- مصنف, مارک پیسنگ
- عہدہ, نامہ نگار برائے بی بی سی فیچرز
- ایک گھنٹہ قبل
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے برسوں میں غیر جانبدار اور امن پسند سویڈن نے اپنا ایٹمی بم بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا۔سنہ 1814 کے بعد سے سویڈن نے کوئی جنگ نہیں لڑی تھی لیکن دوسری عالمی جنگ کے بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد شمالی یورپ کے اس غیر جانبدار ملک نے اپنے ملک کی فوج کو ایٹمی ہتھیار سے مسلح کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا مگر حکومت نے ایک لمبی عوامی بحث کے بعد سنہ 1968 میں اسے بند کر دیا۔سویڈین نے اس کے بعد دنیا کے ان منفرد ممالک کے گروپ میں شمولیت اختیار کی جنھوں نے اپنے جوہری پروگرام بند کیے تھے اور دنیا کو دکھایا کہ جوہری اسلحے کی تخفیف ممکن ہے۔ ان ممالک میں سویڈن سمیت جنوبی افریقہ اور یوکرین شامل ہیں۔سویڈن کا جوہری پروگرام، ان سیاست دانوں کے لیے، جو ملک کے جوہری مخالف دستاویزات جلا دینا چاہتے تھے، بہت ’بے چینی ‘ کا باعث تھا جب تک صحافی کرسٹر لارسن نے سنہ 1985 میں سچ کو سامنے لایا اور اس قوم کو اپنی خفیہ جوہری تاریخ کا سامنا کرنے پر مجبور کیا۔
اس پروگرام کے گرد رازداری کے پردے نے اس بارے میں قیاس آرائیوں کو ہوا دی کہ اب بھی سویڈن کے پاس اپنا جوہری ہتھیار بنانے کا خفیہ پلان موجود ہے۔کئی دہائیوں کے بعد سویڈین اب اپنی 200 سالہ غیر جانبداری ختم کر رہا ہے اور روس کے یوکرین پر حملے کے بعد نیٹو کے جوہری اسلحہ رکھنے والے ممالک کے اتحاد کا حصہ بن رہا ہے۔تو ایسا کیا تھا کہ اس سے پہلے سویڈین جوہری ہتھیار بنانا چاہتا تھا اور اس وقت وہ رک کیوں گیا تھا؟ارسوک، سٹاک ہوم کے نواح میں موجود علاقہ ہے، وہاں ایک سکول کی بڑی سی عمارت ہے جو ایک خفیہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ لگتی ہے کیونکہ حقیقت میں ایک زمانے میں ایسا ہی تھا۔یہ عمارت دراصل ماضی میں سویڈش نیشنل ڈیفینس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایف او اے) کا ہیڈ کوارٹر تھی۔ ایف او اے سویڈن کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی بچی ہوئی نشانیوں میں سے ایک ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
- ’ہمیں لگا دنیا ختم ہونے والی ہے‘: امریکہ کے پہلے جوہری تجربے کے متاثرین جنھیں دنیا سے چھپایا گیا27 جولائی 2023
- ایٹم بم بنا کر ’جہانوں کے غارت گر‘ کہلانے والے اوپنہائمر کا فخر پچھتاوے میں کیسے بدلا؟15 جولائی 2023
- ’پراجیکٹ آئلیرو‘: جب سپین ایٹمی طاقت بننے کے قریب پہنچ کر بھی خالی ہاتھ رہ گیا13 مار چ 2024
یہ راز داری بھی سنہ 1954 میں اس وقت ختم ہو گئی جب سویڈش کمانڈر ان چیف نلز سویڈلنڈ نے اس پروگرام کے وجود کو آشکار کیا اور یہ توجیہ پیش کی کہ سوویت حملے کو روکنے کے لیے ان ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔اپریل 1957 میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے اندازا لگایا کہ اگلے پانچ برس میں سویڈن اپنے جوہری ہتھیار بنانے کے قابل ہو جائے گا کیونکہ اس نے مناسب مقدار میں اپنا ری ایکٹر پروگرام تیار کر لیا ہے۔جلد ہی یہ اندازہ کم کر کے چار سال تک بتایا گیا۔اس وقت سویڈش وزیراعظم ٹیگ ایرلینڈر تھے۔ ان کا تعلق فزکس کے شعبے سے رہا تھا اور انھوں نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہ مسلسل بنیادوں پر دنیا کے بڑے طبیعات کے ماہرین سے ایٹم بم کے بارے میں بات کریں گے جن میں نوبیل انعام یافتہ نیلز بوہر بھی شامل ہیں۔ڈینش ماہر طبعیات جنھوں نے جوہری طبیعات میں ابتدا میں شاندار کردار ادا کیا اور پھر جرمنی کے زیر قبضہ ڈنمارک میں دوسری عالمی جنگ کے دوران پہلا ایٹم بم بنانے کے لیے مین ہٹن پراجیکٹ میں شمولیت اختیار کی۔جتنا زیادہ وزیراعظم نے بات کی اتنا ہی زیادہ پھر وہ جوہری پروگرام کے لیے اپنی حمایت دینے میں ہچکچانے لگے۔ اس کے نتائج کو دیکھتے ہوئے وہ مسلسل اس حوالے سے اپنے فیصلے کو تب تک موخر کرتے رہے جب ہتھیاروں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتائج سامنے نہیں آ گئے۔ایما روزینگرن بین الاقوامی امور پر سٹاک ہوم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی محقق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جوہری صلاحیت کے حصول کے خلاف سب سے طاقتور آواز انگا تھورسن کی سربراہی میں دی فیڈریشن آف سوشل ڈیموکریٹک ویمن کی تھی۔سوشل ڈیموکریٹک سے منسلک خواتین بہت ابتدا میں ہی سامنے آئیں اور انھوں نے ان مختلف وجوہات پر بحث کی جن کی وجہ سے سویڈن کو جوہری ہتھیار نہیں حاصل کرنے چاہیے۔وہ کہتی ہیں کہ ’تحفظ فراہم کرنے کی بجائے یہ ہتھیار حقیقت میں شاید سویڈن کو نشانہ بنائیں۔ اس لیے یہ سکیورٹی بڑھانے کی بجائے اسے کم کر دے گا۔‘،تصویر کا ذریعہAlamy’انھوں نے جوہری ہتھیاروں کے انسانیت کے لیے نتائج و اثرات کے حوالے سے بھی بحث کی اور کہا کہ یہ مکمل طور پر غیر اخلاقی ہو گا۔ چنانچہ سویڈن جیسا پرامن ملک جوہری ہتھیاروں سے ہونے والے نقصانات میں حصہ دار نہیں بن سکتا۔روزینگرن کا کہنا ہے کہ ’انھیں یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ وہ ایک جذباتی خاتون ہیں جنھیں ان چیزوں کے بارے میں نہیں کہنا چاہیے جن کی وہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’اور دفاعی پالیسی اس وقت ایک ایسی چیز تھی جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مرد ہی اسے سنبھالنے کے اہل ہیں۔‘ایس ایس کے ایف میں شامل خواتین نے جلد ہی دوسرے گروپس میں شمولیت اختیار کر لی جیسا کہ جوہری پروگرام کے خلاف موجود ایکشن گروپ اے ایم ایس اے اور اس کے بعد عومی رائے بدلنے لگی۔یہ تبدیلی تھی جس میں فوج کی وہ حمایت ان ہتھیاروں کے لیے ختم ہو گئی تھی جو انھوں نے کبھی حاصل کی تھی۔سویڈن کی فوج، فضائیہ اور بحریہ نے یہ جان لیا تھا کہ وہ کس قدر مہنگے تھے اور ان کی ادائیگی کے لیے انھیں اپنی تینوں سروسز سے کٹوتی کرنی پڑے گی۔یہاں دیگر شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون جس میں سویڈش فضاؤں میں امریکی بمباروں کے لیے جگہ بنانا بھی شامل ہےسویڈش جوہری منصوبوں پر امریکہ کا منفی رویہ بھی اہم ہے۔سویڈش فوسرز اور سویلین نیوکلئیر پاور پروگرام اب امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے لگا تھا جیسے کہ میزائل سسٹم، سویلین نیوکلئیر ری ایکٹر کے ڈیزائن کے لیے، ڈیٹا کے لیے حتیٰ کہ جوہری توانائی کے لیے بھی اور اس کی وجہ سے ہی اصل میں سویڈن کے لیے اپنے جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش مشکل ہو گئی تھی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب سویڈن نے امریکہ کے جوہری ہتھیاروں کو خریدنے کے لیے بھی دیکھنا شروع کیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.