جوہری معاہدہ: ایران نے مذاکرات اور نئے فریق کی شمولیت کو مسترد کر دیا
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ وہ اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائیں گے لیکن اس سے پہلے تہران کو اس معاہدے کی تمام شرائط پر مکمل عملدرآمد شروع کرنا ہو گا۔
واضح رہے کہ سنہ 2018 میں امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کی جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اور اقتصادی پابندیوں کے نفاذ کے بعد ایران نے جان بوجھ کر 2015 کے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اجازت سے کہیں زیادہ یورینیئم کی افزودگی شروع کر دی تھی۔
جوہری معاہدے کے تحت امریکہ، چین، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی نے ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی نگرانی کے عوض پابندیوں میں نرمی کی تھی۔
جوہری معاہدہ کیا ہے؟
یہ جوہری معاہدہ ایران اور سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممالک اور جرمنی کے درمیان طے پایا تھا۔ جس کے اہم نکات یہ ہیں:
- ایران یورینیم کی پانچ فیصد سے زائد افزودگی روک دے گا اور درمیانے درجے تک افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو ناکارہ بنائے گا۔
- آراک کے مقام پر بھاری پانی کے جوہری منصوبے پر مزید کام نہیں کیا جائے گا۔
- جوہری ہتھیاروں کے عالمی ادارے کو نتنانز اور فردو میں واقع جوہری تنصیبات تک روزانہ کی بنیاد پر رسائی دی جائے گی۔
- ان اقدامات کے بدلے میں چھ ماہ تک جوہری سرگرمیوں کی وجہ سے ایران پر کوئی نئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔
- قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں کے سلسلے میں پہلے سے عائد کچھ پابندیاں معطل کر دی جائیں گی۔
- ایران کو تیل کی فروخت کی موجودہ حد برقرار رہے گی جس کی بدولت ایران کو چار ارب بیس کروڑ ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہو سکے گا۔
Comments are closed.