جو جاگ رہا ہے، بھاگ رہا ہے: وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات
- مصنف, وسعت اللہ خان
- عہدہ, صحافی و تجزیہ کار
شاید ہی کوئی ہفتہ جاتا ہو جب خبر نہ آتی ہو کہ ترکی یا لیبیا کی سمت سے بحیرۂ روم کے دوسری جانب یونان یا اٹلی جاتے ہوئے غیر قانونی تارکینِ وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئی اور اس میں اتنے افغان، افریقی اور پاکستانی سوار تھے۔
بحیرۂ روم اس وقت دنیا کا سب سے بڑا آدم خور سمندر ہے جو ہر سال کم از کم 20 ہزار انسان نگل جاتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ حالات اور خود سے تنگ زندگی کے متلاشیوں کو موت کی پناہ بخش دیتا ہے۔
ایسی ہر خبر کے بعد یہ بھی ہمارا قومی معمول ہے کہ انسانی سمگلروں کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ پکڑ دھکڑ ہوتی ہے اور پھر اگلی خبر تک ایک بے بس خاموشی چھا جاتی ہے۔
تازہ ترین بھی وہی باسی ترین کہانی ہے کہ ایک کشتی جس میں گنجائش سے کہیں زیادہ (ساڑھے سات سو) انسان سمگلروں کو لاکھوں روپے دے کر سوار ہوئے۔ یہ کشتی یونان کے ساحل کے قریب ڈوب گئی۔ ایک سو بیس انسان بچا لیے گئے۔ ان میں بارہ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ بقیہ چھ سو سے زائد لاشوں میں سے کتنے پاکستانی ہیں؟ اس کی چھان بین حسبِ معمول دفترِ خارجہ کر رہا ہے۔
شناحت ایک مشکل کام ہے کیونکہ غیر قانونی تارکینِ وطن کا باقاعدہ یا سرکاری ریکارڈ تو کہیں بھی نہیں ہوتا۔ وہ جب کسی حادثے سے دوچار ہوتے ہیں، گرفتار یا ڈی پورٹ ہوتے یا مرتے ہیں تب ہی ان کی شناخت کے لیے سرکاری سطح پر بھاگ دوڑ ہوتی ہے۔
اگر یہ ساڑھے سات سو لوگ بھی یورپ کے ساحل پر زندہ اتر کے غائب غلا ہو جاتے تو سوائے ان کے گھر والوں کے کسی بھی ادارے کو ہوا تک نہ لگنی تھی کہ کتنے پاکستانی کس دن یہ ملک چھوڑ گئے۔ اب چونکہ لاشوں اور ڈی پورٹیز کی واپسی کا معاملہ ہے لہذا بادلِ نخواستہ ریاستی اداروں کو رسمی ہاتھ پاؤں چلا کے اپنا وجود ثابت کرنا پڑ رہا ہے۔
بنیادی طور پر انسانی سمگلنگ کی روک تھام ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے۔ ایف آئی اے جئید انسانی سمگلروں کی ایک سالانہ ریڈ بک بھی شائع کرتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنے سمگلر یا ریکروٹنگ ایجنٹ پکڑے گئے، کتنوں کے لائسنس منسوخ ہوئے اور کتنے مفرور ہیں۔
پر آج تک یہ خبر پڑھنے کو نہیں ملی کہ کتنے انسانی سمگلروں کو طویل المیعاد قید کی سزا نہ صرف سنائی گئی ہو بلکہ انھوں نے پوری کاٹی بھی ہو۔
دراصل یہی وہ لوگ ہیں جن کے مقدمے دہشت گردی کی عدالتوں میں چلنے چاہییں۔ مگر اربوں روپے کی اس انڈسٹری میں سمگلرز، ان کے پشت پناہ سیاستدان اور ان کے پشت پناہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ان کے پشت پناہ عرف جہاں پناہ۔ سب کے سب ایک ہی پیج پر ہیں۔
لہذا جتنے انسانی سمگلر پکڑے جاتے ہیں لگ بھگ اتنے ہی بھائی بھتیجے کچھ دنوں میں اور نمودار ہو جاتے ہیں۔
پکڑ دھکڑ کا یہ ٹوپی ڈرامہ بھی ایسے ہی ہے جیسے کسٹم والے شراب ضبط کر کے گودام میں جمع کرتے جاتے ہیں۔ اچھی والی بوتل خود بخود الگ ہو جاتی ہے اور گھٹیا والیوں کو ایک ڈھیر پر سجا کے میڈیائی کرائم رپورٹرز کی موجودگی میں نذرِ آتش کر دیا جاتا ہے۔ ضبط شدہ منشیات کے ساتھ بھی لگ بھگ ایسا ہی سلوک ہوتا ہے۔
تو کیا انسانی سمگلروں کو لعن طعن کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟
یہ تو سیدھا سیدھا سپلائی اور ڈیمانڈ کا مسئلہ ہے۔ ویسے بھی اپنے حال سے ناامید کسی بھی انسان کو سنہرے مستقبل کی شارٹ کٹ پگڈنڈی دکھا کے پھانسنا پیشہ ور دھندے بازوں کے لیے کس قدر مشکل ہے؟
پاکستانی شہری عادل حسین صحافیوں کو بتا رہے ہیں کہ ان کے 43 سال کے بھائی اس کشتی میں سوار تھے جو جنوبی یونان کے ساحل کے قریب ڈوب گئی
عوام کو خوشحالی کا جھانسہ دے کر اختیار و وسائل سمیٹنے کی بات ہو، کسی انتہائی غیر اہم اور نکھٹو سمجھے جانے والے نوجوان کو جنت بذریعہ جہاد کی راہ دکھاتے دکھاتے کسی اور کی جنگ کا خام مال بنانے یا خودکش جیکٹوں کے گودام تک پہنچانے کی حکمتِ عملی ہو، ایک لاکھ کے کرارے نوٹوں کی دو ڈھائی گڈیاں دکھا کے گردے بیچنے کی ترغیب ہو یا پھر یورپ کی رنگین گلاسی تصاویر سے مبہوت لڑکے کا ماں کے زیور بیچ کر کسی انسانی سمگلر کے ہاتھوں میں اپنی زندگی سونپنے کا فیصلہ ہو۔ یہ سب ایک ہی سکے کے کثیرالجہتی رخ ہیں۔ جہاں شکار وہیں شکاری۔
ایک ایسی ریاست جسے کلپٹو کریسی نے ایناکونڈا کی طرح جکڑ لیا ہو۔ وہاں کے کس ادارے سے پوچھا جائے کہ جن سمگلروں اور ان کے پشت پناہوں اور پشت پناہوں کے بھی آقاؤں کی داستانیں، طریقہِ واردات، دلالوں کا نیٹ ورک اور شکار ہونے والے طبقات و کرداروں کی تفصیل شمالی و وسطی پنجاب کے ایک ایک قصبے کے بچے بچے کو معلوم ہے، ان پر ہاتھ ڈالنا کتنا آسان یا کتنا دشوار ہے؟
یہ پوری ٹریل کس طرح کسی منڈی بہاؤ الدین، یا سمبڑیال یا کامونکی سے چلتی ہوئی براستہ بحر و بر کس طرح شمالی افریقہ اور یورپ تک پہنچتی ہے؟ سب کچھ اتنا ہی واضح ہے جتنی کہ دیوارِ چین۔ پر جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
پہلے پاکستانی پاسپورٹ بے توقیر ہوا اور دنیا کے دو سو میں سے صرف دس ممالک ایسے باقی ہیں جہاں پاکستانی پیشگی ویزے کے بغیر داخل ہو سکتے ہیں۔ پہلے ملک بلیک لسٹ ہوتے تھے۔ اب سنا ہے کہ پاکستانی شہر بھی بلیک لسٹ ہو رہے ہیں جہاں کے مکینوں کو ویزہ اس خدشے کے پیشِ نظر زیادہ مشکل سے ملتا ہے کہ کہیں طیارے سے اترتے ہی ’سلپ‘ نہ ہو جائیں۔
مگر میں جس طبقے کی بات کر رہا ہوں وہ پاسپورٹ، ویزے اور انٹرویو کے جھنجٹ میں پڑے بغیر جانا چاہ رہا ہے اور جا رہا ہے۔ ان میں ان پڑھ، پڑھے لکھے کی بھی قید نہیں۔ ناخواندہ کے لیے ویسے ہی یہاں اندھیرا ہے اور خواندہ و ہنرمند کو دور دور تک روشنی نظر نہیں آ رہی۔
آخر باہر ایسی کون سی جنت منتظر ہے جس میں فوراً ہی داخل کر لیے جائیں گے؟ یہ سوال نہ کوئی پوچھتا ہے نہ کسی کے پاس جواب ہے۔ بس ایک دھن ہے کہ کسی طرح بھی باہر جانا ہے بھلے وہاں جی جائیں یا مرجائیں۔ خود گھر والے بھی جانتے بوجھتے اپنے بچوں کو انجانستان کے بیابان میں دھکیل دیتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ وسطی و شمالی پنجاب کی مائیں اپنے بچوں سے پوچھتی تھیں کہ ’پتر توں ڈپٹی کمشنر تے لگ گیاں اے پر فوج وچ کدوں بھرتی ہووییں گا۔‘
آج کی مائیں پوچھتی ہیں کہ ’پتر تیری پینچروں کی دوکان تو اچھی چل رہی ہے پر باہر کب جائے گا۔ تیرے خاندان کے سارے سپین، اٹلی، ناروے چلے گئے تو کیوں یہاں بیٹھا بیٹھا ہماری بیستی کروا رہا ہے۔ تجھے کون اچھا رشتہ دے گا؟‘
جب اس قدر ناامیدی ہو کہ جو جاگتے میں بھاگ سکتا ہے وہ رکنے کو تیار نہ ہو اور جو نہیں بھاگ سکتا وہ سوتے میں بھاگ رہا ہو۔ تو پھر بقول شیکسپئیر ’ریاست ڈنمارک میں کچھ نہ کچھ تو گل سڑ رہا ہے۔‘
اور جو گل سڑ رہا ہے وہ کیا ہے؟ جانتے بھی ہو تو ہرگز مت بوجھنا۔
Comments are closed.