کچھ ممالک نے پچھلے سال نئے جوہری ہتھیاروں کو تعینات کیا ہے یا نئے جوہری ہتھیاروں سے لیس نظام نصب کیے ہیں۔رہورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران انڈیا نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے جس کے بعد انڈیا کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے بڑھ گئی ہے۔ سیپری کا کہنا ہے کہ سال 2024 میں نو ممالک امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا کے پاس مجموعی جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہو کر تقریباً 12 ہزار 121 ہوگئی ہے۔ پچھلے سال یہ تعداد 12 ہزار 512 تھی۔واضح رہے کہ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) کا جوہری ہتھیاروں کی تعداد سے متعلق ڈیٹا عوامی طور پر دستیاب معلومات پر مبنی ہوتا ہے۔ اس میں سرکاری ذرائع (سرکاری وائٹ پیپرز، پارلیمانی اور کانگریسی مطبوعات اور سرکاری بیانات) کے ساتھ ساتھ ثانوی ذرائع (نیوز میڈیا رپورٹس اور جرائد، تجارتی جرائد) میں بیان کردہ معلومات شامل ہوتی ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا اور چین کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ
سیپری کی حالیہ سالانہ رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران انڈیا نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں تقریباً پانچ فیصد اضافہ کیا ہے۔ سنہ 2023 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے پاس اندازاً 164 جوہری وار ہیڈز تھے۔ اس سال یہ تعداد بڑھ کر 172 ہو چکی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے پاس موجود جوہری وارہیڈز کی تعداد بنا کسی اضافے کے 170 ہے۔سیپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے جب کہ انڈیا کی توجہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی تعیناتی پر مرکوز ہے۔ ایسے ہتھیار جو چین کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔انڈیا اور پاکستان کے پڑوسی اور دنیا کی تیسری بڑی جوہری طاقت چین کے پاس موجود جوہری ہتھیاروں کی تعداد 22 فیصد اضافے کے ساتھ 410 وار ہیڈز سے بڑھ کر 500 ہوگئی ہے۔سیپری کا اندازہ ہے کہ جنوری 2024 تک چین نے اپنے پاس موجود ایٹمی وار ہیڈز میں سے تقریباً 24 کو لانچروں پر نصب کردیے ہیں۔سال 2023 تک چین کا کوئی بھی جوہری ہتھیار ممکنہ استعمال کے لیے فوجی اسلحہ خانوں میں موجود نہیں تھا۔دفاعی جریدے جینز ڈیفنس ویکلی کے جنوبی ایشیا کے سابق نامہ نگار اور دفاعی تجزیہ کار راہول بیدی نے سیپری کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی ہندی کے نامہ نگار اقبال احمد کو بتایا کہ ’اس رپورٹ کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چین کے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے پاس 500 سے زائد ایٹمی ہتھیار ہیں۔ سیپری کا اندازہ ہے کہ سال 2030 تک یہ تعداد دگنی ہوجائے گی جو کہ لوگوں کے لیے پریشان کن ہے۔‘
دنیا بھر میں کتنے ایٹمی ہتھیار میزائلوں پر نصب ہیں؟
سیپری کی سال 2024 کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی نو جوہری طاقتوں کے پاس مجموعی طور پر 12 ہزار 121 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ پچھلے سال کے مقابلے میں عالمی جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں تقریبا 390 وار ہیذز کی کمی آئی ہے۔تاہم تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ ممکنہ استعمال کے لیے فوجی اسلحہ خانوں میں موجود جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گذشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق نو ہزار 576 جوہری ہتھیار ممکنہ استعمال کے لیے فوجی اسلحہ خانوں میں موجود تھے۔ اس سال یہ تعداد بڑھ کر نو ہزار 585 ہو گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 3904 وار ہیڈز آپریشنل فورسز کے ساتھ تعینات ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2100 ایٹمی وار ہیڈز بیلسٹک میزائلوں میں نصب ہیں۔ان میں سے بیشتر میزائل امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔ تاہم پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چین نے بھی اپنے کچھ وار ہیڈز میزائلوں میں نصب کیے ہیں۔سپری نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انڈیا، پاکستان اور شمالی کوریا بھی مسلسل اپنے میزائلوں کو جوہری وار ہیڈز سے لیس کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ روس، فرانس اور امریکہ پہلے بھی یہ کام کر رہے ہیں اور حال ہی میں چین نے بھی یہ کام کیا ہے۔ اس سے وار ہیڈز کی تعیناتی میں مزید تیزی آسکتی ہے۔ ایسے میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کی تباہی کی طاقت مزید بڑھ سکتی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکہ اور روس ایٹمی ہتھیاروں کی ڈور میں سب سے آگے
سیپری کی رپورٹ کے مطابق روس اور امریکہ کے پاس دنیا کے کل جوہری ہتھیاروں کا 90 فیصد ذخیرہ موجود ہے۔سال 2023 کے دوران امریکہ کے مجموعی جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جبکہ روس کے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے میں 109 وار ہیڈز کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔تاہم تھنک ٹینک کا کہنا ہے گذشتہ ایک سال میں روس نے 36 نئے وار ہیڈز نصب کیے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے اس دعوے کی کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ روس نے بیلاروسی سرزمین پر جوہری ہتھیار تعینات کیے ہیں۔سیپری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس اور امریکہ نے مجموعی طور پر 2500 پرانے جوہری ہتھیار اپنے ذخائر میں سے نکال دیے ہیں۔ وہ انھیں آہستہ آہستہ تباہ کر رہے ہیں۔جب راہول بیدی سے پوچھا گیا کہ مغربی ممالک کے پاس موجود تعداد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہ کیسے چین کو نئے ایٹمی ہتھیار بنانے سے روک سکتے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ ’جوہری ہتھیاروں کے معاملے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی ملک کے پاس کتنے ہتھیار ہیں، اہم بات یہ ہے کہ وہ کتنے مہلک ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
شمالی کوریا کے پاس 90 جوہری وار ہیڈز بنانے کے لیے مواد موجود ہے
سیپری کی رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کے پاس 50 ایٹمی وار ہیڈز ہیں جب کہ یہ مزید جوہری ہتھیار بنانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے لیے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اس کی قومی سلامتی کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کے پاس 90 جوہری وار ہیڈز بنانے کے لیے کافی جوہری مواد موجود ہے۔
’اسرائیل اپنے جوہری ری ایکٹر کو اپ گریڈ کر رہا ہے‘
سیپری کی اس سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے کبھی کھلے عام تسلیم نہیں کیا کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ تاہم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو جدید بنا رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق لگتا ایسا ہے کہ اسرائیل ڈیمونا میں موجود اپنے پلوٹونیم پروڈکشن ری ایکٹر کو اپ گریڈ کر رہا ہے۔جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، سیپری کے ڈائریکٹر ڈین سمتھ کا کہنا ہے کہ ’جیسے جیسے سرد جنگ کے دور کے ہتھیار تباہ کیے جا رہے ہیں، جوہری وار ہیڈز کی کل تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آپریشنل وار ہیڈز کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔‘ڈین سمتھ کے خیال میں آنے والے دنوں میں ان وار ہیڈز کی تعداد کم نہیں ہونے والی ہے جو کہ بہت تشویشناک ہے۔راہول بیدی بھی کہتے ہیں ہم ایک خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’روسی صدر ولادیمیر پوتن نے روس یوکرین جنگ کے حوالے سے اکثر ایٹمی ہتھیاروں کی استعمال کی دھمکی دی ہے۔ ایران بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ اسرائیل کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہیں اور وہ نئے ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ یہ واقعی دنیا کے وجود کے لیے تشویشناک ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.