپنے چہروں کے پٹھوں کو اسی طرح حرکت دے کر جیسے ہم مسکراتے وقت دیتے ہیں، لبوں پر جعلی مسکراہٹ سجانے والے افراد نے حقیقی خوشی محسوس کی۔
Comments are closed.